فیصل آباد:

 13 سالہ گھریلو ملازمہ پر مالکان نے بہیمانہ تشدد کرتے ہوئے اس کے بال کاٹ دیے جب کہ کمسن بچی کا جسم بھی گرم چمٹے سے جلایا گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق فیصل آباد میں تھانہ سول لائن کےعلاقے میں 13 سالہ کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد  کا واقعہ پیش آیا، جس میں گھر کے مالک مالک حبیب سلیم اور اہلیہ صدف نے ملازمہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

سفاک ملزمان بچی کے جسم کو گرم چمٹے سے جلاتے رہے اور اس کے سرکے بال بھی کاٹ ڈالے۔ تھانہ سول لائن پولیس نے نامزد ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا۔

دوسری جانب چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد نے واقعے  کا نوٹس  لیتے ہوئے فیصل آباد کی ٹیم کو متاثرہ بچی اور لواحقین سے فوری رابطہ  کرنے کی ہدایت  کی ہے۔

سارہ احمد نے اپنے بیان میں کہا کہ فیصل آباد میں 13سالہ کمسن گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ بچی کو مالکان نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ ملزمان نے بچی کے جسم کو گرم چمٹے سے جھلسایا اور بال بھی کاٹ دیے۔ پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے کے بعد ملزمان کو گرفتار کر  لیا ہے۔ تشدد کا شکار کمسن گھریلو ملازمہ کو مکمل معاونت فراہم کی جائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گھریلو ملازمہ پر گرم چمٹے سے تشدد کا

پڑھیں:

پُر تشدد انتہاپسندی کی روک تھام: ملائیشیا کے منصوبے سے پاکستان کیسے مستفید ہوسکتا ہے؟

دنیا بھر میں اِس وقت مذہبی، لسانی، نسلی اور علاقائی تعصبات ایک غالب ٹرینڈ کا حصہ نظر آتے ہیں اور اِن تعصبات کو ہوا دینے میں سوشل میڈیا ایک بنیادی عمل انگیز کا کام کرتا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں اپنے ہاں اِس طرح کی منافرتوں کو لے کر پریشان اور اُن کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔

ملائیشیا کی حکومت نے گزشتہ سال اِسی حوالے سے ایک 4 سالہ منصوبہ بنایا جس میں انتہا پسندی کی روک تھام کے حوالے سے اقدامات کی بات کی گئی ہے۔ یہ منصوبہ اِس حوالے سے قدرے مختلف نظر آتا ہے کہ اِس میں معاشرے کے تمام طبقات اور اداروں کو ہم آہنگ کیا گیا ہے۔

مُلک میں پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے ملائیشیا کی حکومت نے 2024 میں 4 سالہ مدّت کے لیے (ملائیشین ایکشن پلان آن پریونٹنگ اینڈ کاؤنٹرنگ وائلنٹ ایکسٹریمزم) متعارف کرایا ہے جس میں سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ اُن اقدامات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن کے ذریعے سے پُرتشدد انتہا پسندی کا سوشل میڈیا پر مقابلہ کرنا اور مسئلے کی جڑ کے حوالے سے کام کرنا شامل ہے۔

مزید پڑھیں: ملائیشیا کے قریب روہنگیا مہاجرین کی کشتی ڈوب گئی، 7 ہلاک، سینکڑوں لاپتا

اس منصوبے کا مقصد انتہا پسند نظریات کو روکنا، ان کا مقابلہ کرنا اور اُن سے متاثرہ افراد یا ریڈیکلائزڈ لوگوں کی بحالی اور معاشرے میں اُن کی شمولیت ہے۔ منصوبہ ایک جامع نقطہ نظر اپناتا ہے، یعنی وہ صرف مذہبی انتہاپسندی نہیں دیکھتا بلکہ سیاسی، نسلی، مذہبی اور بیرونی رجحانات کو بھی ایک خطرے کی صورت میں دیکھتا ہے۔

اس منصوبے کے 4 ستون ہیں:

روک تھام: اس میں تعلیمی، سماجی اور معاشرتی مداخلت شامل ہے تاکہ انتہا پسندی پیدا ہونے ہی نہ پائے۔

نفاذ: قانونی اور حکومتی اقدامات کے ذریعے انتہا پسندانہ سرگرمیوں پر کارروائی کرنا۔

بحالی: انتہا پسندی کی زد میں آ چکے افراد کو دوبارہ معاشرے میں شامل کرنے، ان کا نظریاتی اور نفسیاتی علاج کرنے پر زور۔

 تقویت: سماجی، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کو مضبوط کرنا، اور ایسے پلیٹ فارمز بنانا جو ایک معتدل اور شمولیتی معاشرے کو فروغ دیں۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کی دورہ ایشیا کے دوران ملائیشیا آمد، ایئرپورٹ پر رقص کرتے ہوئے ویڈیو وائرل

منفرد خصوصیات

مائی۔ پی سی وی ای ’سخت‘ اور ’نرم‘ یعنی ہارڈ اور سافٹ دونوں طرح کے طریقے استعمال کرتا ہے: قانون سازی اور نفاذ کے اقدامات کے ساتھ ساتھ معاشرتی پہلوؤں پر بھی کام کرے گا۔ یہ منصوبہ مختلف اسٹیک ہولڈرز جیسا کہ وزارتیں، حکومتی ادارے، سول سوسائٹی، این جی اوز، مذہبی اور نسلی برادریوں کو شامل کرکے تیار کیا گیا ہے تاکہ معاشرے کے طبقے کی شمولیت سے اِسے کامیاب بنایا جا سکے۔

اس منصوبے کی اہم خاصیت اس میں ’مدنی‘ تصور کو اجاگر کیا گیا ہے، یعنی اخلاق، اقدار اور معاشرتی تعلقات کو مضبوط کرنے کے حوالے سے حکمتِ عملی وضع کی گئی ہے۔

یہ منصوبہ ملائیشین حکومت کی دیگر متعلقہ پالیسیوں اور اقدامات کے ساتھ ہم آہنگ کرکے بنایا گیا ہے، جیسا کہ شیئرڈ پراسپیرٹی ویژن 2030 اور نیشنل سیکیورٹی پالیسی وغیرہ۔

منصوبے کے حوالے سے اہم بیانات اور حکومتی نکتہ نظر

ملائشین وزیرِاعظم انور ابراہیم نے اس منصوبے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فوری اور بہتر نگرانی کی ضرورت ہے، خاص طور پر اسکولوں، سیاسی حلقوں اور گروپوں میں، تاکہ ممکنہ تشدد یا انتہا پسندی کو ابتدائی سطح پر پکڑا جائے۔ صرف دہشتگردی کی کارروائیوں کو روکنا کافی نہیں، ہمیں ان عناصر کے نظریاتی محرک یا آئیڈلاجیکل ڈرائیورز کو سمجھنا ہوگا جو تشدد کی جانب لے کر جاتے ہیں۔

ملائیشیا کے وزیرِ داخلہ نے کہا ہے کہ ملائشیا کا یہ ایکشن پلان دوسرے ممالک کے ماڈلز سے مختلف ہے کیونکہ یہ مقامی اقدار، اصولوں اور ریاستی مظبوطی کو مدِ نظر رکھتا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیرِاعظم شہباز شریف سے ملائیشیا کے ہم منصب انور ابراہیم کا ٹیلیفونک رابطہ، پاک افغان کشیدگی پر گفتگو

شمولیت اور شفافیت

ملائشیا میں ایک ’ون اسٹاپ پورٹل‘ بھی ہے جہاں پی سی وی ای سے متعلق معلومات، تربیتی وسائل، تحقیق اور عوامی آگاہی کے مواد فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کے پہلوؤں پر زور دینے کی وجہ سے، یہ منصوبہ عوامی سطح پر قبولیت اور عوامی شمولیت کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے، اور اِس کا انحصار صرف اور صرف سخت سیکیورٹی مداخلت پر منحصر نہیں ہے۔

پاکستان مائی۔پی سی وی ای منصوبے سے کیا سبق حاصل کر سکتا ہے؟

ملائشیا کا یہ ایکشن پلان پاکستان میں پرتشدد انتہا پسندی کے چیلنجز سے نمٹنے میں ایک ماڈل ثابت ہو سکتا ہے جیسا کہ:

جامع حکمتِ عملی اپنانا

پاکستان میں عموماً انسدادِ دہشتگردی حکمتِ عملی زیادہ تر قانون سازی اور سکیورٹی کے نفاذ تک مرکوز رہتی ہے۔ ملائشیا کا ماڈل بتاتا ہے کہ روک تھام، بحالی، تقویت یا ری انفورسمنٹ سبھی عناصر اہم ہیں۔ پاکستان اس ماڈل کو اختیار کرکے صرف قانونی یا سیکیورٹی کارروائی کے بجائے انتہا پسندی کی جڑ (نظریاتی اور سماجی عوامل) پر بھی توجہ دے سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: کوالالمپور: 13واں سلطان آف جوہر ہاکی کپ، پاکستان نے ملائیشیا کو 2-7 سے شکست دیدی

سول سوسائٹی اور مقامی شراکت

مائی۔پی سی وی ای منصوبے میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا گیا ہے، جن میں غیر سرکاری تنظیمیں، مذہبی ادارے اور مقامی برادریاں شامل ہیں۔ پاکستان بھی اپنی نوجوان آبادی، تعلیمی اداروں، مذہبی تنظیموں اور این جی اوز کو شامل کرکے کام کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے تاکہ انتہا پسندی کے وجوہات کو ختم کیا جائے۔

آن لائن اور آف لائن مداخلت

ملائشیا نے اس سلسلے میں سافٹ اپروچ اپنائی ہے، اس میں آگاہی مہمات، تعلیم، مذہبی مکالمے اور معاشرتی اقدار پر مبنی تربیت شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر انتہا پسندانہ بیانیے کو چیلنج کرنے کے لیے اسی قسم کی مہمات چلائی جا سکتی ہیں، اور اسکولوں کے نصاب میں ایسے موضوعات شامل کیے جاسکتے ہیں جو تنوع، برداشت اور مکالمہ پر زور دیں۔

بحالی پروگرامز مضبوط بنانا

پاکستان میں ایسے افراد جو کسی حد تک نظریاتی انتہا پسندی کی طرف مائل ہو چکے ہیں، اُنہیں واپس معاشرے میں واپس لانے کے لیے دینی، نفسیاتی اور تربیتی بحالی پروگرامز شروع کیے جائیں۔ ملائشیا کی مثال بتاتی ہے کہ صرف سزا دینا کافی نہیں ہے۔ نقطہ نظر بدلنے اور سماج سے دوبارہ جڑنے کے مواقع فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:وزیراعظم کا دورۂ ملائیشیا مکمل، داتو سری انور ابراہیم نے الوداع کیا

پالیسی اور قانونی ہم آہنگی

پاکستان اپنی قومی سیکیورٹی پالیسی، اندرونی سلامتی حکمتِ عملی اور علاقائی تعاون مثلاً جنوبی ایشیا یا اسلامی ممالک کے ساتھ مائی۔پی سی وی ای طرز کے منصوبوں کو ہم آہنگ کرسکتا ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ قانونی اقدامات (نفاذ) اور پالیسی اقدامات متوازی چلنے چاہیئں چلیں۔

مانیٹرنگ اور تشخیص

 مائی۔ پی سی وی ای کی طرح، پاکستان کو اپنے اقدامات کی مؤثر مانیٹرنگ اور تشخیص کا نظام قائم کرنا چاہیئے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کون سی حکمتِ عملی مؤثر ہے اور کہاں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

mypcve malaysia پاکستان پُر تشدد انتہاپسندی ملائیشیا

متعلقہ مضامین

  • پُر تشدد انتہاپسندی کی روک تھام: ملائیشیا کے منصوبے سے پاکستان کیسے مستفید ہوسکتا ہے؟
  • مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں کمسن شہید بچی کی کہانی، بھارتی جبر کا سیاہ باب
  • کمسن بچی حافظ نعیم الرحمن کی تصویر اٹھائے دوسرے روز اجتماع عام میں شریک ہے
  • خواتین کے خلاف بڑھتا تشدد قومی سانحہ بن گیا‘ جنوبی افریقا
  • ایرانی نیوز ایجنسی کی صحافی پر 110 دن تک اسرائیلی فوجیوں کا تشدد اور قید کی اذیتیں
  • فیروز خان نے گھریلو تنازعات کی وجہ سے موت کے قریب پہنچنے کا انکشاف کر دیا
  • ریسٹورنٹ، پکوان سینٹر مالکان کو بھتے کی پرچیاں موصول، رقم نہ دینے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں
  • گھریلو ملازمائیں مافیا کا روپ دھارگئیں
  • پنجاب میں خواتین کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے تشویشناک اعداد و شمار؛ فیکٹ شیٹ جاری
  • باپ نے گھریلو تنازع پر 22 سالہ بیٹی کو ڈنڈے مار کر قتل کردیا