ٹرمپ امن منصوبہ، امن یا حماس کے لیے سرنڈر کی شرط؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آخری حصہ
اگر حماس ان نکات کی قبولیت سے انکاری ہو جائے، یا صرف جزوی قبول کرے، تو منصوبہ عملی شکل نہ لے پائے گا۔ بعض نکات بہت مبہم ہیں مثال کے طور پر ’’جب غزہ کی تعمیر ہو جائے، تب فلسطینی ریاست کا امکان‘‘ اس میں وقتی تعطل اور اختلافِ رائے کا بہت امکان ہے۔ عوام اور مسلح گروہ دونوں میں شدید نفرت، انتقامی رجحان، اور امن مخالف نظریے پائے جاتے ہیں۔ ان کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر اسرائیل، امریکا، یا نمائندہ بین الاقوامی فورس وعدے پورے نہ کریں، یا حماس کے کچھ افراد مزاحمت کریں، تو منصوبہ ناکام ہوسکتا ہے۔ یہ منصوبہ صرف غزہ کا معاملہ ہے؛ اگر غربِ اردن، یروشلم، فلسطینی ریاست کا سوال حل نہ ہو تو پورا تنازع برقرار رہے گا۔ یہ کہنا درست ہے کہ اگرچہ یہ منصوبہ امن کی امید ظاہر کرتا ہے، اس کی کامیابی تقریباً ’’متعدد اجزاء کی درست ترتیب‘‘ پر منحصر ہے۔ اگر ایک بھی اہم جزو غلط ہو جائے، یہ شکست کی طرف مائل ہوگا۔
کیا یہ منصوبہ دراصل شکست ہو گا یا امن لائے گا؟ میری اپنی بصیرت یہ ہے کہ یہ منصوبہ امکاناً جزوی عمل درآمد کے ساتھ ایک عبوری امن فراہم کر سکتا ہے، مگر وہ مکمل اور پائیدار امن نہیں ہوگا، اور بہت ممکن ہے کہ وہ ’’موقوف جنگ بندی اور محدود بحالی‘‘ کی شکل اختیار کرے، نہ کہ پورے تنازع کا حل۔ اس منصوبے نے حماس کو مکمل تسلیم کرنے کی سخت شرط رکھی ہے، اور وہ شرطیں ایسی ہیں کہ حماس اپنا سیاسی و عسکری ہتھیار تقریباً خود تحلیل کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ بہت سی شقیں اس پر مبنی ہیں کہ حماس ’’نئے غزہ‘‘ کو قبول کرے اور مکمل سیاسی قوت سے دستبردار ہو جائے۔ اگر حماس سخت موقف اختیار کرے، اس منصوبے کا رد یا تاخیر ممکن ہے، اور پھر اسرائیل دوبارہ عسکری دبائو استعمال کرے گا۔ اگر کوئی فریق وعدوں پر عمل نہ کرے، یا امن فورس مؤثر نہ ہو، تو امن خطرے میں ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل نے اس طرح کے امن معاہدے کیے ہوں۔ ماضی کی مثالیں اس منصوبے کے خدشات کو اور بڑھاتی ہیں: اسلو معاہدے (1993–95) کے بعد بھی اسرائیل نے بستیوں کی توسیع جاری رکھی۔ غزہ ڈس انگیج منٹ (2005) میں انخلا کے باوجود اسرائیل نے مکمل محاصرہ لگا دیا، اور ہر آمد و رفت اپنے کنٹرول میں رکھی۔ شام اور دیگر ملکوں سے معاہدوں کے باوجود اسرائیل نے عسکری کارروائیاں جاری رکھیں۔ حالیہ برسوں میں بھی جنگ بندی کے باوجود اسرائیل نے غزہ پر حملے جاری رکھے اور 65 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا اور جو لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اگر ان کی تعداد بھی شامل کر لی جائے تو لگ بھگ دو لاکھ کے قریب بنتی ہے یعنی 10 فی صد کے قریب لوگوں کو آپ نے زندگی سے خالی کر دیا، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ معاہدوں کو محض وقتی حکمت ِ عملی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ چونکہ یہ منصوبہ غزہ پر مرتکز ہے، مگر فلسطینی ریاست کا سوال باقی ہے، اس لیے یہ ایک ’’ٹکڑوں کا امن‘‘ ہو سکتا ہے، نہ مکمل حل۔ لہٰذا میں یہ کہوں گا کہ یہ منصوبہ اگر کامیابی سے نافذ ہو جائے، بین الاقوامی فورس مؤثر ہو، وعدے پورے ہوں، عوامی تعاون ملے تو ایک وقتی، محدود امن لائے گا۔ مگر اگر کوئی سنگِ بنیاد حصہ ناکام ہو جائے، تو یہ شکست کی طرف زیادہ مائل ہوگا۔
یہ منصوبہ فی الحال ایک عارضی امن اور محدود سکون فراہم کر سکتا ہے، مگر اسے مکمل اور پائیدار حل نہیں کہا جا سکتا۔ چونکہ یہ زیادہ تر اسرائیل اور امریکا کے حق میں بنایا گیا ہے، اس لیے فلسطینی عوام کی نظر میں یہ سرنڈر پلان محسوس ہوتا ہے۔ ماضی کی طرح اگر اسرائیل نے وعدوں کی خلاف ورزی کی اور اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھیں، تو یہ منصوبہ بھی چند مہینوں کی جنگ بندی کے بعد ناکامی اور مزید خونریزی میں بدل سکتا ہے۔
غزہ کے ہر گھر کی دیوار اب ایک سوال پہ کھڑی ہے: کیا یہ کاغذ، یہ ۲۰ نکات، ہمارے بچوں کی لاشوں کا بدل ہوں گے یا پھر انہیں امن کے نام پر دوبارہ دھکیل دیا جائے گا؟ ہم وہ قومیں نہیں جو صرف وعدوں پر جیئیں ہم وہ لوگ ہیں جن کے قبریں ان باتوں کی گواہی دیتی ہیں جو کبھی وعدہ رہ گئیں۔ اگر امن حقیقی ہوگا تو وہ صرف کاغذ پر نہیں آئے گا؛ وہ آئے گا جب ایک ماں کو یقین ہو کہ اس کے بچے کی قبر کے پاس دوبارہ موت کا خوف نہیں، جب ایک باپ کو یقین ہو کہ اس کا بیٹا اسکول جا سکے گا، جب غزہ کے بازاروں میں پھر ہنسی سنائی دے نہ کہ صرف عالمی فورمز پر اعداد و شمار اور لکیروں کے پیچھے چھپا ہوا ایک نیا سرنڈر۔
ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ اس سے پہلے یہ گھنائونا کھیل بوسنیا میں بھی کھیلا گیا ہے جب ان سے کہا گیا کہ: اپنے اسلحے ہمیں دے دو تاکہ ہم تمہیں بے بس جانوروں کی طرح کاٹ ڈالیں اور تمہاری زمینوں پر قبضہ جما لیں۔ اگر ہم نے بوسنیا میں ہونے والے مظالم کو نہیں سمجھا تو ہم کبھی بھی غزہ میں جاری تباہی کو نہیں سمجھ پائیں گے۔ پہلے بوسنیا کے سانحے کو سمجھیں، پھر غزہ کی حقیقت ہمارے سامنے خود کھل جائے گی۔ صربوں نے بوسنیا کے مسلمانوں پر جو قیامت ڈھائی، اس میں تین لاکھ مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، ساٹھ ہزار عورتوں اور بچوں کی عصمتیں لوٹ لی گئیں، پندرہ لاکھ مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال کر در بدر کر دیا گیا۔ کیا ہمیں وہ دن یاد ہیں؟ یا ہم بھول گئے ہیں؟ یا شاید ہم نے کبھی جانا ہی نہیں کہ ان پر کیا بیتی؟
آج تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا رہی ہے، بس نام بدل گئے ہیں، چہرے بدل گئے ہیں۔ آج کہا جا رہا ہے کہ حماس اپنے ہتھیار رکھ دے تاکہ یہودی انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹ ڈالیں، اور بدقسمتی سے کچھ مسلم حکومتیں بھی اس خونیں منصوبے کی حمایت کر رہی ہیں۔ تاریخ کے یہ قصے بچوں کو سلانے کے لیے نہیں بلکہ مردوں کو جگانے کے لیے سنائے جاتے ہیں۔
اگر بین الاقوامی شراکت دار اور طاقتیں واقعی ’’امن‘‘ چاہتی ہیں تو انہیں صرف ڈیڑھ سیکنڈ کی تصویروں اور پریس کانفرنس کے بعد بھول جانا نہیں چاہیے انہیں غزہ کی مٹی کی جراحت محسوس کرنی ہوگی۔ تبھی یہ ۲۰ نکات انسانیت کے نام ایک نعمت بن سکتے ہیں، ورنہ یہ صرف طاقت کی وہ زبان رہ جائیں گے جس نے پہلے بھی وعدوں کے پردے میں خون بہایا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل نے یہ منصوبہ ہو جائے سکتا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کو سراہتے ہیں لیکن اسرائیل نے نسل کشی نہیں روکی، حماس
مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیا نے مصری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قاہرہ کے شرم الشیخ میں جاری غزہ جنگ بندی مذاکرات میں فلسطینی مذاکراتی ٹیم کے تازہ ترین موقف اور نقطہ نظر کے بارے میں بتایا۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمت حماس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیا کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے جنگ روکنے کے اپنے وعدے توڑ دیے ہیں اور جارحیت کے مکمل خاتمے کے لیے حقیقی ضمانت دی جانی چاہیے۔ حماس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیا نے مصری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قاہرہ کے شرم الشیخ میں جاری غزہ جنگ بندی مذاکرات میں فلسطینی مذاکراتی ٹیم کے تازہ ترین موقف اور نقطہ نظر کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے اشارہ کیا کہ صیہونی حکومت دو سال سے غزہ کے خلاف ایک احمقانہ جنگ لڑ رہی ہے، ہم استحکام، آزاد ریاست اور اپنی قوم کے اہداف اور امنگوں کو لے کر چلتے ہیں، ہم اسلامی اور عرب ممالک کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوششوں کو سراہتے ہیں، ہمارا مقصد جنگ کو ختم کرنا، قیدیوں کا تبادلہ کرنا اور اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہے، انتہائی ذمہ داری کے ساتھ، ہم جنگ روکنے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کرتے ہیں، لیکن قابض حکومت قتل و غارت اور نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے، اس حکومت نے جنگ کو روکنے کے اپنے وعدوں کو توڑ دیا ہے، اور جارحیت کے مکمل خاتمے کی حقیقی ضمانتیں ہونی چاہئیں۔
اس سے قبل حماس تحریک کے ایک ذریعے نے الجزیرہ کو بتایا تھا کہ مصری شہر شرم الشیخ میں ہونے والے اجلاس کے دوسرے روز ثالثوں اور حماس کی مذاکراتی ٹیم کے درمیان مذاکرات ختم ہو گئے تھے۔ حماس کی مذاکراتی ٹیم نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کے انخلاء پر زور دیا ہے۔ حماس کے وفد نے اس بات پر زور دیا کہ آخری اسرائیلی قیدی کی رہائی غزہ سے آخری صہیونی فوج کے انخلاء کے ساتھ ہی ہونی چاہیے۔