data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ:۔ امریکی صدر کے 20 نکاتی امن منصوبے پر رضامندی کے بعد اسرائیل کا نیا یوٹرن، فلسطینیوں کو ان کے گھر جانے سے روک دیا۔

اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے حوالے سے ایک نیا اور سخت انتباہ عربی زبان میں جاری کیا ہے۔جس میں فلسطینیوں کو کہا گیا ہے کہ غزہ شہر واپس جانا ان کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے واپس نہ جائیں۔

اسرائیلی فوج نے دھمکی دی کہ اب بھی ان علاقوں میں فضائی حملے اور زمینی کارروائیاں جاری رہیں گی جن میں عام شہری بھی نشانہ بن سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں بیان میں شمالی غزہ سے جنوب کی طرف نقل مکانی کے لیے مخصوص راستہ (Rashid route) کھلا رکھنے کی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔ غزہ جنگ بندی منصوبے پر فریقین کی رضامندی کے باوجود اسرائیلی ٹینکوں نے شہر کے مرکزی راستے کو بلاک کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے جو لوگ شہر چھوڑ کر گئے تھے وہ واپس نہیں جا سکتے۔

بعض رپورٹس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ محصور فلسطینیوں کے لیے گھروں کو واپسی کا یہ آخری موقع ہے، لیکن اسرائیل کے اس طرح کے اقدامات نے شہری نقل و حرکت اور امدادی رسد پہنچانے کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ ادھر صحافی تنظیموں اور طبی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ صدر ٹرمپ کے غزہ پر حملے فوری طور پر بند کرنے کے واضح ہدایت کے باوجود فضائی اور زمینی حملے جاری ہیں۔

Aleem uddin.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کا فلسطین فارمولا، مجرم ہی منصف!

اسلام ٹائمز: میں یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ جب اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے تو حماس نے جنگ شروع کیوں کی۔ یاد رکھیں، جنگیں بہادری، قربانی اور اصولوں کے بغیر نہیں لڑی جا سکتیں۔ آزادی کی تحریکوں میں انسانی قربانیوں کی نہیں مقصد اور کاز کی اہمیت کو دیکھا جاتا ہے، جس کیلئے قربانیاں دی جا رہی ہوتی ہیں۔ تحریر: سید منیر حسین گیلانی

کافی عرصے بعد غزہ میں جاری انسانیت سوز بربریت کے مسئلے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس اسرائیل جنگ ختم کرنے کیلئے 20 نکاتی فارمولا دیا ہے۔ پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عرب اور غیر غرب مسلم ممالک کے سربراہوں کے سامنے یہ فارمولا پیش کیا گیا اور پھر کچھ دنوں بعد درندہ صفت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو اپنے ہاں بلا کر اسے اعتماد میں لیا۔ پھر دونوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ نیتن یاہو کی پریس کانفرنس کو نمایاں طور پر عالمی میڈیا پر دکھایا گیا، جس میں اس نے حماس کیساتھ جنگ بندی کے نکات پڑھ کر سنائے۔ اس کی تفصیلات آج دنیا کے سامنے آچکی ہیں اور تبصرے جاری ہیں۔ ان نکات میں دو ریاستی فارمولے کا کہیں کوئی ذکر تک نہیں، جس پر میاں شہباز شریف اور دوسرے رہنماء بغلیں بجا رہے تھے کہ ہم نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کر دی ہے۔ میں حیران ہوں کہ یورپ کے چند ممالک نے جب فلسطین کو تسلیم کیا تو اعلان کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن کی خاطر انسانیت کے نام پر دو ریاستی حل کروائیں گے، لیکن ٹرمپ کے امن فارمولے میں اس کا ذکر نہ ہونے پر کسی نے نہ صرف کوئی احتجاج نہیں کیا، بلکہ امریکہ کی تعریف کے پل باندھ رہے ہیں۔

میں کسی اور کی بات کیسے کروں؟ میں تو اپنے محبوب وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا ذکر کرتا ہوں کہ پاکستان کی دونوں طاقتور شخصیات نے ٹرمپ سے ملاقاتیں کیں، خوشگوار موڈ اور قہقہوں کو بار بار میڈیا پر دکھایا گیا، وزیراعظم نے اس امن فارمولے کے منظر عام پر آنے سے بھی پہلے ہی اس کی حمایت کر دی تھی اور ٹرمپ کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیئے تھے، اسی طرح کی کیفیت سعودی عرب کی طرف سے دیکھنے کو ملی، حالانکہ اس میں دور یاستی حل کا اشارہ تک نہیں، حتیٰ کہ فلسطینیوں کے حق آزادی تک کی کوئی بات اس دستاویز میں شامل نہیں۔ میں اس بات پر بھی تعجب کی کیفیت سے گزر رہا ہوں کہ اس فارمولے میں دو ریاستی حل کی تو کوئی بات نہیں، صرف جنگ بندی اور صیہونی قیدیوں کی رہائی زندہ یا مردہ کو ترجیح نمبر ایک پر رکھا گیا ہے اور وہ دو ممالک جو اسرائیل کی سرپرستی کرنے کی وجہ سے فریق ہیں اور لڑائی کی وجہ بنے ہوئے ہیں، انہیں کی دو شخصیات کو امن قائم کرنے کیلئے کردار دیا جا رہا ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ زمانہ کا مکار اور جھوٹا شخص برطانیہ کا سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر غزہ ترقیاتی کمیٹی کا سربراہ ہوگا۔ ٹونی بلیئر وہ شخص ہے، جس نے جھوٹ بول کر عراق پر حملہ کروایا، جس میں ہزاروں بیگناہ انسان قتل، زخمی اور بےگھر ہوئے۔ اب وہ فلسطینیوں کی فلاح و بہبود کی کمیٹی کا رکن ہوگا۔ پنجابی کی کہاوت ہے:
 "گدڑ کھکھڑیاں دے رکھوالے" یعنی گیدڑ خربوزے کے کھیت کی رکھوالی کرنیوالے بن گئے۔ حیران کن بات ہے کہ اس جنگ میں معصوم انسانوں کی قتل و غارت گری میں شریک رہنے والی صیہونی حکومت کی ظلم و بربریت پر سزا دینے، فلسطینیوں کی تباہ حال آبادیوں اور معیشت کی بحالی کیلئے کوئی جرمانہ اسرائیل کو ادا کرنے کا نہیں کہا گیا، بلکہ سعودی عرب اور قطر جیسے موثر مسلم ممالک وسائل دیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت تک دو ریاستی فارمولا آگے نہیں بڑھے گا، جب تک کہ قابض صیہونی اسرائیلی فوج کو یہاں سے نکال نہیں دیا جاتا۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ مغربی کنارے کا وہ حصہ جس میں بیت المقدس ہے، وہ فلسطین کا دارالحکومت بنایا جاتا، صیہونی حکومت سے آزاد کروا کر فلسطینیوں کے حوالے کیا جاتا، لیکن ایسی کوئی بات سامنے نہیں آرہی۔

فلسطینیوں کی حالیہ جدوجہد کو دو سال مکمل ہونیوالے ہیں۔ میں ان شہداء اور مجاہدین کو سلام پیش کرتا ہوں، جنہوں نے 7 اکتوبر 2023ء کو ”طوفان الاقصیٰ“ کے نام سے آپریشن اپنے اس استحقاق کے ساتھ شروع کیا کہ اقوام متحدہ کا چارٹر انہیں حق دیتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے قبضہ چھڑوانے کیلئے مسلح جدوجہد کریں۔ اس دو سالہ جدوجہد کے دوران حزب اللہ اور حماس کی قیادت سید حسن نصراللہ، سید ہاشم صفی الدین، اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار سمیت 66 ہزار بے گناہ فلسطینی شہید ہوئے۔ ایران پر اسرائیل اور امریکہ نے حملے کیے، ایران نے بھی ان کو بھرپور جواب دیا اور اس مفروضے کو پاش پاش کر دیا کہ اسرائیل اور امریکہ پر کوئی حملہ نہیں کرسکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کی جدوجہد سرزمین بیت المقدس کی آزادی تک جاری رہے گی۔ میں یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ جب اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے تو حماس نے جنگ شروع کیوں کی۔ یاد رکھیں، جنگیں بہادری، قربانی اور اصولوں کے بغیر نہیں لڑی جا سکتیں۔ آزادی کی تحریکوں میں انسانی قربانیوں کی نہیں مقصد اور کاز کی اہمیت کو دیکھا جاتا ہے، جس کیلئے قربانیاں دی جا رہی ہوتی ہیں۔

میں یہاں یہ بھی لوگوں کو یاد دہانی کروانا چاہوں گا کہ کربلا کو سمجھے بغیر کسی تحریک آزادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 60 ہجری میں واضح تھا کہ یزیدی حکومت اور فوج کا مقابلہ امام حسین علیہ السلام کے 72 ساتھی نہیں کرسکتے، مگر امام عالی مقام کو اپنے نانا کے دین کے تحفظ کا مقصد عزیز تھا۔ تو انہوں نے قربانی دی۔ آج ایک مسلم ملک کی آزادی کیلئے مزید فلسطینیوں کی قربانیاں دینا پڑیں تو یہ مہنگا سودا نہیں۔ میں پاکستانی عوام اور ہر غیرت مند انسان سے گزارش کروں گا کہ پاکستان کی حکومت اور فوج سے مطالبہ کریں کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر کسی بھی فارمولے کو رد کریں اور مجوزہ دستاویز میں اپنی طرف سے ترمیم کرکے ہم نوا ساتھی مملکتوں کیساتھ سفارتی سطح پر ایسا متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں، جو فلسطینی عوام کو قابل قبول ہو اور مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی ضمانت دے۔

متعلقہ مضامین

  • اپنے علاقوں میں واپس جانے سے باز رہیں؛ اسرائیلی فوج کی فلسطینیوں کو نئی دھمکی
  • اسرائیل ٹرمپ کو بھی کسی خاطر میں نہ لایا؛ غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری؛ مزید شہادتیں
  • غزہ جنگ بندی کے قریب ہیں، فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھیں گے: وزیراعظم
  • غزہ جنگ بندی کے قریب پہنچ چکے، فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھیں گے، وزیراعظم
  • ٹرمپ کا فلسطین فارمولا، مجرم ہی منصف!
  • صمود فلوٹیلا پراسرائیلی حملے، مولانافضل الرحمان کا ملک گیر مظاہروں کا اعلان
  • مولانا فضل الرحمان کا صمود فلوٹیلا پر حملے کیخلاف جمعہ کو ملک گیر مظاہروں کا اعلان
  • صمود فلوٹیلا پر حملے کیخلاف مولانا فضل الرحمان کا جمعہ کو ملک گیر مظاہروں کا اعلان
  • پاکستان صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج کے بزدلانہ حملے کی شدید ترین مذمت کرتا ہے: وزیراعظم شہباز شریف