’’ججز کو تو ووٹ دیتے نہیں‘‘ جسٹس محسن کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ ججوں کو ووٹ دیتے نہیں عدالتیں بند کر دیں۔ عدات میں سپریم کورٹ بار کے آئندہ انتخابات کا ذکر آیا تو عدالت میں دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی۔ ایک کیس میں وکیل کو 16 اکتوبر کی تاریخ دی۔ اس پر وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ 16 اکتوبر کی تاریخ نہ رکھیں، اس روز تو سپریم کورٹ بار کے الیکشن ہیں۔ یہ سن کر جسٹس محسن اختر کیانی نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ بار کے الیکشن ہیں تو ان سے کہیں پھر عدالتیں بند کر دیں۔ ججوں کو تو ووٹ دیتے نہیں آپ، ججوں کو بھی ووٹ دیا کریں ناں۔ جج کے ان ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج اُٹھے۔ بعد ازاں عدالت نے 16 اکتوبر کی دی گئی تاریخ برقرار رکھی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
5 ججز کی انٹرا کورٹ اپیل کی وفاقی آئینی عدالت میں سماعت آج ہوگی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(آن لائن)ججز ٹرانسفر کیس میںاسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی ٹرانسفر کیس میں انٹرا کورٹ اپیل کی وفاقی آئینی عدالت میں سماعت آج پیر 24 نومبر کو ہوگی،ججزنے اس اقدام کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیاتھا، ججزکی درخواست پر سپریم کورٹ کی جانب سے اعتراض عائدکیے جانے کاامکان ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں نے وفاقی آئینی عدالت میں ایک متفرق درخواست دائر کی، جس میں انہوں نے اپنی انٹرا کورٹ اپیل کو سپریم کورٹ سے آئینی عدالت منتقل کیے جانے کو چیلنج کیا ہے۔یہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ثمن رفت امتیاز اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے دائر کی گئی۔یہ کیس دیگر ہائی کورٹس کے 3 ججوں کے وفاقی دارالحکومت میں تبادلے سے متعلق ہے۔جون میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے قرار دیا تھا کہ ان کا تبادلہ غیر آئینی نہیں ہے، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان 5 ججوں نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔تاہم اب یہ انٹرا کورٹ اپیل وفاقی آئینی عدالت میں مقرر کی گئی ہے، جو 27ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم کیا گیا تھا اور 24 نومبر کو اس کی سماعت ہونا ہے۔متفرق درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے وفاقی آئینی عدالت سے اپیل واپس سپریم کورٹ بھیجنے کی استدعا کی اور ساتھ مؤقف اپنایا کہ یہ معاملہ آئینی طور پر سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ اپیل کو 27ویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی عدالت منتقل کیا گیا، تاہم درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ خود یہ ترمیم آئین سے متصادم ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ آئین نے واضح طور پر ریاست کے 3 بنیادی ستون، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کا تعین کیا ہے اور ہر ایک کے اختیارات و حدود مقرر کیے ہیں۔ججوں کا مؤقف تھا کہ اگرچہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے، لیکن اس اختیار کو عدلیہ کے خاتمے، اس کی ازسرنو تشکیل، یا اس کی بنیادی حیثیت کو کمزور کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ عدلیہ آئینی ڈھانچے کا بنیادی حصہ ہے۔