وزیراعظم آزاد کشمیر کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ،کشمیری عوام کے تمام تحفظات دورکر ینگے ‘شہباز شریف
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251009-08-19
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) آزاد کشمیر کے وزیراعظم چودھری انوار الحق کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اعلی سطح کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مل کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے، وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں اس حوالے سے مشاورت مکمل کرلی گئی۔ ذرائع نے کہا کہ چودھری انوار الحق نے حالیہ آزاد کشمیر کے حالات میں سستی روی کا مظاہرہ کیا، وزیراعظم آزاد کشمیر حالات کو معمول پر لانے میں ناکام رہے۔علاوہ ازیں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کشمیر میں تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوئے، کشمیری عوام کے تمام تحفظات کو دور کیا جائے گا، حکومت اپنے کشمیری بھائیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات جاری رکھے گی۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف سے آزاد کشمیر میں مذاکرتی عمل کی کامیابی کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ ملاقات میں راجا پرویز اشرف، قمر الزماں کائرہ، مشیر وزیرِ اعظم رانا ثناء اللہ، وفاقی وزراء احسن اقبال، محمد اورنگزیب، سردار محمد یوسف، ڈاکٹر طارق فضل چودھری، احد خان چیمہ اور چیئرمین یوتھ پروگرام رانا مشہود احمد خان شریک تھے۔ وزیراعظم نے مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کی کشمیر میں معاملات کو احسن طور سے حل کرنے کے لیے کوششوں کی پذیرائی کی، جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بھی کشمیر کی ترقی و خوشحالی کے لیے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا جس کے لیے وہ لائق تحسین ہیں۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ کشمیر میں تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوئے، کشمیری عوام کے تمام تحفظات کو دور کیا جائے گا، حکومت اپنے کشمیری بھائیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات جاری رکھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ عوامی مفاد اور امن ہماری ترجیح ہے اور آزاد کشمیر کے عوام کی خدمت کرتے رہیں گے، پہلے بھی کشمیری بہن بھائیوں کے حقوق کے محافظ تھے اور آئندہ بھی ان کے حقوق کا تحفظ کرتے رہیں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آزاد کشمیر کے مسائل پر ہمیشہ توجہ رہی ہے اور میری حکومت نے ہمیشہ ترجیحی بنیادوں پر ان مسائل کو حل کیا ہے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اقدامات اٹھاتے رہیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اعظم شہباز شریف ا زاد کشمیر کے کشمیری عوام کے لیے نے کہا
پڑھیں:
وزیراعظم آزاد کشمیر کو ہٹانے کا کوئی فیصلہ نہیں، حکومتی جماعتوں کا اتحاد برقرار ہے ، طارق فضل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی وزیر طارق فضل چودھری نے واضح کیا ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر کو فوری طور پر ہٹانے یا ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بعض سیاسی حلقے افواہیں پھیلا رہے ہیں، لیکن اجلاس میں نہ تو استعفے کا ذکر ہوا اور نہ ہی وزیراعظم آزاد کشمیر کو برطرف کرنے کی کوئی تجویز زیر غور آئی۔
طارق فضل چودھری نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا اتحاد بدستور قائم ہے اور وزارتیں نہ لینے کے باوجود پیپلز پارٹی کا تعاون ان کی جمہوریت پسندی کا مظہر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں بھی حالات کی نزاکت کے پیش نظر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہیں، یہی اتحاد ملک کے لیے استحکام اور اچھی خبریں لا رہا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سیاسی مخالفین کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی کیونکہ موجودہ حکومت ملکی سلامتی اور عوامی استحکام کے ایجنڈے پر متحد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری سیکیورٹی فورسز روزانہ ملک کے لیے قربانیاں دے رہی ہیں اور ہم ان کی خدمات کو سلام پیش کرتے ہیں، پرامن مظاہرے اگر تشدد میں بدل گئے تو وزیراعظم نے اسی لیے مذاکراتی راستہ اختیار کیا تاکہ حالات خراب نہ ہوں۔
طارق فضل چودھری نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے حوالے سے کہا کہ کمیٹی کے کوئی بھی مطالبات غیر آئینی نہیں، ہم نے تحریری طور پر یقین دہانی کرائی ہے کہ تمام وعدے پورے کیے جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت آزاد کشمیر میں انتشار اور تشدد کے مناظر دیکھنا چاہتا تھا، لیکن اس کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ وزیراعظم نے مذاکراتی ٹیم کو کامیاب پیش رفت پر شاباش دی ہے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں پیپلز پارٹی سے مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے اور دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات قیادت کی سطح پر خوش اسلوبی سے حل کیے جائیں گے۔
انہوں نے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سیاسی تاریخ لوگوں کو استعمال کرکے چھوڑ دینے کی رہی ہے، اور اب وہی رویہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ بھی دہرایا جا رہا ہے۔