پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا 200 یونٹ کے بعد سلیب بڑھنے پر اہم فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, July 2025 GMT
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں وزارت توانائی سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔
متعلقہ حکام کی جانب سے کمیٹی کو آئی پی پیز سے متعلق بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا کہ 2015 میں 9765 میگا واٹ آئی پی پیز کی انسٹالڈ کپیسٹی تھی، 2024 میں 25642 میگاواٹ آئی پی پیز کی انسٹالڈ میگا واٹ کیسٹی ہے، 2015 میں میں کپیسٹی پرچیز پرائس 141 ارب سالانہ تھی جو اب 1.
حکام نے کہا کہ مالی سال 2015 میں 58 بلین کلو واٹ آور اور 2014 میں 90 بلین کلو واٹ آور بجلی پیدا ہوئی۔
سید نوید قمر نے کہا کہ پاور ڈویژن بجلی مہنگی ہونے کی وجہ کوئلے پر ڈال رہا ہے، جنید اکبر خان نے کہا کہ گنے کے پھوک سے 200 فیصد تک بجلی کی پیداوار دکھائی گئی ہے یہ کس طرح ممکن ہے۔
سی پی پی اے حکام نے کہا کہ گنے کے پھوک سے 45 فیصد بجلی پیداوار کا اندازہ لگایا گیا تھا تاہم پیداوار بینج مارک سے زیادہ رہی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 200 یونٹ کے بعد سلیب بڑھنے پر اہم فیصلہ کرتے ہوئے وزارت سے مکمل بریفنگ طلب کرلی۔
جنید اکبر نے کہا کہ بتایا جائے 200 یونٹ سے زائد استعمال پر سلیب پر چھے ماہ والی پالیسی کیوں عائد کی گئی، شازیہ مری نے کہا کہ جب ملک میں اضافی بجلی موجود ہے تو سندھ اور خیبر پختونخواہ میں سولہ سولہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کیوں ہورہی ہے۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ایک دفعہ بھی 200 ہونے سے زیادہ بجلی استعمال ہو تو چھ مہینے زیادہ بل آئے گا، اس کا کوئی حل بتا دیں۔
سیکریٹری پاور نے کہا کہ تین چار سال میں 200 یونٹس تک کے صارفین 11 ملین سے بڑھ کے 18 ملین پر چلے گئے ہیں، 58 فیصد صارفیں 200 یونٹس یا اس سے نیچے والے ہیں، حد کو بڑھا دیں گے تو اور سبسڈی چاہئے ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہماری بات چیت چل رہی ہے کہ 2027 تک اس چیز سے نکل جائیں، اور بی آئی ایس پی کے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے ڈائریکٹ سبسڈی پر جائیں۔
سیکریٹری پاور نے کہا کہ 200 یونٹ تک کو اتنا سبسڈائز کر رہے ہیں، 18 ملین صارفین اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، استعمال201 یونٹس پر چلا جاتا ہے تو سبسڈی پھر بھی ہوتی ہے، چھ مہینے کو کم کرنے پر غور کر لیتے ہیں۔
Tagsپاکستان
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
حکومت کا کمرشل استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنےکا فیصلہ
حکومت نے کمرشل استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا جو ہر سال بتدریج کم کی جائے گی تاکہ مارکیٹ میں توازن برقرار رہے۔
وفاقی وزیرِ تجارت جام کمال خان اور وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان کی زیرِ صدارت آٹو انڈسٹری سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا۔
اجلاس میں پاکستان آٹو پارٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن اور پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے وفود نے شرکت کی۔
اجلاس میں آٹو پالیسی، استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد، اور انڈسٹریل فسیلیٹیشن کے امور پر تفصیلی مشاورت کی گئی۔
وفاقی وزیرِ تجارت جام کمال خان نے کہا کہ پری شپمنٹ اور پوسٹ شپمنٹ انسپیکشن کے نظام سے استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد میں بدعنوانی کو مؤثر انداز میں روکا جائے گا۔ معیاری کنٹرول اور واضح درآمدی قواعد سے شفافیت بڑھے گی اور انڈسٹری کو ترقی ملے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی اسکیموں میں ترامیم کے لیے تجاویز تیار کی جا رہی ہیں تاکہ اصل اوورسیز پاکستانیوں کو سہولت فراہم کی جا سکے اور غلط استعمال کو روکا جا سکے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کمرشل استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جائے گی، جو ہر سال بتدریج کم کی جائے گی تاکہ مارکیٹ میں توازن برقرار رہے۔
اجلاس میں بیگیج، گفٹ اور ٹرانسفر آف ریذیڈنس اسکیموں میں یکسانیت پیدا کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا گیا۔
معاونِ خصوصی ہارون اختر خان نے اس موقع پر کہا کہ وزارتِ تجارت اور وزارتِ صنعت کے درمیان قریبی رابطہ ناگزیر ہے تاکہ ایک پائیدار اور عالمی معیار کا آٹو سیکٹر تشکیل دیا جا سکے۔
دونوں ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے لوکلائزیشن، وینڈر ڈیولپمنٹ، ٹیرف اسٹرکچر اور ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے حوالے سے اپنی تجاویز پیش کیں۔
جام کمال خان نے کہا کہ حکومت کا مقصد صرف درآمدات کے غلط استعمال پر قابو پانا نہیں بلکہ مقامی مینوفیکچرنگ کے فروغ اور عالمی سطح پر مسابقتی ماحول پیدا کرنا بھی ہے تاکہ آٹو سیکٹر ملکی معیشت میں مضبوط کردار ادا کر سکے۔