عمر ایوب نااہل ہو چکے، اب ریفرنس کی سماعت کا کیا فائدہ؟ ممبر الیکشن کمیشن
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب سے متعلق ریفرنس کی سماعت کے دوران ممبر خیبر پختونخوا نے کہا ہے کہ اب اس ریفرنس کی سماعت کا کیا فائدہ، عمر ایوب تو نااہل ہو چکے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں عمر ایوب کی نااہلی کے لیے اسپیکر کے بھجوائے گئے ریفرنس پر سماعت ہوئی، ممبر سندھ نثار درانی کی سربراہی میں 4 رکنی کمیشن کی سماعت ہوئی۔
جونئیر وکیل عمر ایوب نے کہا کہ کیس کی آج سماعت پشاور ہائی کورٹ میں ہو رہی ہے، ممبر کے پی نے کہا کہ اب اس ریفرنس کی سماعت کا کیا فائدہ، عمر ایوب تو نا اہل ہو چکے ہیں، سزا یافتہ ہونے پر عمر ایوب نا اہل ہو چکے، ہم نے 90 روز میں ریفرنس پر فیصلہ کرنا ہے۔
الیکشن کمیشن نے سماعت 20 اگست تک ملتوی کردی۔
پشاور ہائی کورٹ میں عمر ایوب کے اثاثہ جات سے متعلق کیس کی سماعت
پی ٹی رہنما عمر ایوب کے اثاثہ جات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، درخواست پر سماعت جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال نے کی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عمر ایوب کو الیکشن کمیشن نے اثاثہ جات سے متعلق نوٹس جاری کیا اور کارروائی شروع کی، عمر ایوب کو عدالت نے سزا سنائی، سزا کے بعد شائد ان کو ڈی سیٹ کیا گیا۔
جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ اب تو یہ ممبر قومی اسمبلی نہیں رہے نا، اب یہ اسمبلی ممبر نہیں رہے تو الیکشن کمیشن کی کیا رائے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں اس حوالے سے آج اجلاس ہے، اگر اس نے کوئی چیز چھپائی ہے تو پھر کریمنل کیس بنتا ہے۔
جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ جب یہ ممبر نہیں رہے تو اب کیا کارروائی کرے گے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہمیں ٹائم دیں دے آج وہاں پر اس حوالے سے اجلاس ہے اس میں کوئی فیصلہ ہوگا۔
عدالت نے سماعت 20 اگست تک ملتوی کردی۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان ریفرنس کی سماعت الیکشن کمیشن نے کہا کہ عمر ایوب ہو چکے
پڑھیں:
راہول گاندھی کی ’ووٹ چور؛ گدی چھوڑ‘ مہم، بھارت کا انتخابی بحران بے نقاب
بھارت کی سیاست اس وقت ہلچل کا شکار ہے، کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے گزشتہ برس منعقدہ لوک سبھا انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے سنگین الزامات عائد کیے، جنہوں نے ملک گیر احتجاج، وزارتی استعفوں اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کے خلاف نئی اپوزیشن مہم کو جنم دیا ہے۔
’ووٹ چور، گدی چھوڑ‘ کے نعرے کے زیر اثر یہ مہم بقول راہول گاندھی ’جمہوری اقدار کی بحالی کی جدوجہد‘ ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ مہادیوپورہ اسمبلی حلقے میں ہی1,00,250 سے زائد جعلی ووٹ ڈالے گئے، جبکہ پورے انتخابی عمل میں دوہرے ووٹر رجسٹریشن، جعلی پتے، ایک ہی جگہ پر ہزاروں ووٹروں کا اندراج، ووٹر شناختی کارڈ کی تصاویر میں چھیڑ چھاڑ، اور ووٹر رجسٹریشن کے طریقہ کار کا بے دریغ غلط استعمال ہوا۔
Massive #INDIA bloc march to the #ElectionCommission against #BJP_EC collusion in manipulating voter lists & rigging polls. Salute to @RahulGandhi Ji& leaders for standing firm & courting arrest for democracy’s sake.#votechoriexposed pic.twitter.com/pOHasopiia
— V D Satheesan (@vdsatheesan) August 11, 2025
راہول گاندھی کے مطابق یہ محض سیاسی اختلاف نہیں بلکہ آئین ہند کے بنیادی اصول ’’ایک شخص، ایک ووٹ‘‘ پر کھلا حملہ ہے۔
الیکشن کمیشن نے ان الزامات کو ’بنیاد سے محروم اور مضحکہ خیز‘ قرار دے کر مسترد کر دیا، راہول گاندھی کو حلفیہ بیان دینے یا معافی مانگنے کا چیلنج کیا، اور بعض مثالوں کو جن میں ایک بزرگ شہری کے 2 بار ووٹ ڈالنے کا دعویٰ شامل تھا، غلط ثابت کیا۔
بی جے پی نے بھی الیکشن کمیشن کا دفاع کرتے ہوئے گاندھی پر آئینی اداروں کو کمزور کرنے کا الزام لگایا اور حلفیہ ثبوت کا مطالبہ کیا، جسے ناقدین ’حقیقت کا سامنا کرنے کے بجائے اقتدار بچانے کی حکمت عملی‘ قرار دے رہے ہیں۔
اس دباؤ کے باوجود، راہول گاندھی نے 11 اگست کو تقریباً 300 اپوزیشن ارکانِ پارلیمنٹ کی قیادت کرتے ہوئے نئی دہلی میں الیکشن کمیشن کے دفتر تک ایک بڑا احتجاجی مارچ کیا، پرامن مظاہرے کو پولیس کی رکاوٹوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ اپوزیشن اتحاد کی ایک طاقتور علامت بن گیا، جو شفاف عدالتی تحقیقات اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کی ضمانت کا مطالبہ کر رہا ہے۔
اسی روز کرناٹک کے وزیر برائے کوآپریشن کے این راجنا نے ’ووٹ چوری‘ سے متعلق اپنے متنازعہ بیان کے بعد استعفیٰ دے دیا، اس سے قبل 21 جولائی کو بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکڑ بھی علالت کے سبب مستعفی ہو چکے تھے، ان استعفوں نے سیاسی عدم استحکام کی فضا کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
کانگریس پارٹی اب 14 اگست سے اپنی جارحانہ ملک گیرمہم ’ووٹ چور، گدی چھوڑ‘ کا باضابطہ آغاز کرنے جا رہی ہے، جس میں شمع بردار جلوس اور دستخطی مہم شامل ہوں گے، جس کا ہدف براہِ راست الیکشن کمیشن اور مودی حکومت کو کٹہرے میں لانا اور مبینہ منظم ’ووٹ چوری‘ اور بدعنوانی کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ تمام واقعات بھارت کی جمہوریت پر عوام کے اعتماد کے شدید بحران کی عکاسی کرتے ہیں، اپوزیشن رہنما راہول گاندھی کے انکشافات نہ صرف انتخابی نتائج کی ساکھ کو چیلنج کر رہے ہیں بلکہ ریاست کے ادارہ جاتی ڈھانچے اور قانون کی بالادستی کو بھی ہلا رہے ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے اورعالمی برادری کی نظریں اس پر جمی ہیں کہ کیا بھارت بیلٹ باکس پر اپنے اعتماد کو بحال کر پائے گا یا یہ اس کی جمہوری روح کے زوال کا آغاز ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الیکشن کمیشن انتخابی بحران بھارت بی جے پی بیلٹ باکس جمہوریت راہول گاندھی کانگریس کرناٹک مودی حکومت ووٹ چوری ووٹر لسٹ