سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف ہے‘ تمام سوئس طالب علموں کے لیے کوئی نہ کوئی فن سیکھنا لازم ہے اور یہ اسے دوران تعلیم سیکھتے ہیں‘ کوئی طالب علم کمپیوٹر سیکھتا ہے‘ کوئی باغ بانی‘ کوئی حجام کا کام‘ کوئی الیکٹریشن اور کوئی کھانے پکانے کا فن سیکھے گا۔
اسکول شروع میں ہفتے کے دو دن انھیں ان کے شوق کے مطابق کام سیکھنے بھجواتے ہیں اور یہ جوں جوں تعلیم میں آگے بڑھتے ہیں ان کی ٹریننگ کی معیاد اور معیار بھی بڑھتا جاتا ہے‘ اس پروگرام کی وجہ سے تمام سوئس لوگ کسی نہ کسی کام کے ماہر ہیں۔
یہ لوگ صبح جلداٹھتے ہیں اور شام کو جلد سو جاتے ہیں‘ آپ کو چھ بجے کے بعد کسی سڑک پر کوئی شخص دکھائی نہیں دیتا‘ شور کرنا یا اونچی آواز ان کے لیے ناقابل برداشت ہے‘ آپ کسی محلے میں چلے جائیں آپ کو وہاں سناٹا ملے گا‘ کھانا سادا کھاتے ہیں اور عموماً ریستورانوں میں کھاتے ہیں‘ گھر میں کھانا بنانے کا رجحان نہیں‘ گھر چھوٹے اور صاف ستھرے ہوتے ہیں لیکن بے انتہا مہنگے ہیں۔
ہم جس فلیٹ میں رہ رہے تھے اس کی مالیت ایک ارب روپے سے زیادہ تھی‘ لوگ پوری زندگی قسطیں دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود گھر کے مالک نہیں بن پاتے‘ اس کی وجہ بہت دلچسپ ہے‘ پوری دنیا میں گھروں کے مالکان قسطیں ادا کرتے ہیں اور 20 سے 25 سال بعد گھر کے مالک بن جاتے ہیں۔
لیکن سوئس میں بینک مقروضوں سے صرف سود وصول کرتے ہیں‘ اصل زر برقرا رہتا ہے یوں پچاس سال قسطیں ادا کرنے کے بعد بھی بے چارے مالک نہیں بن پاتے اور ان کے انتقال کے بعد ان کا گھر بینک کے پاس چلا جاتا ہے لہٰذا سوئس لوگ گھر کو انجوائے کر سکتے ہیں‘ ماحول سے بھی لطف اٹھا سکتے ہیں مگر یہ مالک نہیں بن سکتے۔
ٹیکس اور جرمانے بے تحاشا ہیں‘ معمولی غلطی پر بھی ہزار بارہ سو فرینک جرمانہ ہو جاتا ہے‘ آپ کوا گر ایک بار جرمانہ ہو گیا اور آپ نے یہ ادا نہ کیا تو آپ ذلیل ہو کر رہ جائیں گے‘ ہزار فرینک کا جرمانہ سال دو سال میں دس ہزار ہو جائے گا اور اگر آپ کسی سڑک یا ائیرپورٹ پر پکڑے گئے تو جیل لازم ہے‘ دوسرا یہ غلطی اور کوتاہی کرنے والے سیاحوں کو ہمیشہ کے لیے بین کر دیتے ہیں لہٰذا سوئس میں غلطی سے بچیں۔
جنیوا کے دائیں بائیں فرانس ہے چناں چہ لوگ کام سوئس میں کرتے ہیں اور خریداری اور رہائش فرانس میں رکھتے ہیں‘ اس کی وجہ ٹیکس اور مہنگائی میں کمی ہے‘ فرانس سوئس کے مقابلے میں سستا ہے‘ اس میں ٹیکس بھی کم ہیں اور لوگ یہاں بیس پچیس سال میں مکان کے مالک بھی بن جاتے ہیں۔
مجھے سون سکسیر کے ظہیر صاحب ملنے آئے‘ یہ 80 کی دہائی میں فرانس آئے ‘ زبان سیکھی اور سوئس میں سرکاری ملازمت کر لی‘ ان کا کہنا تھا میں نے آپ کے کسی کالم میں پڑھا تھا انسان کو 40 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے‘ میں نے یہ بات پلے باندھ لی اور 42 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا۔
انھوں نے 6 مکان بنائے‘ کرائے پر چڑھائے اور اب عیش کر رہے ہیں‘ انھوں نے بتایا سوئس میں پورے یورپ کے مقابلے میں تنخواہیں زیادہ ہیں لہٰذا انسان کو کام سوئس میں کرنا چاہیے اور رہائش فرانس میں رکھنی چاہیے۔
میری فرنے والٹیئر میں شہزاد صاحب سے دو مرتبہ ملاقات ہوئی‘ یہ راجپوت کے نام سے ریستوران چلا رہے ہیں‘ پورا خاندان ریستوران کے بزنس سے منسلک ہے‘ والدصاحب نے 45 سال قبل یہ کام اسٹارٹ کیا تھا‘ اب شہزاد صاحب‘ ان کے بھائی اور بہن سب اس بزنس میں ہیں‘یہ بھی کماتے سوئس سے ہیں اور رہتے فرانس میں ہیں۔
ہم چھ دن مورج میں رہے‘ دن کا زیادہ تر حصہ جھیل کے ساتھ واک کرتے تھے یا بینچ پر بیٹھ کر پانی کو دیکھتے رہتے تھے اور شام کے وقت قصبے کی چھوٹی سی مارکیٹ میں چلے جاتے تھے‘ زیادہ تر دکان دار گھروں میں چیزیں تیار کرتے ہیں‘ دو بیکریاں ہیں اور دونوں صرف اتنی بریڈز اور کروسان بناتی ہیں جو صبح نو بجے تک بک جاتی ہیں چناں چہ نو بجے کے بعد کروسان نہیں ملتے تھے۔
میں ایک کیفے کی کافی کا عاشق ہو گیا‘ وہ کیفے صبح آٹھ بجے کھلتا تھا اور تین بجے بند ہو جاتا تھا اور یہ بھی صرف چار دن کھلتا تھا‘ میری چھوٹی بیٹی کی عینک ٹوٹ گئی‘ میں عینک بنوانے کے لیے عینک ساز کے پاس گیا تو نیا تجربہ ہوا۔
عینک کے شیشے سوا سو فرینک کے تھے‘ میں نے اس کے لیے سوا سو فرینک کا فریم پسند کیا تو بل اڑھائی سو کے بجائے سات سو فرینک بل بن گیا‘ میں نے خاتون سے کہا‘ یہ اڑھائی سو ہونا چاہیے‘ اس کے جواب نے حیران کر دیا‘ اس کا کہنا تھا آپ اگر مہنگا فریم خرید یں گے تو اس کے ساتھ شیشوں کی قیمت بھی بڑھ جائے گا۔
میں نے وجہ پوچھی تو اس کا جواب تھا‘ مہنگا فریم ضرورت میں نہیں آتا‘ فیشن میں آتا ہے لہٰذا اس کے ساتھ ہی شیشوں کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے‘ میں نے حل پوچھا تو اس نے 29 فرینک کے فریم ہمارے سامنے رکھ دیے‘ ہم نے ان میں سے ایک فریم پسند کرلیا جس کے بعد شیشوں کی قیمت سوا سو فرینک ہو گئی۔
سوئس فرینک کی ویلیو میں 2025 میں اچانک اضافہ ہو گیا‘ یہ یورو کے مقابلے میں پندرہ فیصد مہنگا ہے‘ اس کی وجہ یوکرائین جنگ ہے‘ یوکرائین پر حملے کے بعد سوئس نے روسیوں کے تمام اثاثے ضبط کرلیے جس کے باعث فرینک تگڑا ہو گیا اور سیاحت اور خریداری مہنگی ہو گئی۔
سوئس غیر جانب دار ملک ہے‘ یہ عالمی معاہدوں میں شامل نہیں‘ یہ اقوام متحدہ کا رکن بھی 2002 میں بنا تھا‘ اقوام متحدہ سے قبل لیگ آف نیشنز ہوتی تھی‘ اس کا ہیڈ کوارٹر جنیوا میں تھا‘ اقوام متحدہ بنی تو سوئس نے اسے تسلیم نہیں کیا‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آ کر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی فنڈنگ روک دی۔
امریکا ڈبلیو ایچ او کا سب سے بڑا ڈونر تھا‘ فنڈز رکنے کے بعد ڈبلیو ایچ او تقریباً بند ہو گیا جس کا اثر جنیوا کی معیشت پر ظاہر ہو رہا ہے‘ شہزاد صاحب کا ریستوران بہت بڑا ہے‘ پارکنگ اور لان بھی تین چار کنال پر مشتمل ہے‘ ان کا کہنا تھا ہم نے یہ جگہ مستقبل کو ذہن میں رکھ کر خریدی تھی لیکن پھر ڈونلڈ ٹرمپ آ گیا اور دنیا بدلنا شروع ہو گئی‘ اب ریستوران پر صرف ویک اینڈز پر رش ہوتا ہے۔
مجھے اس سفر میں چند گھنٹے ماں آنند شیلا کے ساتھ گزارنے کا موقع بھی ملا‘ یہ میس پراچ (Mais Prach) میں رہتی ہیں جو جرمنی کے بارڈر پر باسل کے قریب واقع ہے‘ میں جرمنی کے سرحدی شہر فرائی برگ (Freiburg) میں مقیم تھا‘ فرائی برگ بلیک فاریسٹ کا انتہائی خوب صورت قصبہ ہے یہاں میرے ایک پرانے دوست لطیف صاحب رہتے ہیں‘ میں انھیں لطیف بھائی کہتا ہوں‘ ان کی بیگم اور دو بیٹیاں بہت شان دار خاندان ہے۔
یہ لوگ سادے‘ مخلص اور بے انتہا مہمان نواز ہیں‘ شیلا کی رہائش فرائی برگ سے آدھ گھنٹے کی مسافت پر تھی‘ میں ان سے کیوں ملا اور یہ ملاقات کیسی رہی‘ میں اس طرف آؤں گا لیکن اس سے قبل آپ کو شیلا کے بارے میں بتاتا چلوں‘ ہمارے بچپن میں بھارت کے ایک گرو کا پوری دنیا میں ڈنکا بجتا تھا‘ ان کا نام گرور جنیش تھا‘ وہ عام زبان میں اوشو کہلاتے تھے‘ لوگ ان کے دیوانے تھے‘ آپ آج بھی اگر ان کی وڈیوز سنیں تو آپ ان کے عاشق ہو جائیں گے۔
گرور جنیش نے آدھی دنیا کو اپنا مرید بنا رکھا تھا‘ پونے میں ان کا آشرم تھا جس میں پوری دنیا سے لوگ آتے تھے اور سال ہا سال وہاں پڑے رہتے تھے‘ بالی ووڈ اور بالی ووڈ کے اپنے زمانے کے مشہور اداکار اور ارب پتی بزنس مین بھی اپنا کیریئر درمیان میں چھوڑ کر گرو کے مرید بن گئے اور اوشو آہستہ آہستہ عالمی تحریک بن گیا‘ شیلا ان کی سیکریٹری اور کرتا دھرتا تھی۔
یہ انھیں لے کر امریکا چلی گئی وہاں ان لوگوں نے اوریگن (Oregon) اسٹیٹ کی ویسکو (Wasco) کاؤنٹی میں64ہزار ایکڑ کا بڑا آشرم بنا لیاجو آنے والے دنوں میں دنیا کا سب سے بڑا اسیکنڈل بن گیا‘ امریکا اور یورپ کے پانچ ہزار کام یاب اور مشہور ترین لوگ اس آشرم کے مستقل رہائشی بن گئے‘ اس کی اپنی1300میٹر لمبی ائیراسٹرپ تھی جس پر روزانہ درجنوں پرائیویٹ جیٹس اترتے تھے۔
گرو کے پاس 93 لیموزینز تھیں‘ گرو نے کاؤنٹی کا نام تک تبدیل کرا دیا اور اس کے میئر بھی بن گئے‘ان کا اپنا فائر ڈیپارٹمنٹ‘ پبلک ٹرانسپورٹ‘ پولیس اسٹیشن‘شاپنگ مالز‘ سیوریج سسٹم‘ پوسٹ آفس‘ پانی کے تالاب اور سیکیورٹی فورس تھی۔
بہرحال قصہ مختصر1985میں یہ آشرم کانگریس میں ڈسکس ہوا‘ ایف بی آئی نے چھاپہ مارااور گرو رجنیش اور شیلا گرفتار ہو گئیں‘ گرو نے امریکا بدری قبول کر لی اور یہ نومبر 1985میں واپس بھارت آ گئے جب کہ شیلا کو ساڑھے چار سال سزا ہو گئی‘ یہ1988میں جیل سے رہا ہوئیں اور جرمنی آ گئیں‘ جرمنی میں بھی ان پر مقدمہ بنا اورقیدکاٹی اور رہائی کے بعد سوئٹزر لینڈ آ گئیں اور پھر غائب ہوگئیں۔
دنیا انھیں تلاش کرتی رہ گئی‘ جنوری 1990 میں گرور جنیش بھی فوت ہوگئے یوں اپنے زمانے کی دو مشہور ترین ہستیاں ماضی کی گرد میں گم ہوگئیں‘ 2018 میں نیٹ فلیکس نے وائلڈ وائلڈ کاؤنٹی کے ٹائٹل سے گرور جنیش اورشیلا پر طویل ڈاکومنٹری بنائی جس کے بعد ماضی کا قصہ دوبارہ زندہ ہو گیا اور لوگوں نے ایک بار پھرشیلا کی تلاش شروع کر دی‘ انڈیا کے مشہور فلم ساز کرن جوہر شیلا تک پہنچے اور اس پر ماں آنند شیلا کے نام سے ڈاکو منٹری بنائی‘ شیلا نے 2021میں چالیس سال بعد بھارت کا دورہ کیا۔
میں جوانی میں اوشو کا فین تھا‘ ان کی ساری کتابیں پڑھیں ‘ ممتاز مفتی صاحب سے گرو کے لیکچرز کی کیسٹس لے کر بھی سنی تھیں‘ میں نے دو سال قبل شیلا کو تلاش کیا اور ان سے وقتاً فوقتاً پیغامات کا تبادلہ ہوتا رہا‘ دو مرتبہ ملاقات کا وقت بھی طے ہوا لیکن ملاقات نہ ہو سکی‘ بہرحال اس سفر کے دوران 19 جولائی کا دن طے ہوا اور میں شیلا کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتے ہیں شیلا کے کے ساتھ ہیں اور کے مالک گیا اور کے لیے کی وجہ کے بعد ہو گیا اور یہ ہو گئی
پڑھیں:
برطانیہ ،اسائلم سسٹم میں بڑی تبدیلی: مستقل رہائش کیلئے 20 سال انتظار لازم
برطانیہ (ویب ڈیسک)نے پناہ گزینوں کے لیے پالیسی میں اہم تبدیلی کی ہے جس کے تحت پناہ گزینوں کا درجہ عارضی کیا جائے گا اور مستقل رہائش کے حصول کے لیے انتظار کی مدت کو چار گنا بڑھا کر 20 سال کر دیا جائے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق حکومت اپنی امیگریشن پالیسیوں کو سخت کر رہی ہے، خاص طور پر فرانس سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر آنے والوں کے خلاف، تاکہ ریفارم یوکے جیسی مقبول جماعت کی بڑھتی ہوئی پذیرائی کو روک سکے، جو امیگریشن کے بیانیے کی قیادت کر رہی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ڈنمارک کے طریقۂ کار سے رہنمائی لے رہی ہے — جو یورپ میں سخت ترین پالیسیوں میں شمار ہوتا ہے — جہاں کئی ممالک میں تارکین وطن مخالف جذبات بڑھنے سے پابندیاں مزید سخت ہوئی ہیں، جس پر حقوقِ انسانی کے گروہوں نے سخت تنقید کی ہے۔
برطانوی وزارت داخلہ نے ہفتہ کی شب جاری کردہ بیان میں کہا کہ تبدیلیوں کے حصے کے طور پر کچھ پناہ گزینوں کو معاونت فراہم کرنے کی قانونی ذمہ داری — جس میں رہائش اور ہفتہ وار الاؤنس شامل ہیں — ختم کر دی جائے گی۔
وزیر داخلہ شبانہ محمود کی سربراہی میں چلنے والے محکمے نے کہا کہ یہ اقدامات اُن پناہ گزینوں پر لاگو ہوں گے جو کام کر سکتے ہیں مگر کرتے نہیں، اور ان پر بھی جنہوں نے قانون توڑا ہو۔ وزارت نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے فراہم کی جانے والی مدد اُن افراد کو ترجیحی بنیادوں پر دی جائے گی جو معیشت اور مقامی کمیونیٹیز میں کردار ادا کرتے ہیں۔
وزارتِ داخلہ نے یہ بھی کہا کہ پناہ گزینوں کو تحفظ اب “عارضی ہوگا، باقاعدگی سے اس کا جائزہ لیا جائے گا، اور اگر اُن کا وطن محفوظ قرار پایا تو درجہ منسوخ کر دیا جائے گا۔”
وزیر داخلہ شبانہ محمود نے اتوار کو اسکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، “ہمارا نظام دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں خاصا فراخدل ہے، جہاں پانچ سال بعد آپ کو مؤثر طور پر خودکار طور پر مستقل رہائش مل جاتی ہے۔ ہم اس میں تبدیلی لائیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ان تبدیلیوں کے تحت پناہ گزین کا درجہ ہر ڈھائی سال بعد پرکھا جائے گا، جبکہ مستقل رہائش تک پہنچنے کا راستہ اب “20 سال کا کہیں زیادہ طویل مرحلہ” ہوگا۔
شبانہ محمود نے کہا کہ وہ پیر کو ان تبدیلیوں کی مزید تفصیلات فراہم کریں گی، جن میں یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کے آرٹیکل 8 سے متعلق اعلان بھی شامل ہوگا۔
حکومت کہہ چکی ہے کہ وہ ECHR میں رہنا چاہتی ہے مگر آرٹیکل 8 — جو خاندان کی یکجائی کے حق سے متعلق ہے — کی تشریح تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
شبانہ محمود نے کہا کہ اس آرٹیکل کو “اس انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے جس کا مقصد اُن افراد کی ملک بدری کو روکنا ہے جو ہمارے امیگریشن قوانین کے مطابق اس ملک میں رہنے کا حق نہیں رکھتے۔”
برطانوی حکومت کے سخت اقدامات کو تنقید کا سامنا ہے۔ 100 سے زائد برطانوی فلاحی تنظیموں نے شبانہ محمود کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ وہ “مہاجرین کو موردِ الزام ٹھہرانے اور دکھاوے کی پالیسیوں” کو ختم کریں، جو نفرت اور تشدد میں اضافہ کر رہی ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں میں ظاہر ہوا ہے کہ امیگریشن برطانوی ووٹرز کے لیے معیشت سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ گرمیوں میں اُن ہوٹلوں کے باہر احتجاج ہوئے جہاں پناہ گزینوں کو سرکاری خرچے پر ٹھہرایا گیا تھا۔
مارچ 2025 تک کے سال میں مجموعی طور پر 109,343 افراد نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست دی — جو پچھلے سال کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ اور 2002 کی بلند ترین سطح سے 6 فیصد زیادہ ہے۔
شبانہ محمود نے کہا کہ حکومت مزید “محفوظ اور قانونی” راستے کھولنے کی کوشش کرے گی، کیونکہ ان کے مطابق برطانیہ کو مشکلات سے بھاگنے والوں کی مدد میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔