ٹرمپ کے غزہ جنگ بندی کے 21 نکاتی امن فارمولے پر عرب رہنماؤں نے تجاویز پیش کر دیں
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
یورپی سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ یہ امن منصوبہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے مزید انضمام سے روک سکتا ہے اور اس سے ابراہام معاہدوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب اسرائیل نے دوحہ میں حماس رہنماؤں کو نشانہ بنایا تھا، جس کے بعد سے قطر نے ثالثی کی کوششیں معطل کر دی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا کے خصوصی ایلچی برائے امن مشنز اسٹیو وٹکوف نے بتایا کہ عرب ممالک کے سربراہان کے ساتھ غزہ امن اجلاس نہایت کامیاب اور نتیجہ خیز رہا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے دعویٰ کیا ہے کہ اس اجلاس میں امریکی نمائندوں نے عرب رہنماؤں کو صدر ٹرمپ کا خصوصی پیغام بھی پہنچایا۔ اسٹیو وٹکوف نے نیویارک میں کانکورڈیا سمٹ سے خطاب میں بتایا کہ ہم نے صدر ٹرمپ کی جانب سے 21 نکاتی امن منصوبہ عرب رہنماؤں کو پیش کیا۔ امریکی خصوصی ایلچی کے بقول یہ امن منصوبہ اسرائیل اور خطے کے دیگر ممالک کے خدشات کو بھی مدنظر رکھتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ دنوں میں کوئی پیش رفت سامنے آئے گی۔ منصوبے میں حماس کے قبضے کے بغیر غزہ میں حکمرانی کا فریم ورک، تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور اسرائیل کی بتدریج غزہ سے واپسی شامل ہے۔
عرب رہنماؤں نے بڑی حد تک منصوبے کی حمایت کی، تاہم اپنی تجاویز بھی پیش کیں، جن میں شامل ہیں؛
مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کی یقین دہانی
یروشلم میں موجودہ اسٹیٹس کو قائم رکھنا
غزہ جنگ کا خاتمہ اور قیدیوں کی رہائی
غزہ کے لیے انسانی امداد میں اضافہ
اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کے مسئلے کا حل
علاقائی رہنماؤں نے اس ملاقات کو "انتہائی مفید" قرار دیا، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ اور عرب رہنماؤں نے ایسی مزید ملاقاتوں پر بھی اتفاق کیا ہے۔ یورپی ممالک کو بھی اس امریکی امن منصوبے کا خلاصہ فراہم کیا گیا تھا، جسے دو یورپی سفارتکاروں نے میڈیا سے گفتگو میں ایک سنجیدہ کوشش قرار دیا۔
یورپی سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ یہ امن منصوبہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے مزید انضمام سے روک سکتا ہے اور اس سے ابراہام معاہدوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب اسرائیل نے دوحہ میں حماس رہنماؤں کو نشانہ بنایا تھا، جس کے بعد سے قطر نے ثالثی کی کوششیں معطل کر دی تھی۔ جس کی وجہ سے امن مذاکرات رک گئے تھے۔ جس پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل اور قطر کے ایک اہم دورے میں کہا تھا کہ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ غزہ میں امن کے لیے ایک معاہدہ جلد ضروری ہے۔ اس دورے کے بعد قطر نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرتا رہے گا، بشرطیکہ آئندہ اسرائیل ان کی سرزمین پر کوئی حملہ نہ کرے۔ قبل ازیں سعودیہ اور فرانس نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر ایک کانفرنس منعقد کی تھی، جس کے بعد متعدد یورپی ممالک نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا ہے۔ اس کانفرنس کا امریکا نے بائیکاٹ کیا تھا، کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا "حماس کو انعام دینے" کے مترادف ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رہنماو ں کو کے بعد
پڑھیں:
امریکی سینیٹ نے حکومتی بندش ختم کرنے کے بل کو مسترد کر دیا
ٹرمپ نے اس سے قبل کہا تھا کہ "اب وقت آ گیا ہے کہ ریپبلکن سینیٹرز ریڈیکل لیفٹ ڈیموکریٹس کے ساتھ کھیلنا بند کریں، اب وقت آ گیا ہے کہ بندش ختم کی جائے اور فوری طور پر ملک کو کھولا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی تاریخ کی طویل ترین حکومتی بندش ختم کرنے کے بل کو سینیٹ میں منظور ہونے کے لیے کم از کم 60 ووٹ درکار تھے، لیکن اکثریتی ڈیموکریٹس نے اس بنیاد پر اس بل کو مسترد کر دیا کہ یہ ٹرمپ کو بعض ملازمین کو تنخواہیں ادا نہ کرنے کا وسیع اختیار دیتا ہے۔ ٹرمپ نے اس سے قبل کہا تھا کہ "اب وقت آ گیا ہے کہ ریپبلکن سینیٹرز ریڈیکل لیفٹ ڈیموکریٹس کے ساتھ کھیلنا بند کریں، اب وقت آ گیا ہے کہ بندش ختم کی جائے اور فوری طور پر ملک کو کھولا جائے۔" مقامی وقت کے مطابق بدھ کے روز امریکی حکومت کی بندش 36 دنوں تک جاری رہنے کے ساتھ ہی تاریخ کی طویل ترین بندش بن گئی، اور اب یہ اپنے 39ویں دن میں داخل ہو چکی ہے جبکہ اس کا کوئی اختتام نظر نہیں آ رہا۔ ریپبلکن اور ڈیموکریٹ سینیٹرز وفاقی محکموں کے بجٹ بحال کرنے پر اب بھی متفق نہیں ہیں۔
اس بندش نے پہلے 35 روزہ ریکارڈ توڑ دیا ہے جو دسمبر 2018 اور جنوری 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران قائم ہوا تھا۔ اس وقت، حکومتی بجٹ کا قانون اس وجہ سے معطل ہو گیا تھا کیونکہ ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے لیے مالی وسائل شامل کرنے پر اصرار کر رہے تھے۔ موجودہ گرہ یکم اکتوبر (9 مہر) کو پڑی، جب ڈیموکریٹک سینیٹرز نے حکومتی بجٹ کے بل کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا اور اسے ہیلتھ کیئر پروگراموں کے اخراجات کے لیے ٹیکس کریڈٹ کی توسیع کو شامل کرنے کی شرط سے مشروط کر دیا۔ کانگریس کے بجٹ آفس نے پیش گوئی کی ہے کہ حکومتی بندش، اس کی طوالت پر منحصر ہے، معیشت کے لیے جی ڈی پی میں 14 بلین ڈالر تک کا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ہفتوں گزرنے کے ساتھ ہی، پریشان کن سنگ میل سامنے آ رہے ہیں: تقریباً 700,000 وفاقی ملازمین کو بندش کے دوران بے کار کر دیا گیا، جبکہ تقریباً اتنے ہی ملازمین کو بتایا گیا کہ وہ نئے بجٹ کی منظوری تک بغیر تنخواہ کے کام جاری رکھیں۔