وزیراعظم محمد شہباز شریف سے آزاد کشمیر میں مذاکراتی عمل کی کامیابی کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے اسلام آباد میں ملاقات کی۔

ملاقات میں راجا پرویز اشرف، مشیرِ وزیراعظم رانا ثنا اللہ، وفاقی وزرا احسن اقبال، محمد اورنگزیب، سردار محمد یوسف، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، احد خان چیمہ اور چیئرمین یوتھ پروگرام رانا مشہود احمد خان شریک تھے۔

مزید پڑھیں: جموں کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے متحرک رہنما شوکت نواز میر کون ہیں؟

وزیراعظم نے مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ کمیٹی نے کشمیر میں معاملات کو احسن انداز میں حل کیا۔

انہوں نے کہا کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بھی کشمیری عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے معاملہ فہمی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، جو قابلِ تحسین ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف سے آزاد کشمیر میں مذاکرتی عمل کی کامیابی کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی ملاقات۔ راجا پرویز اشرف، رانا ثنا اللہ، احسن اقبال، محمد اورنگزیب، سردار محمد یوسف، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، احد خان چیمہ اور رانا مشہود احمد خان شریک تھے۔@pmln_org @AzmaBokhariPMLN pic.

twitter.com/fAri9b7Mdx

— Media Talk (@mediatalk922) October 8, 2025

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ کشمیر کے تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل ہو گئے ہیں اور کشمیری عوام کے تمام تحفظات کو دور کیا جائے گا۔

انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت اپنے کشمیری بھائیوں کے مسائل کے حل کے لیے اقدامات جاری رکھے گی۔ عوامی مفاد اور امن ہماری اولین ترجیح ہے، ہم آزاد کشمیر کے عوام کی خدمت کرتے رہیں گے۔

مزید پڑھیں: ’ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے‘ آزاد کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا پُرتشدد واقعات سے اظہار لاتعلقی

انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں بھی کشمیری عوام کے حقوق کے محافظ تھے اور آئندہ بھی ان کے حقوق کا تحفظ جاری رکھیں گے۔

وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ان کی ترقی و خوشحالی کے لیے عملی اقدامات اٹھاتی رہے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آزاد کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی حکومتی مذاکراتی کمیٹی وزیراعظم محمد شہباز شریف

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جوائنٹ ایکشن کمیٹی حکومتی مذاکراتی کمیٹی وزیراعظم محمد شہباز شریف حکومتی مذاکراتی کمیٹی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کشمیری عوام شہباز شریف کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

در مدح ’’نا‘‘

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251122-03-6
باباالف
وزیراعظم اُسے کہتے ہیں جب ’’ہاں‘‘ کہے تو اس سے مراد ’’فوج کے شانہ بشانہ‘‘ ہونے کا اظہار ہو، جب ’’شاید‘‘ کہے تو اس کا مطلب ’’یقین جانیے‘‘ ہو اور جب ’’ناں‘‘ کہے تو اس کا مطلب ہے وہ وزیراعظم۔۔ شہباز شریف نہیں ہیں۔۔ وہ کئی زبانیں بول سکتے ہیں لیکن کسی بھی زبان میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ناں کہنے کی جرأت نہیں کرتے۔ تاہم کئی دن پہلے جب 27 ویں ترمیم کی آشفتگی میں انہوں نے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور صدر مملکت آصف علی زرداری کے برخلاف تا حیات عدالتی استثنیٰ لینے سے انکار کیا تو ہمیں خواب سا لگا۔ کیا واقعی۔۔ اس نے آندھی کے سامنے جھک کر۔۔ صبر اور گہری بے اعتنائی کا اظہار کیا ہے۔۔ کیا واقعی۔۔ اس نے جنرل اور صدر کو گزرنے دیا ہے۔۔ اور پھر سے سوچ میں ڈوب گیا۔۔۔ اللہ کی شان ہے۔۔ وہ قادر مطلق ہے۔۔ سب کچھ کرسکتا ہے۔۔ شہباز شریف بھی دلیر ہوسکتے ہیں۔۔ آتش نمرود میں بے خطر اور تاحیات گرنے کا عزم کرسکتے ہیں۔ لگتا ہے فیض صاحب کروٹیں بدل رہے ہیں۔

جن کا دیں پیروی کِذب و ریا ہے ان کو
ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے
جِن کے سر منتظر تیغِ جفا ہیں اُن کو
دستِ قاتِل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

استثنیٰ سے انکار کرکے وزیراعظم شہباز شریف نے جس ’’خود مختاری‘‘ کا اظہار کیا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے کسی دیار فرنگ کے پیدائشی کو اپنے والد کا پتا لگ جائے۔ جنرلوں کے مقابل خود مختاری ہمارے اہل سیاست کی گم شدہ شناخت ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی خواب سے جاگ اٹھے اور کہے وزیراعظم کا حلقہ انتخاب اس کے عوام ہیں۔ وہی اس کا احتساب کرسکتے ہیں نہ کہ کوئی عدالت، کوئی قاتل، کوئی جج، کوئی دست جفا۔ کسی سیاست دان کا یہی وہ شیرہ اقتدار ہے جو اسے جنرلوں اور خود غرض سیاست دانوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ثابت ہوا کہ سیاست دانوں میں اچھے کردار والے بھی ہوسکتے ہیں۔ پہلوان، طوائف اور سرکاری افسر سے الگ اور مختلف جسے بعداز پیشہ اپنا بڑھاپا خراب وخوار محسوس نہیں ہوتا۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ۔۔ لیکن۔۔ کیا واقعی یہ انکار اصولی ہے؟ یا پھر 27 ویں ترمیم کے موقع پر جنرلوں سے اپنے ازار بندی رشتے کا انکار کرکے، اپنی راہ الگ تراش کر طاقت کے کسی ممکنہ نئے توازن میں شہباز شریف نے عوام کی نظروں میں اپنی جگہ پکی کرنے کی کوئی چال چلی ہے؟؟ اگلے الیکشن میں عوامی منظر نامہ تبدیل ہونے کے باوجود بھی وہ منظر میں رہنا چاہتے ہوں۔

اقتدار کی ہر ضمانت دستیاب ہونے کے باوجود شہباز شریف اب بھی اپنی پیٹھ پر عمران خان کی آتشی جلن محسوس کرتے ہیں۔ عوام کی نظر میں عمران خان اب بھی ہارٹ بریکر اور ڈریم میکر ہیں۔ 27 ویں ترمیم کے ذریعے جس طرح جنرلوں کی گرفت مضبوط ہوئی ہے عوام اپنے خواب جنرلوں سے منسوب ہوتے دیکھ کر ابھی تو متذبذب ہیں لیکن کچھ پتا نہیں کب برسر احتجاج آجا ئیں۔ کب عمران خان کا جادو سر پر چڑھ کر ناچنے لگے۔ بھارت سے جنگ مئی میں پاک فوج نے جس پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے، جن رفعتوں سے ملک کو ہم کنار کیا ہے، مودی کو خاک چٹائی ہے، دنیا بھر سے خراج تحسین وصول کیا ہے، شجاعت و سرفروشی اور جاں بازی کی تاریخ رقم کی ہے، اس کی وجہ سے عوام کے دل فوج کے ساتھ ساتھ دھک دھک کررہے ہیں لیکن راج سنگھاسن کا کچھ اعتبار نہیں۔ ایک چھوٹی سی چنگاری کب بھڑک کر سب کچھ خا کستر کردے کچھ پتا نہیں۔ ایسے میں ایک نکی جئی ناں، استثنیٰ نہیں چاہیے کی لگام عوامی نفسیات کو تھامنے کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ آخر عوام کے پاس جانے کا کوئی تو بہانہ ہو؟

پاکستان کی سیاست اور ریاست کی اور اس کے اداروں کی جو نئی صورت گری ہورہی ہے اس میں فوج پس منظر میں رہ کر ارمان پورے کرنا چاہتی ہے۔ وہ اداروں، بیانیوں اور سیاسی چہروں کے ذریعے اقتدار پر گرفت رکھ رہی ہے۔ اب ٹرپل اے بریگیڈ ایوان وزیراعظم کے گیٹ پر چڑھی نظر آنا چاہتی ہے اور نہ ایوان وزیراعظم کے اندر۔ وہ جمہوریت کے سارے خوابوں کو خود جمہوریت کے ذریعے شکست دینا چاہتی ہے۔ ایسا پاکستان میں نہیں دنیا میں اکثرو بیش تر ہورہا ہے۔ جمہوریت کی ناکامی سب جگہ عیاں ہے۔ جمہوریت اب حقیقت نہیں ایک وہم اور فینٹسی ہے۔ اس کی رفوگری نہیں، صفائی نہیں، صفایا ہورہا ہے۔ ایک نیا نظام اس کی جگہ لے رہا ہے۔ جس میں وزیراعظم کا عہدہ ایک ایسا سایہ ہے ہر فائل کے کونے پر جس کے نظر آنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ شہباز شریف استثنیٰ کی خودمختاری دکھا کر اسے اختیار کا مترادف ظاہر کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ طوائف بیوروکریٹ سے بہتر ہوتی ہے اور سیاست دان فوج سے وہ پرائم منسٹر ہائوس کی دیوار پر قدآدم یہی لکھوانا چاہتے ہیں۔

پہلے ہم شہباز شریف کو بحیثیت مقرر بہت ہلکا لیتے تھے۔ بحیثیت مقرر ان کی سب سے شاندار پر فارمنس وہ تھی جب انہوں نے ہاتھ نچا نچا کر زرداری صاحب کا پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آگے لگے مائیک ادھر اُدھر پھینک دیے تھے۔ اس وقت وہ فن مقرری کی ایسی فیکٹری تھے جسے جتنا جلد ضبط کرلیا جاتا شر۔ آفت کے عین مطابق ہوتا۔ بحیثیت سیاست دان ان کی شاندار پرفارمنس وہ تھی جب وہ عمران خان کی جیل میں تھے۔ عمران خان خود کو تا حیات وزیراعظم اور اپوزیشن کو تا حیات جیل کی چکی پیستے دیکھتے تھے۔ شہباز شریف نے اس وقت نہ صرف اپنے اندر کے سکوت اور سیاست کو رہنما بنایا، نوازشریف کے مشورے سے گریز کیا اور اندر ہی رہتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے وہ رشتے استوار کیے کہ آج وہ ایوان وزیراعظم کے اندر اور جیل سے باہر ہیں اور عمران خان جیل کے اندر اور ایوان وزیراعظم سے باہر۔

عمران خان ہوں، شہباز شریف ہوں، گرامی قدر جرنیل ہوں یا پھر گروہ مصنفین، سانسوں کی ہانپتی آندھیوں، زندگی کی کچلی وحشتوں کو ان کی ہاں پر یقین ہے اور نہ ناں پر۔ بے چہرہ سورما جیل کے اندر ہوں یا جیل کے باہر، جی ایچ کیو میں ہوں یا عدل کے ایوانوں میں سب تا حیات کیلے کے چھلکے پر پھسلنے کو انجوائے کرنا اور اس پر سے گرنے کو سجدہ برائے فلاح عوام باور کرانا چا ہتے ہیں۔

آہ یہ فانی دنیا
بھول جانے والے لوگ
ختم ہو جانے والی لذتیں
مٹ جانے والے نام
وقتی خوشیاں، عارضی مسرتیں
رک جانے والی سانسیں
اور پھر
کل نفس ذائقۃ الموت

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم محمد شہباز شریف کا ضلع بنوں میں فتنتہ الخوارج کے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کاروائی پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین
  • بنوں میں کامیاب کارروائی، وزیراعظم کا سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین
  • در مدح ’’نا‘‘
  • پاکستان کا بھارتی غیر قانونی مقبوضہ کشمیر میں سنگین انسانی حقوق کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار
  • وزیراعظم سے شرجیل میمن کی ملاقات، سیاسی امور پر تبادلہ خیال
  • اسحاق ڈار کی جرمن وزیرِ خارجہ سے ملاقات، دونوں ممالک کے تعلقات کے مثبت رحجان پر اظہار اطمینان
  • امریکی کانگریس کی رپورٹ نے پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی فتح پر مہر تصدیق ثبت کردی، وزیراعظم شہباز شریف
  • وزیراعظم شہباز شریف کا باغ دانش سکول کا سنگِ بنیاد، افتتاح 23 مارچ 2026 کو ہوگا
  • وزیراعظم شہباز شریف آج  باغ (آزاد کشمیر) کا دورہ کریں گے
  • وزیراعظم، وزیراعلیٰ سندھ کی ملاقات، سیاسی حالات پر گفتگو