حماس کا ٹرمپ کے غزہ پلان پر جزوی اتفاق، مزید مذاکرات کی ضرورت پر زور
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
حماس نے اعلان کیا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ جنگ بندی منصوبے کے کئی حصوں کو قبول کرتی ہے تاہم بعض نکات پر مزید بات چیت ناگزیر ہے۔
ٹرمپ کے پلان پر ردعملالجزیرہ کے مطابق حماس نے جمعے کو ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا تحریری جواب دیا، یہ فیصلہ ٹرمپ کی جانب سے اتوار تک جواب دینے کی مہلت کے بعد سامنے آیا۔
اس منصوبے میں فوری جنگ بندی، تمام اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی، بین الاقوامی نگرانی میں عبوری حکومت کا قیام اور حماس کے غیر مسلح ہونے کی شرط شامل تھی۔
قیدیوں کے تبادلے پر آمادگیحماس نے اپنے جواب میں کہا کہ وہ تمام اسرائیلی قیدیوں، خواہ زندہ ہوں یا باقیات کو طے شدہ فارمولے کے تحت رہا کرنے پر راضی ہے اور اس کے لیے ثالثوں کے ذریعے فوری مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
غزہ کی انتظامیہ کا معاملہحماس نے اس بات پر بھی آمادگی ظاہر کی کہ وہ غزہ کی انتظامیہ کو آزاد فلسطینی ٹیکنوکریٹس کے حوالے کرنے پر تیار ہے، بشرطیکہ یہ فیصلہ فلسطینی قومی اتفاق اور عرب و اسلامی حمایت کے ساتھ ہو۔
اس بیان کو ٹرمپ کے تجویز کردہ ’بورڈ آف پیس‘ کی مخالفت سمجھا جا رہا ہے جس میں بین الاقوامی شخصیات بشمول خود ٹرمپ اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی نگرانی کا ذکر تھا۔
حماس نے واضح کر دیا کہ کسی غیر فلسطینی کو فلسطینی عوام پر کنٹرول قبول نہیں ہوگا۔
مزید مذاکرات کی ضرورتحماس کے مطابق منصوبے کے وہ پہلو جو ’غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق‘ سے متعلق ہیں، انہیں صرف قومی اتفاق رائے اور بین الاقوامی قوانین و قراردادوں کی بنیاد پر طے کیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ اور عالمی ردعملصدر ٹرمپ نے حماس کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں حماس ’پائیدار امن‘ کے لیے تیار ہے، ساتھ ہی اسرائیل سے کہا کہ غزہ پر بمباری فوراً روکی جائے تاکہ یرغمالیوں کو محفوظ انداز میں نکالا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:بدترین اسرائیلی جارحیت کے باوجود غزہ کی جانب بڑھنے والی واحد کشتی کی کہانی
ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف غزہ کا نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے دیرینہ امن کا معاملہ ہے۔
عالمی ثالثوں کی کوششیںقطر اور مصر نے حماس کے جواب کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ وہ امریکا اور دیگر فریقین کے ساتھ مل کر بات چیت کو آگے بڑھائیں گے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اس پیش رفت کو ’موقع‘ قرار دیتے ہوئے فریقین پر زور دیا کہ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے موقع ضائع نہ کریں۔
ہلاکتوں کی بڑی تعدادیہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسرائیل نے غزہ پر اپنا حملہ مزید تیز کر دیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ وہ ریموٹ کنٹرول دھماکہ خیز آلات سے آباد علاقے تباہ کر رہا ہے۔
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی جارحیت میں 66 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اقوام متحدہ امریکا انتونیو گوتریس حماس صدر ٹرمپ غزہ امن منصوبہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل اقوام متحدہ امریکا انتونیو گوتریس ٹرمپ کے حماس کے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
جنگ بندی یا سیاسی ماتحتی؟ ٹرمپ کا غزہ پلان اور اس کے نتائج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251004-03-4
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
غزہ کی تازہ ترین تباہی اور ڈونلڈ ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ دنیا کی موجودہ سیاست کا عکاس ہے ایک ایسا منصوبہ جو بظاہر جنگ بندی اور امداد کا وعدہ کرتا ہے مگر عملی اور قانونی جواز کی جگہ سیکورٹی کی شرائط کے ذریعے فلسطینی خود ارادیت کو پس پشت ڈالنے کا امکان زیادہ نمایاں کرتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی خونریز لہر نے غزہ کو انسانی المیے کے بیچ میں ڈال دیا، لاکھوں بے گھر اور ہزاروں متاثرہ افراد نے بین الاقوامی برادری سے فوری اور غیرمشروط انسانی رسائی کا مطالبہ کیا۔ اسی پس منظر میں ٹرمپ کی پیشکش اور نیتن یاہو کی اس کی تائید، بلاشبہ ایک سیاسی دستاویز ہے جس کا محور اسرائیل کے خدشات کو پْشت پناہی دینا ہے نہ کہ فلسطینیوں کے حق ِ خود ارادیت کو یقینی بنانا۔ منصوبے کی مرکزی شقیں، 72 گھنٹے میں یرغمالیوں کی رہائی، ہتھیار چھوڑنے کی صورت میں معافی، غزہ کی بحالی کے لیے بین الاقوامی ادارہ ’’بورڈ آف پیس‘‘ کی تشکیل، اور حماس کو حکومت سے بالواسطہ یا براہِ راست باہر رکھنا اگرچہ زبانی طور پر امداد اور تعمیر نو کا وعدہ کرتی ہیں مگر ان شرائط کا مطلب سیاسی نمائندگی کا خاتمہ، مقامی مزاحمتی ڈھانچوں کی غیرموجودگی، اور غزہ کے مستقبل پر بیرونی کنٹرول ہے۔ جب کسی علاقے کی منتخب نمائندہ جماعت کو باضابطہ طور پر خارج کر دیا جائے تو امن معاہدہ کا جواز شکوک کی زد میں آتا ہے؛ امن تبھی پائیدار ہو سکتا ہے جب شامل فریقین کو مذاکراتی میز پر اپنا کردار اور وقار حاصل ہو۔
بین الاقوامی ردعمل نے بھی اس منصوبے کی جھلکیوں کو بے نقاب کیا ہے: فلسطینی اتھارٹی کی تعریفی لہجہ سے لے کر فلسطینی اسلامی جہاد کے سخت ردِعمل تک، مسلم ممالک کے مخلوط موقف سے واضح ہوتا ہے کہ اس پلان نے علاقائی مفادات اور طاقت کے توازن کو ہلکا سا بدل دیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کی طرف سے تحفظات اور ترامیم کی درخواست، اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی قرارداد کے حوالے سے واضح عدم اتفاق، یہ بتاتے ہیں کہ عالمی سطح پر بھی اس معاہدے کی قبولیت یکساں نہیں۔ مزید براں ٹونی بلیئر جیسے ناموں کا شامل ہونا تاریخی پس ِ منظر کے سبب متنازع ہے، عراق پر مبینہ غلط بیانی اور اس کے بعد آنے والی تنقید نے بلیئر کی غیرجانبداری پر سوال اٹھا دیا ہے، لہٰذا غزہ جیسے نازک معاملے میں ان کا مرکزی کردار شکوک و شبہات کو مزید تقویت دیتا ہے۔
قانونی اور اخلاقی حوالوں سے بھی متعدد اہم سوالات جنم لیتے ہیں: آیا جنگ بندی کو جو سیاسی قیمت چکانی پڑے گی وہ بین الاقوامی قانون کے تحت جائز ٹھیرے گی؟ اجتماعی سزا، جبراً تبادلے کے خدشات، اور غیرجانبدارانہ انسانی رسائی پر شرائط لگانا یہ سب عالمی انسانی حقوق اور جنگی قوانین کے زاویے سے خطرناک ہیں۔ امداد اور تعمیر نو کے وعدے تبھی قابل ِ قبول ہوں گے جب لا محدود اور مشروط نہ ہوں، اور مقامی شفاف نگرانی کے ساتھ منظم ہوں نہ کہ ایسے اداروں کے ذریعے جو مقبولیت یا نمائندگی کے تقاضوں کو نظر انداز کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ عسکری حل کبھی دیرپا امن کا ضامن نہیں رہے۔ اگر حماس نے منصوبہ قبول کر لیا تو عارضی طور پر یرغمالیوں کی رہائی اور فوری امدادی فوائد ممکن ہیں؛ مگر مسئلہ کی جڑ مقبوضہ اراضی، عبوری انتظامات، فلسطینی سیاسی حقوق اور مستقبل کی ریاستی حیثیت ان اقدامات سے حل نہیں ہوں گے۔ دوسری جانب، اگر حماس نے مسترد کیا تو ٹرمپ کی دھمکیوں اور اسرائیل کی فوجی طاقت کی دھمکی کا نتیجہ مزید انسانی نقصان اور خطے میں کشیدگی کی فضا میں اضافہ ہوگا، جسے علاقائی عدم استحکام اور بین الاقوامی تنہا پن کے طور پر واپس لوٹا جا سکتا ہے۔
عملی اور پالیسی سفارشات واضح ہیں: اولاً، فوری اور غیرمشروط جنگ بندی، انسانی امداد تک مکمل رسائی، اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بامعنی پیش رفت سب سے فوقیت ہونی چاہیے۔ ثانیاً، غزہ کے مستقبل کا حل کسی بیرونی ’’بورڈ‘‘ یا مشروط ٹیکنیکل کمیٹی کے ہاتھ میں دے کر نہیں نکالا جانا چاہیے؛ اس عمل میں مقامی نمائندوں، سول سوسائٹی، اور فلسطینی اتھارٹی کو لازماً شامل کیا جائے تاکہ خود ارادیت کا احترام برقرار رہے۔ تیسرا، تعمیر نو فنڈز کی نگرانی بین الاقوامی شفاف میکانزم (جیسے اقوامِ متحدہ کے تحت بااختیار مشن) کے ذریعے کی جائے، جس میں بدعنوانی روکنے کے ساتھ ساتھ مقامی بھرتی اور فائدہ اٹھانے کے معیارات طے ہوں۔ چوتھا؛ علاقائی شراکت داروں (مصری، قطری، ترکی، سعودی اور دیگر) کو مذاکرات میں مؤثر اور غیرجانبدار ثالث کے طور پر شامل کیا جائے، نہ کہ محض طاقت کے ترجمان۔ آخر میں، مسلم امہ اور بین الاقوامی برادری کو متحد اور اصولی موقف اختیار کرنا چاہیے: انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون اور فلسطینی حق ِ خود ارادیت کے دفاع کے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں۔
غزہ میں خون ریزی نے واضح کر دیا ہے کہ وقتی عسکری فتوحات یا سیاسی دستاویزات سے زیادہ ضروری انسانی انصاف، قانونی جوابدہی اور ایک جامع سیاسی حل ہے۔ جو امن انصاف اور وقار کے ساتھ قائم نہ ہو، وہ عارضی ہوگا اور اسی عارضیت کی قیمت غزہ کے معصوم شہری آج چکا رہے ہیں۔ عالمی برادری، علاقائی طاقتیں اور بالخصوص مسلم ممالک پاکستان سمیت اس وقت تاریخی موقع رکھتے ہیں کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو اقتدار و مفادات سے بالاتر رکھتے ہوئے ایک ایسی راہ تلاش کریں جو خون کو رکا سکے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق واپس دلوا سکے۔