data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251009-08-24
پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ پی ٹی آئی کے دوست آئینی ترمیم سے کیسے پیچھے ہٹ گئے؟ پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 16 اکتوبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود کانفرنس منعقد ہوگی، غزہ میں 70 ہزار بے گناہ لوگ شہید ہوچکے ہیں، امن مارچ کے ساتھ اسرائیل مردہ باد بھی مارچ کا حصہ ہوگا، ہمیں حقیقت پسندانہ بات چیت کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف جو بھی عدالت گیا وہ اس کا حق ہے، میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ پی ٹی آئی کے دوست کیسے آئینی ترمیم سے پیچھے ہٹ گئے؟ 27 صفحات پر مشتمل 26 ویں ترمیم تیار ہوئی، سینیٹ، قومی اسمبلی اور حکومت نے 26 ویں ترمیم کے لیے ہماری تعریف کی، پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں کہ ہم ججوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آئے ہیں، 26 ویں آئینی ترمیم کو مشکوک بنایا جا رہا ہے، معاملات پر پی ٹی آئی ہمیں دعوت دے ہم ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ وفاق میں پی ٹی آئی، کے پی اور بلوچستان میں جے یو آئی کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے، میری نظر میں پی پی پی حکومت کا حصہ نہیں، حکومت اس وقت اقلیت میں ہے، مینڈیٹ چوری کرنے والوں کے خلاف بات ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان ہو پاکستان کی سر زمین ہو، کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے، 20 سالہ جنگ میں کیا ہم نے امریکا کو اڈے نہیں دیے؟ افغان حکومت میں کرزئی سمیت دیگر نے کبھی گلہ کیا؟ غیر مستحکم افغانستان کبھی پاکستان کے لیے بہتر نہیں ہوسکتا، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اگر غلط فیصلہ کرتی ہے تو ہم نشاندہی کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ صوبے میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے فیصلے سے صورتحال کو دیکھ کر اسمبلی میں فیصلہ کریں گے، صوبے میں بدامنی کا ادراک اگر خود پی ٹی آئی نے کیا ہے تو اچھی بات ہے۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فضل الرحمن پی ٹی ا ئی ا ئی کے نے کہا کے لیے

پڑھیں:

آرٹیکل 191 کو بھول جائیں تو آئینی بینچ ختم‘عدالت عظمیٰ کا وجود ہی نہیں رہتا‘ جسٹس امین الدین

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251009-08-20
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ میں زیر سماعت 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں میں وکیل حامد خان نے فل کورٹ کی تشکیل کے معاملے پر دلائل مکمل کرلیے۔ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، حامد خان کے آرٹیکل 191 کو بھول جانے کے جملے پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 کو بھول جائیں تو آئینی بینچ ہی ختم، پھر ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اگر ہم اسے بھول جائیں تو پھر آج عدالت عظمیٰ کا وجود ہی نہیں رہتا۔ دوران سماعت لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے اور معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں غیر معمولی طریقے سے لائی گئی تھی، ترمیم پارلیمنٹ میں رات کے وقت منظور کی گئی۔ حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 21 اکتوبر کو عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس سمیت 17 ججز موجود تھے، 25 اکتوبر کو چیف جسٹس ریٹائر ہوگئے، ججز کی تعداد 16 رہ گئی، موجودہ آئینی بینچ کے 8 ججز بھی 26ویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے کے وقت عدالت عظمیٰ میں موجود تھے۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل نے کہا کہ باقی 8 ججز کو بھی آئینی بینچ کا حصہ ہونا چاہیے جو 26ویں آئینی ترمیم کے پاس ہونے کے وقت عدالت عظمیٰ کا حصہ تھے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین پر انحصار کرتے ہیں، وکلا بھی آئین پر انحصار کرتے ہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا، 26ویں آئینی ترمیم ٹھیک ہے یا غلط، فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فی الحال ہم مرکزی کیس کو نہیں سن رہے، فْل کورٹ کی درخواست پر دلائل دیں۔ حامد خان نے مؤقف اپنایا 26ویں آئینی ترمیم سے عدلیہ کے اختیارات پر پڑے اثرات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، 26ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس سے بینچز بنانے کا اختیار پہلی بار واپس لے لیا گیا، جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر بھی اثر پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ترمیم سے ججز کی جوڈیشل کمیشن میں اکثریت ختم ہوگئی، جس کے باعث عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی۔ دوران سماعت جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ مسئلہ یہ ہے ابھی تک یہی فیصلہ نہیں ہوا کس بینچ نے کیس سننا ہے، ہم کس اختیار سے فل کورٹ تشکیل دیں؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں، 26ویں ترمیم میں کہاں لکھا ہے جوڈیشل آرڈر نہیں ہوسکتا؟ عام مقدمات میں ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کیس میں کیوں نہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں آئین کے متن سے بتائیں ہم فل کورٹ کا آرڈر کیسے کریں؟ کیا ہم یہ آرڈر آرٹیکل 187 استعمال کر کے دیں؟ حامد خان نے کہا کہ جی بالکل! آرٹیکل 187 کے تحت عدالت اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ فرض کریں ہم آپ کی بات مانتے ہوئے تمام عدالت عظمیٰ ججز کو آئینی بینچ مان لیں تو آپ مطمئن ہوں گے؟ حامد خان نے کہا کہ آئینی بینچ کا تصور آپ نے 26ویں ترمیم سے دیا ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے کہا ہم نے نہیں دیا، پارلیمان نے دیا ہے، ہم پر نہ ڈالیں۔ حامد خان نے کہا آپ تھوڑی دیر کے لیے آرٹیکل 191 اے کو بھول جائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا بھول جائیں تو پھر آئینی بینچ ہی ختم، پھر ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم اس آرٹیکل بھول جائیں تو پھر آج عدالت عظمیٰ کا وجود ہی نہیں رہتا۔ جسٹس جمال مندو خیل نے پوچھا کہ اگر اس آئینی بینچ کا وجود ختم ہوجائے تو پھر ہم آرڈر کیسے کر سکتے ہیں؟حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ دیکھنا ہے 26ویں آئینی ترمیم آئین کے مطابق ہے بھی یا نہیں، عدالت میں آدھا فل کورٹ موجود ہے، بقیہ 8 ججز کو بھی بینچ کا حصہ بنائیں، جہاں بھی آئین پر سوال اٹھا، ہمیشہ فل کورٹ بنی ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ آپ نہیں سمجھتے اب صورتحال مختلف ہے؟ ماضی میں پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ موجود نہیں تھا، اس وقت چیف جسٹس اختیار استعمال کر کے فل کورٹ بناتے رہے، اب یہ اختیار آئین اور قانون کے مطابق کمیٹی کا ہی ہے۔ دوران سماعت وکیل حامد خان نے دلائل مکمل کرلیے، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • 26ویں ترمیم، پی ٹی آئی شامل تھی معلوم نہیں پیچھے کیوں ہٹے، ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں: فضل الرحمن
  • 26 ویں ترمیم کیس، جب تک ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا، سپریم کورٹ
  • آرٹیکل 191 کو بھول جائیں تو آئینی بینچ ختم‘عدالت عظمیٰ کا وجود ہی نہیں رہتا‘ جسٹس امین الدین
  • سمجھ نہیں آرہا پی ٹی آئی کے دوست آئینی ترمیم سے پیچھے کیوں ہٹ گئے؟ فضل الرحمان
  • وزیرِ اعلیٰ کی تبدیلی پر ابھی کوئی بات نہیں کر سکتا: مولانا فضل الرحمٰن
  • وزیرِ اعلیٰ کی تبدیلی پر ابھی کوئی بات نہیں کر سکتا، مولانا فضل الرحمٰن
  • سمجھ نہیں آرہا پی ٹی آئی کے دوست آئینی ترمیم سے پیچھے کیوں ہٹ گئے؟ فضل الرحمان
  • چھبیسویں آئینی ترمیم کیس: آئین میں ترمیم ہونے تک موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا، جسٹس امین الدین
  • عدالت کو بتا دیں کیوں 16رکنی بنچ بنا دیں؟جسٹس امین الدین کا وکیل حامد خان سے استفسار