ہیٹ ویو کے دوران عراق میں ملک گیر بجلی کا بریک ڈاؤن، درجہ حرارت 50 ڈگری تک پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
بغداد(انٹرنیشنل ڈیسک) عراق اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے، اور اسی ہیٹ ویو کے دوران ملک کو بڑے پیمانے پر بجلی کے بریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا۔ درجہ حرارت کئی شہروں میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، جبکہ محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ یہ لہر ایک ہفتے سے بھی زیادہ جاری رہ سکتی ہے۔
وزارتِ بجلی کے مطابق غیر معمولی گرمی، صارفین کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ اور بابل و کربلا میں زائرین کی بڑی تعداد نے پاور سسٹم پر بے پناہ دباؤ ڈال دیا۔ اس دباؤ کے باعث دو اہم ٹرانسمیشن لائنیں بند ہو گئیں، جس سے 6 ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی اچانک گرڈ سے نکل گئی اور ملک بھر کے متعدد پاور پلانٹس نے کام کرنا بند کر دیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ انجینئرنگ ٹیمیں فوری طور پر بحالی کے لیے متحرک ہو گئی ہیں اور اگلے چند گھنٹوں میں مرحلہ وار بجلی کی فراہمی شروع کر دی جائے گی۔ جنوبی صوبوں ذی قار اور میسان میں سپلائی کی بحالی کا عمل جاری ہے، جبکہ اہم بندرگاہی شہر بصرہ میں منگل کی صبح تک بجلی واپس آنے کی توقع ہے۔
عراق میں عام حالات میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ روزمرہ کا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے بیشتر گھروں میں جنریٹرز استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس بار بھی ان جنریٹرز نے مکمل بلیک آؤٹ کے اثرات کسی حد تک کم کیے، لیکن یہ ہر گھر کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شمالی عراق کا خودمختار کردستان علاقہ اس بحران سے متاثر نہیں ہوا۔ وہاں بجلی کے شعبے میں کی گئی اصلاحات کے نتیجے میں ایک تہائی آبادی کو 24 گھنٹے سرکاری بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ فرق واضح کرتا ہے کہ بہتر منصوبہ بندی اور انفراسٹرکچر کس طرح بڑے بحرانوں کے اثرات کو کم کر سکتا ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
جرمن شہری روزانہ 10 گھنٹے سے زائد بیٹھے رہنے کے عادی، صحت پر تشویشناک اثرات
جرمنی میں شہریوں کی جسمانی سرگرمی میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے اور ایک تازہ تحقیق کے مطابق ہر جرمن شہری ایک عام ورکنگ ڈے میں اوسطاً 10 گھنٹے 13 منٹ بیٹھ کر گزارتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جرمن اولمپیئن لارا ڈاہل مائر پاکستان میں کوہ پیمائی کے دوران جان گنوا بیٹھیں، انوکھی وصیت کیا تھی؟
ڈی ڈبلیو کے مطابق یہ شرح گزشتہ 10 برسوں کے مقابلے میں تقریباً 2 گھنٹے زیادہ ہے۔ نجی ہیلتھ انشورنس کمپنی ’ڈی کے وی‘ کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ میں اس صورتحال کو ایک ’تشویشناک ریکارڈ‘ قرار دیا گیا ہے۔
یہ تحقیق کولون کے ادارے ’ڈوئچے اشپورٹ ہوخ شولے‘ اور ’یونیورسٹی آف وُرسبرگ‘ کے اشتراک سے 2025 میں تیار کی گئی، جس میں جرمن شہریوں کی صحت سے متعلق عادات کا 8 ویں بار جائزہ لیا گیا۔ سروے 11 فروری سے 17 مارچ کے درمیان کیا گیا، جس میں 2800 سے زائد افراد سے ان کی خوراک، جسمانی سرگرمی، شراب نوشی، تمباکو نوشی، ذہنی دباؤ اور بیٹھنے کے وقت سے متعلق سوالات کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق شہری اوسطاً ساڑھے 3 گھنٹے کام کی جگہ پر، ڈھائی گھنٹے ٹیلی ویژن کے سامنے اور ڈیڑھ گھنٹہ کمپیوٹر یا ٹیبلٹ استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ صرف 30 فیصد افراد ایسے ہیں جو زیادہ بیٹھنے کے اثرات کو مناسب جسمانی سرگرمی سے متوازن کرتے ہیں جبکہ مجموعی طور پر 68 فیصد لوگ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تجویز کردہ بنیادی جسمانی سرگرمیوں پر عمل کرتے ہیں۔
تاہم، ہفتے میں 2 بار پٹھوں کی مشق صرف 34 فیصد افراد کرتے ہیں اور برداشت و پٹھوں کی مشترکہ سرگرمیاں صرف 32 فیصد افراد کے معمولات میں شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 80 فیصد جرمن شہری تمباکو اور ای-سگریٹ سے مکمل پرہیز کرتے ہیں جبکہ 29 فیصد افراد شراب نوشی سے مکمل اجتناب کرتے ہیں۔ غذائی اصولوں پر پوری طرح عمل کرنے والوں کی شرح صرف 34 فیصد ہے جن میں وہ افراد شامل ہیں جو پھل، سبزیاں، اناج، گری دار میوے اور کم گوشت والی غذا کو ترجیح دیتے ہیں۔
مزید پڑھیے: جرمنی میں اعلیٰ معیاری تعلیم کے 10 پرکشش شعبے کون سے ہیں؟
تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ نوجوان بالغ افراد شراب نوشی سے دوری میں نسبتاً بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں جبکہ بزرگ افراد غذائیت اور ذہنی دباؤ کو نسبتاً بہتر انداز میں سنبھالتے ہیں۔ تاہم روزمرہ کے اسٹریس سے صحت مند انداز میں نمٹنے والے افراد کی شرح تمام عمر کے گروہوں میں صرف 20 فیصد ہے جو سنہ 2021 کے بعد سے اب تک کی کم ترین سطح ہے۔
مزید پڑھیں: کیا موٹاپا، ذیابیطس اور سگریٹ نوشی ڈیمنشیا کی وجہ بن سکتے ہیں؟
رپورٹ کا سب سے اہم انکشاف یہ ہے کہ مکمل طور پر صحت مند طرزِ زندگی اپنانے والے جرمن شہریوں کی شرح محض 2 فیصد ہے۔ اس میں بھی خواتین 3 فیصد جبکہ مرد صرف ایک فیصد اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ تعلیم بھی ایک اہم عنصر کے طور پر سامنے آئی، جہاں یونیورسٹی ڈگری رکھنے والے افراد میں 5 فیصد مکمل صحت مند طرز زندگی اپناتے ہیں جبکہ صرف ہائی اسکول مکمل کرنے والے افراد میں یہ شرح صفر اور کالج جانے والوں میں صرف ایک فیصد رہی۔
یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی صحت مند طرز زندگی اپنانا ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں