ویب ڈیسک: پشاور ہائیکورٹ نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نئے اپوزیشن لیڈر کی تقرری روکنے کا حکم دے دیا۔

 پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس خورشید اقبال پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے عمر ایوب اور شبلی فراز کو  الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی نوٹی فائی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت  کی۔

 عدالت نے سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو دونوں ایوانوں میں نئے اپوزیشن لیڈر کی تقرری سے روک دیا۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ڈین تعیناتی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

 عدالت نے الیکشن کمیشن کو عمر ایوب اور شبلی فراز کے خلاف مزید کارروائی سے بھی روک دیا اور درخواست پر مزید سماعت 15 اگست تک ملتوی کردی۔

 واضح رہے کہ چند روز قبل انسداد دہشتگردی عدالت نے 9 مئی مقدمات میں عمر ایوب اور شبلی فراز کو سزا سنائی تھی جس کے بعد دونوں ارکان نااہل ہوگئے تھے۔ 

 الیکشن کمیشن کی جانب سے دونوں رہنماؤں کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد پی ٹی آئی دونوں ایوانوں میں اپوزیشن لیڈر کی نشست سے محروم ہوگئی ہے۔
 
 

راولپنڈی میں ڈینگی کی شدت میں اضافہ۔ 58 نئے کیسز کی تصدیق

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: اپوزیشن لیڈر کی

پڑھیں:

سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی مشترکہ قائمہ کمیٹی کا اجلاس شروع، 27ویں آئینی ترمیم زیر بحث

سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی مشترکہ قائمہ کمیٹی کا اجلاس شروع ہوگیا ہے۔

کمیٹی کا اجلاس ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا جس میں اپوزیشن جماعتوں نے بطور احتجاج شرکت نہیں کی۔

اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کی شقوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے، اس کے ساتھ اتحادی جماعتوں کی طرف سے مجوزہ شقوں کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اپوزیشن اتحاد نے27ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا

کمیٹی کے سربراہ فاروق ایچ نائیک نے اجلاس سے قبل کہا کہ امید ہے کہ آج شام 5 بجے سے قبل ڈرافٹ پر بحث مکمل کریں گے اور متفقہ ڈرافٹ سامنے لے آئیں گے۔

اپوزیشن اتحاد نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف بھرپور ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ اعلان اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور علامہ  ناصر عباس نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔

علامہ  ناصر عباس نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر ایک خطرناک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں جمہوری اداروں کو مفلوج اور آئین کی روح کو مسخ کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم: چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ، وفاقی آئینی عدالت اور تاحیات رینک کے انتظامات

27 ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ نکات سامنے آگئے ہیں، جن کے مطابق آرمی چیف کو نیا عہدہ ’چیف آف ڈیفنس فورسز‘ تفویض کیا جائے گا جبکہ فیلڈ مارشل، مارشل آف ائیر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کا رینک حاصل کرنے والا افسر تاحیات یونیفارم میں رہے گا۔

چیف آف ڈیفنس فورسز اور فوجی رینک

مجوزہ ترمیم کے مطابق آرمی چیف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے، اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا۔ فیلڈ مارشل، مارشل آف ائیر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کے عہدے اور مراعات بھی تاحیات برقرار رہیں گی۔

یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں پیش کردی گئی، قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے حوالے

میڈیا رپورٹ کے مطابق ان افسران کو صدر کی طرح عدالتی استثنیٰ حاصل ہوگا اور کمانڈ مدت مکمل ہونے کے بعد وفاقی حکومت انہیں ریاست کے مفاد میں کوئی ذمہ داری سونپ سکتی ہے۔

تقرری کا عمل

آرمی چیف، نیول چیف اور ائیر چیف کی تقرری صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر کریں گے۔ وزیراعظم چیف آف ڈیفنس فورسز کی تجویز پر پاک آرمی سے کمانڈر نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کا تقرر کرے گا۔ اگر کوئی جج یا فوجی اعلیٰ افسر تقرری قبول نہ کرے تو انہیں ریٹائر تصور کیا جائے گا۔

وفاقی آئینی عدالت کا قیام

ترمیم کے مطابق ملک میں وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، جس میں ہر صوبے سے برابر نمائندگی ہوگی۔ صدر آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور ججز کا تقرر کرے گا۔

آئینی عدالت کے فیصلے پاکستان کی تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے علاوہ کوئی عدالت آئینی عدالت کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔

عدالتی اختیارات اور از خود نوٹس

سپریم کورٹ سے متعلق آرٹیکل 184 اور از خود نوٹس کی شق ختم کر دی گئی ہے۔ آئینی عدالت کے جج 68 سال کی عمر تک عہدے پر رہیں گے اور چیف جسٹس کی مدت 3 سال ہوگی۔ صدر آئینی عدالت کے کسی جج کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کر سکتا ہے۔

صدر اور گورنر کا استثنیٰ

مجوزہ ترمیم کے مطابق صدر کے خلاف عمر بھر کے لیے فوجداری کارروائی نہیں ہوسکے گی۔ گورنر کے خلاف بھی ان کے عہدے کی مدت کے دوران کوئی فوجداری کارروائی نہیں ہوگی اور کوئی عدالت انہیں گرفتار یا جیل بھیجنے کا حکم نہیں دے سکتی۔

یہ مجوزہ آئینی ترمیم ملک کے دفاعی ڈھانچے اور عدالتی نظام میں اہم تبدیلیاں لانے کے لیے تیار کی گئی ہے، جس میں فوجی عہدوں کے حقوق، عدالتوں کی حدود اور اعلیٰ حکومتی عہدہ داروں کے استثنیٰ کو واضح کیا گیا ہے۔

چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ کس کو تفویض کیا جائیگا؟ 

ممکنہ 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے آ گیا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ سے آئینی اختیارات واپس لے کر ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کے سپرد کیے جائیں گے۔ یہ عدالت آئین کی تشریح اور آئینی تنازعات کے فیصلے کرے گی، جبکہ سپریم کورٹ صرف اپیلوں اور عمومی مقدمات کی عدالت کے طور پر کام کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں پیش کردی گئی، قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے حوالے

میڈیا رپورٹس کے مطابق ترمیم میں آئین کے آرٹیکلز 42، 63 اے، اور 175 تا 191 میں تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 184 کے خاتمے کے بعد سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس کا اختیار بھی ختم ہو جائے گا۔

سپریم کورٹ کی جگہ نئی وفاقی آئینی عدالت

مجوزہ مسودے کے تحت ’وفاقی آئینی عدالت‘ میں ایک چیف جسٹس اور چاروں صوبوں سے برابر نمائندگی ہو گی۔ عدالت کے چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت تین سال مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ اس ترمیم کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات محدود ہو جائیں گے۔

آئینی عدالت کے فیصلے ملک بھر کی تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے، جبکہ سپریم کورٹ صرف عمومی نوعیت کے مقدمات سن سکے گی۔

فوجی ڈھانچے میں تبدیلی، آرمی چیف کو نیا عہدہ

27ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں فوجی قیادت کے ڈھانچے میں اہم تبدیلی تجویز کی گئی ہے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر کے آرمی چیف کو “چیف آف ڈیفنس فورسز” کا اضافی عہدہ دینے کی سفارش کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں پیش کردی گئی، قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے حوالے

اسی کے ساتھ فیلڈ مارشل اور دیگر اعلیٰ فوجی عہدوں کو تاحیات درجہ دینے کی تجویز بھی شامل ہے۔

ججوں کی تقرری کا نیا طریقہ کار

مجوزہ ترمیم کے مطابق ججوں کی تقرری میں وزیراعظم اور صدر کو مرکزی کردار حاصل ہوگا۔ جوڈیشل کمیشن میں وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دونوں شامل ہوں گے، جبکہ پارلیمنٹ کو آئینی عدالت کے ججوں کی تعداد طے کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔

سیاسی ردعمل اور ماہرین کی رائے

قانونی ماہرین نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات میں بڑا تغیر قرار دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ترمیم کے مسودے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام طاقت کے توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔

سیاسی حلقوں میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور آرمی چیف کو نیا کردار دینے کے فیصلے پر بحث تیز ہو گئی ہے۔

مجوزہ ترمیم کے دیگر اہم نکات

وفاقی آئینی عدالت قائم کرنے کے لیے مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کے نکات سامنے آگئے ہیں۔ ترمیم کے مطابق ملک میں وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی اور ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کو فوجداری مقدمات میں استثنیٰ دینے کی ترمیم قائمہ کمیٹی میں پیش، 27ویں آئینی ترمیم پر تفصیلی جائزہ

مجوزہ آئینی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی جج ٹرانسفر قبول کرنے سے انکار کرے گا تو اسے ریٹائر تصور کیا جائے گا۔ صدر کے خلاف عمر بھر کے لیے کوئی فوجداری کارروائی نہیں ہو سکے گی اور گورنر کے خلاف بھی صرف مدت عہدہ کے دوران کارروائی ممکن ہوگی۔ کسی عدالت کو صدر یا گورنر کی گرفتاری یا جیل بھیجنے کا اختیار نہیں ہوگا۔

وفاقی آئینی عدالت میں ہر صوبے سے برابر ججز ہوں گے، جبکہ چیف جسٹس آئینی عدالت اور ججز کا تقرر صدر کریں گے۔ عدالت کو اپنے کسی فیصلے پر نظرثانی کا اختیار حاصل ہوگا اور صدر قانون سے متعلق کسی معاملے پر رائے کے لیے وفاقی آئینی عدالت کو بھیج سکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ کس کو تفویض کیا جائیگا؟ 27ویں آئینی ترمیم کامسودہ سامنے آگیا

ترمیم میں سپریم کورٹ کو قانون سے متعلق معاملہ بھیجنے کی شق ختم کر دی گئی ہے اور از خود نوٹس سے متعلق شق 184 بھی حذف کر دی گئی ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کے ججز 68 سال کی عمر تک خدمات انجام دیں گے جبکہ آئینی عدالت کا چیف جسٹس 3 سالہ مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہوگا۔ صدر کسی جج کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کر سکیں گے۔

وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ میں تقرری قبول نہ کرنے والے ہائی کورٹ کے ججز کو بھی ریٹائر تصور کیا جائے گا۔ صدر سپریم کورٹ کے ججز میں سے وزیراعظم کی ایڈوائس پر وفاقی آئینی عدالت کا پہلا چیف جسٹس مقرر کریں گے اور ججز کا تعین چیف جسٹس فیڈرل آئینی کورٹ سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں پیش کردی گئی، قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے حوالے

27 ویں آئینی ترمیم کابینہ سے منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش کی گئی اور پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں زیر غور ہے۔ قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس کل (بروز اتوار) دن 11 بجے دوبارہ ہوگا۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • اسپیکر ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی سے متعلق کیا رولنگ دی؟
  • سینیٹ سے منظور 27 ویں آئینی ترمیم بل قومی اسمبلی میں پیش، اپوزیشن کا احتجاج
  • سینیٹ سے منظوری کے بعد 27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں پیش
  • حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے سینیٹ میں 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار  
  • حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے سینیٹ میں 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار
  • سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نامزد اپوزیشن لیڈرز کی پریس کانفرنس
  • ستائیسویں ترمیم سےمتعلق سینیٹ، قومی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹیوں کا اجلاس، آئینی عدالت کےقیام پرمشاورت مکمل
  • سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی مشترکہ قائمہ کمیٹی کا اجلاس شروع، 27ویں آئینی ترمیم زیر بحث
  • گلگت بلتستان کے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کیلئے 11 نومبر کو اسلام آباد میں اہم اجلاس طلب
  • بہار انتخابات کے پہلے مرحلے میں 65.08 فیصد ووٹ ڈالے گئے، الیکشن کمیشن کے نئے اعداد و شمار