Jasarat News:
2025-11-24@13:34:41 GMT

السلام علیکم کی انفرادیت

اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

السلام علیکم کے معنی ہیں تم پر سلامتی ہو۔ ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرتا ہے اور السلام علیکم کہتا ہے تو یہ صرف اظہارِمحبت ہی نہیں دعا بھی ہے۔ دُعا کے معنوں میں یہ ایک بہترین دُعا ہے کہ تم میری طرف سے ہر طرح محفوظ رہو۔ ’السلام‘ ہر طرح کی سلامتی، ظاہری سلامتی بھی اور باطنی سلامتی بھی، یعنی تمھاری زندگی، صحت، جان و مال، اولاد، ایمان اور اخلاق ہر چیز سلامتی میں رہیں، کیوںکہ صرف سلام نہیں السلام ہے۔ ’ال‘ استغراق کے لیے ہے، یعنی مکمل سلامتی۔ پھر دنیا کی نہیں آخرت کی بھی۔ اس اعتبار سے السلام علیکم بہت جامع الفاظ ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اس کے مقابلے میں جو الفاظ رواج پارہے ہیں ان میں ’ہیلو‘ اور ’ہائے‘ جیسے بے معنی اور مبہم الفاظ ہیں۔ اسی طرح دنیا کی دوسری زبانوں میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں، مثلاً چائینز میں ’نی ہائو‘ کیا آپ خیریت سے ہیں۔ یہاں بھی وہی انداز ہے۔ دُعا نہیں سوال کیا گیا ہے۔ ہیبرون میں ’شیلون‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی سلامتی اور دوسرے معنی صحت مند، بُرائی سے محفوظ کے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہودیت بھی ایک الہامی دین ہے اس لیے ان کے ہاں جو لفظ استعمال ہوا وہ سلام کا ہم معنی ہے۔ ہندی میں ’نمستے‘ کہتے ہیں اس کے ایک معنی خوش آمدید کے ہیں، اور دوسرے معنی یہ کہ میرے اندر کا خدا آپ کے اندر کے خدا کی تعظیم کرتا ہے۔ ہیوالین میں ’زے لوہا‘ کو خوش آمدید کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اٹالین میں ’چائون‘ کے معنی بھی ’ہائے‘ کے ہیں۔ اسی طرح افریقین میں ’راکسی‘، جرمن میں ’گنج تحانگ‘، تمھارا دن اچھا گزرے۔ جنوبی افریقہ میں ’ہوایست‘ جو اصل میں ’ہائوازاٹ‘ سب کچھ کیسا ہے؟ کا جواب ہے۔ ’جینیو‘ کچھ گڑبڑ نہیں، اسی طرح ہنگی میں ’جاناپوڈ‘ جس کا معنی ہے گڈ ڈے۔ سائوتھ افریقہ کے بعض دیگر ممالک میں ’انہیبارہ‘ آپ کا کام کیسا ہے۔ ’زولوسائیونا‘ آپ مجھے نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح ’سیلو لیمنازینجو‘ لمبی زندگی پائو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک و مذاہب میں سلام کا جو مترادف ہے وہ اپنے معنی کے اعتبار سے کامل اور جامع نہیں ہے اور اس کی ادایگی خواہ مقامی زبان کی واقفیت کے بعد بہترین تلفظ کے ساتھ بھی کی جائے تو السلام علیکم جیسی مٹھاس اور خوش گواری سے بہت دُور معلوم ہوتی ہے۔

عربوں میں یہ رواج تھا صباح الخیر (اچھی صبح ہو)، صباح النور (روشن صبح ہو)۔ انگریزی الفاظ گڈمارننگ، گڈ ایوننگ کا مفہوم بھی وقتی سلامتی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس میں دعا کا پہلو نہیں بلکہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ تمھاری صبح و شام اچھی ہو لیکن اسلام ’السلام‘ کہنے کی ہدایت کرتا ہے جو صبح و شام تک محدود نہیں مکمل سلامتی کی بات ہے اور اگر وسیع معنوں میں لیا جائے تو آخرت کی سلامتی بھی۔
ایک مسلمان مفکر کا قول ہے: وہ پوچھتے ہیں کہ تم جانتے ہو سلام کس چیز کا نام ہے؟ پھر وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سلام کرنے والا دراصل یہ کہتا ہے کہ تم میری طرف سے بالکل مطمئن رہو، بے خوف رہو، یعنی مجھ سے تمھیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

غور کریں کہ جب ہم کسی سے ملنے جاتے ہیں اور السلام علیکم کہتے ہیں اور پھر اس کو طعنے دینے لگیں، اس کو بُرا بھلا کہیں تو یوں اس کے اور اپنے اعمال کو برباد کرنے لگتے ہیں۔ اگر اس کے ساتھ جھوٹ، دھوکا اور فریب کا معاملہ کرنے لگیں تو ہمارے قول و فعل میں تضاد ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلام ایک ایسی یاد دہانی ہے جو ہمیں احساس دلاتا ہے کہ تم جس سے مل رہے ہو نہ تو اس کو تکلیف دینا مقصود ہے اور نہ اس کی جانب سے تکلیف کا امکان ہی ہے۔ شاید ہم نے سلام کی روح کو نہیں سمجھا اور کبھی شعوری طور پر سلام نہیں کیا۔ صرف ایک روایت کی طرح اظہار کرتے ہیں۔
ہم سب مسلمان ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض علاقوں میں سلام کے بجاے آداب کہنے کا رواج ہے۔ یہ ہی نہیں اس کی ادایگی کے لیے بھی مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ سیدھی ہتھیلی کو کچھ گولائی میں خم دے کر جھک کر آداب کیا جاتا ہے۔ جتنی محترم بزرگ اور عمررسیدہ ہستی کو آداب کرنا ہو اس قدر جھکتے ہیں۔ کہیں آداب عرض کیا جاتا ہے تو اس کے جواب میں جیتے رہو کی دُعا دی جاتی ہے۔ اسی طرح جوڈو کراٹے کی ابتدا میں ایک دوسرے کو جھک کر سلام کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات جلدی میں سام علیکم کہہ دیتے ہیں جس میں ’لام‘ کی ادایگی نہیں ہوتی تو معنی بدل کر موت کے ہوجاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں سلام کرتے ہوئے پائوں چھوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اسے بدتہذیبی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح پگڑی اُتار کر پیروں میں رکھنا، پیروں اور گھٹنوں کو چھونا، زبان سے سلام کرنے کے بعد مصافحہ پھر ہاتھوں کو چومنا بھی لازمی سمجھا جاتا ہے۔

نبی محترمؐ نے فرمایا: اللہ نے جب آدمؑ کو پیدا کیا تو فرمایا: جائو سلام کرو فرشتوں کے ان گروہوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر غور سے سننا جو وہ تم کو کہیں گے۔ وہ تمھارا اور تمھاری اولاد کا سلام ہوگا۔ حضرت آدمؑ نے جاکر کہا: السلام علیکم تو انھوں نے کہا: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔ جواب میں السلام علیکم سے بڑھ کر ورحمۃ اللہ اضافی کہا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تمھیں کوئی سلام کرے تو اُسے اس سے کچھ زائد دعا دو ورنہ اس کے برابر جواب تو ضرور دو۔ روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے بعض باتوں کا حکم دیا۔ بیمار کی مزاج پُرسی کا، جنازے کے پیچھے چلنے کا، یعنی اس میں شریک ہونے کا، چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینے کا، یعنی یرحمک اللہ کہنے کا، کمزور کی مدد کرنے کا، مظلوم کی فریاد رسی کرنے کا، سلام پھیلانے کا اور قسم دلانے والے کی قسم پوری کرنے کا۔ ایک روایت میں نبی کریمؐ نے فرمایا کہ سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔

ڈاکٹر ممتاز عمر گلزار

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: السلام علیکم کیا جاتا ہے ہے کہ تم کرتا ہے ہے اور

پڑھیں:

کیا پاکستان عظیم مملکت ہے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251123-09-5
قائداعظم نے کہا تھا کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ جب صحافت عروج کی طرف جاتی ہے تو قوم بھی عروج کی طرف جاتی ہے اور جب صحافت زوال آمادہ ہوجاتی ہے تو قوم بھی زوال آمادہ ہوجاتی ہے۔ 1930ء اور 1940ء کی دہائی میں برصغیر کی مسلم صحافت زندہ و بیدار تھی۔ چنانچہ اس زمانے میں برصغیر کی ملت اسلامیہ بھی زندہ و بیدار تھی۔ وہ انگریزوں کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی تھی اور ہندوئوں کو للکار رہی تھی۔ مگر 1958ء کے بعد پاکستانی صحافت جرنیلوں اور ان کے پالتو سیاست دانوں کا آلہ ٔ کار بن گئی۔ اس کا ایک ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ 1971ء میں جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا اور پاکستان کے جرنیل پاکستان بنانے والے بنگالیوں کو کچل رہے تھے تو ملک کے ممتاز صحافی الطاف حسن قریشی اردو ڈائجسٹ کے اداریے میں فرما رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے لیے محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔ جھوٹ کی دو اقسام ہیں جھوٹ اور حد سے بڑھا ہوا مبالغہ۔ جھوٹ کی مثال تو الطاف حسن قریشی ہیں۔ حد سے بڑھے ہوئے مبالغے کی مثال محمود شام ہیں۔ ان کے حد سے بڑھے ہوئے مبالغے کا ثبوت ان کا ایک حالیہ کالم ہے جس میں انہوں نے بچے کھچے اور جرنیلوں کے بوٹوں سے روندے ہوئے پاکستان کو ’’عظیم مملکت‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔

’’کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی تا کہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا، حالانکہ وہ ان سے کہیں زیادہ طاقتور اور زمین میں نشانات بنانے کے اعتبار سے بہت بڑھ کر تھے تو جو کچھ وہ کرتے تھے وہ ان کے کچھ کام نہ آیا۔ (مضامین قرآن حکیم۔ مرتبہ زاہد ملک۔ صفحہ 627۔ سورۃ المومن آیت 82)

تاریخ برہم ہے۔ جغرافیہ دانتوں میں زبان دبائے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسائے ہوئے ہے۔ ہم شروع سے یہ تجزیہ کرتے آئے ہیں کہ قائداعظم صرف ایک سال زندہ رہے۔ اس لیے پاکستان مستحکم نہیں ہوسکا۔ بہت سی مشکلات سر اُٹھاتی رہیں۔ ان کے دست راست قائد ملت لیاقت علی خان بھی تین سال بعد قتل کردیے گئے۔ اس لیے حالات بہتر نہ ہوسکے۔ ہم شخصیات پر اعتبار کرتے ہیں۔ فراموش کردیتے ہیں کہ شخصیات تو سب فانی ہیں، آنی جانی ہیں۔ ہر ایک کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کوئی بھی آخری امید نہیں ہوسکتی۔ نہ جانے کتنی آخری امیدیں منوں مٹی تلے دبی ابدی نیند سورہی ہیں۔ پھر بھی یہ عظیم مملکت چل رہی ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 13 نومبر 2025ء)

اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ قیام پاکستان سے بھی بہت پہلے پاکستان ایک ’’عظیم مملکت‘‘ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس پر اللہ کا سایہ تھا۔ انسانی تاریخ میں صرف دو ریاستیں اسلام کے نام پر وجود میں آئی تھیں۔ ایک ریاست مدینہ اور دوسری پاکستان۔ چنانچہ پاکستان جب صرف ایک تصور تھا تو بھی اس پر خدائے ذوالجلال کا سایہ تھا۔ پاکستان تو 1947ء میں تخلیق ہوا مگر اقبال سے بھی بہت پہلے اللہ تعالیٰ پاکستان کا خیال ممتاز ناول نگار عبدالحلیم شرر کے قلب پر القا کرچکا تھا۔ یہ 1890ء کی بات ہے جب عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ’’دلگداز‘‘ میں برصغیر کے اندر ایک علٰیحدہ اسلامی ریاست کا خیال پیش کیا۔ یہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد سے 40 سال پہلے کی بات ہے۔ مگر عبدالحلیم شرر کا یہ خیال لوگوں کی توجہ حاصل نہ کرسکا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کا خیال 1917ء میں یوپی کے خیری برادران کے قلب پر القا کیا اور انہوں نے برصغیر میں ایک الگ اسلامی ریاست کا خیال پیش کیا۔ لیکن اس مرتبہ بھی یہ خیال عوامی تخّیل یا Public Imagination کا حصہ نہ بن سکا۔ یہاں تک کہ 1930ء آگیا اور اقبال نے یوپی کے شہر الٰہ آباد میں جا کر اپنے خطبہ الٰہ آباد میں برصغیر کے اندر ایک الگ اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا۔ اب قیام پاکستان کا وقت چونکہ قریب آچکا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ اقبال کے تصور کو عوام کے تخیّل کا حصہ بنادیا بلکہ اس تصور نے خود ’’قوم پرست‘‘ اقبال کو ’’اسلام پرست‘‘ اقبال میں ڈھال دیا۔ دوسری طرف اس تصور نے ایک قومی نظریے کے علمبردار ’’محمد علی جناح‘‘ کو ’’دوقومی نظریے کا ترجمان‘‘ بنا کر ’’قائداعظم‘‘ میں ڈھال دیا۔ چنانچہ پاکستان کا نظریہ بھی عظیم تھا۔ پاکستان کا تصور بھی عظیم تھا۔ پاکستان کا قائد بھی عظیم تھا۔ قیام پاکستان کی جدوجہد بھی عظیم تھی۔ یہاں تک پاکستان کے عظیم مملکت ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں۔

20 ویں صدی میں نظریے کی طاقت بے پناہ تھی۔ ایک طرف نظریے نے پاکستان کے نام دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کی۔ دوسری طرف اس سے پہلے سوشلزم کے نظریے نے روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا۔ تیسری جانب اسی نظریے نے چین کو بھی سوشلسٹ انقلاب سے ہمکنار کیا۔ روسی انقلاب صرف روس تک محدود نہ رہا اس نے دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس انقلاب نے پوری زندگی کو بدل ڈالا۔ روس اور چین میں کوئی بیروزگار نہ رہا۔ کوئی بے گھر نہ رہا۔ اس نظریے نے روس چین کے پورے معاشرے کو مفت تعلیم فراہم کی۔ مفت علاج کی سہولتیں مہیا کیں۔ روس کے انقلاب نے روس کو سوویت یونین میں ڈھال کر دنیا کی دوسری سپر پاور بنادیا۔ اسی طرح چینی انقلاب نے آج چین کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی صورت دے دی ہے۔

پاکستان کا نظریہ روس اور چین کے نظریے سے ایک کروڑ گنا بڑا تھا اور یہ نظریہ پاکستان کو ایک عظیم مملکت بنا سکتا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پالتو سیاست دانوں نے ملک کے بنیادی نظریے سے غداری کی اور اس نظریے کو ریاست اور معاشرے پر حاکم نہ بنے دیا۔ اس کے برعکس جنرل ایوب نے پاکستان پر سیکولر ازم تھوپ دیا۔ انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن سے سود کو ’’حلال‘‘ قرار دلوا دیا۔ انہوں نے معاشرے پر ایسے عائلی قوانین مسلط کردیے جو اسلام کی ضد تھے۔ انہوں نے اس تصور ہی کو پنپنے نہ دیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کی ایجاد تھے۔ وہ سیاست میں آئے تو انہوں نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ تخلیق کر ڈالا۔ حالانکہ اسلام اور سوشلزم میں کوئی قدر مشترک نہیں تھی۔ اسلام سوشلزم کی اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا۔ جنرل پرویز مشرف لبرل تھے انہوں نے پاکستان کو لبرل بنانے کی کوشش کی۔ جنرل ضیا الحق کا اسلام صرف سیاسی فائدے کے لیے تھا اور اس نے معاشرے کے باطن پر رّتی برابر بھی اثر نہ ڈالا۔ میاں نواز شریف اور ان کے خانوادے کا نظریہ اسلام تو کیا سیکولر ازم بھی نہیں ہے۔ یہ پورا خاندان ’’پنجابیت‘‘ میں ڈوبا ہوا ہے۔ میاں نواز شریف نے اسلامی جمہوریہ اتحاد کے زمانے میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا۔ آج مریم نواز خود کو ’’اسلام کی بیٹی‘‘ یا ’’پاکستان کی بیٹی‘‘ کے بجائے ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ کہلانا پسند کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی بھٹو کے زمانے سے آج تک کبھی ’’سندھیت‘‘ سے بلند نہیں ہوسکی۔ چنانچہ نظریۂ پاکستان ملک و قوم کے لیے کوئی ’’تخلیقی قوت‘‘ یا قوم کے اتحاد و یگانگت کا آلہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی مملکت کو عظیم کہا جاسکتا ہے جو اپنے نظریے ہی سے بیگانہ ہوگئی ہو؟

قائداعظم نے وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت سے لڑ کر پاکستان بنایا تھا۔ چنانچہ پاکستانی قوم کو ایک ’’آزاد قوم‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ مگر جرنیلوں اور ان کے آلہ ٔ کار سیاست دانوں نے 1958ء سے آج تک پاکستان کو امریکا کا غلام بنایا ہوا ہے۔ جنرل ایوب نے پاکستان کو سیٹو اور سینٹو کا حصہ بنایا۔ انہوں نے امریکا کو ’’بڈھ بیر‘‘ میں ایسا ہوائی اڈا فراہم کیا جہاں سے امریکا سوویت یونین کی نگرانی کرتا تھا۔ جنرل ایوب نے پاکستان کی معیشت کو عالمی بینک کی غلامی میں دینے کے عمل کا آغاز کیا۔ جنرل پرویز نے نائن الیون کے بعد پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ آج بھی پاکستان امریکی Dictation پر چل رہا ہے۔ ہماری معیشت 130 ارب ڈالر سے زیادہ قرضوں کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ کیا ایسے ملک اور ایسی معیشت کو آزاد قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پاکستان کو ’’عظیم مملکت‘‘ کیونکر کہا جاسکتا ہے؟

یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ چین نے 40 برسوں میں 80 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ہے۔ بھارت نے 40 سال میں 25 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ہے اور روس نے 30 کروڑ کی نئی مڈل کلاس پیدا کی ہے۔ مگر پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے قوم کا یہ حال کیا ہوا ہے کہ 10 کروڑ افراد خط ِ غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ مڈل کلاس پھیلنے کے بجائے سکڑ رہی ہے۔ آبادی کے 80 فی صد افراد کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں۔ معاشرے کے 80 فی صد لوگ بیمار پڑتے ہیں تو انہیں کوئی ماہر ڈاکٹر فراہم نہیں ہوپاتا۔ 40 فی صد آبادی ناخواندہ ہے، پونے تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی مملکت کو ’’عظیم‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟

ہمارے زمانے میں جمہوریت کو معاشرے کی ’’صحت‘‘ کا بیرومیٹر کہا جاتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں جمہوری سیاسی جماعتیں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا کوئی بھی ’’جمہوری پارٹی‘‘ موجود نہیں۔ آزاد معاشروں میں آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں، مگر پاکستان میں کوئی انتخاب بھی آزادانہ نہیں ہوا۔ 2024ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تھی مگر جرنیلوں نے فارم 47 کے ذریعے پی ٹی آئی کو ہرا دیا اور نواز لیگ اور ایم کیو ایم کو جتا دیا۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کامیاب ہوگئی تھی مگر اسٹیبلشمنٹ نے جماعت اسلامی کو ہرا کر کراچی پر پیپلز پارٹی کا میئر مسلط کردیا۔ صحافت کی آزادی کا یہ حال ہے کہ جنرل عاصم منیر کے خلاف کہیں ایک تنقیدی جملہ نہ شائع ہوسکتا ہے نہ نشر ہوسکتا ہے۔ محمود شام اس کے باوجود فرما رہے ہیں کہ پاکستان عظیم مملکت ہے؟۔

شاہنواز فاروقی سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • ملک میں عدلیہ کی آزادی، شہری حقوق اور عوام کی سلامتی خطرے میں ہے، ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان
  • ملک میں عدلیہ کی آزادی، شہری حقوق اور عوام کی سلامتی خطرے میں ہے: ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان
  • پاکستان کی بھارتی وزیرِ دفاع کے سندھ سے متعلق اشتعال انگیز بیان پر شدید مذمت
  • سعودی عرب اور پاکستان کے لئے طاقت، علاقائی نظم اور سلامتی کے سوال پر ایک بنیادی نکتہ
  • کیا پاکستان عظیم مملکت ہے؟
  • فلسطین دشمنی پر مبنی سلامتی کونسل کی قرارداد
  • تہران، ایام فاطمیہؑ کی دوسری شبِ عزاداری رہبرِ انقلاب کی حاضری
  • خوارج کے خلاف مربوط کارروائیاں قومی سلامتی کو مزید مضبوط بنا رہی ہیں؛ صدرِ مملکت
  • پاکستان کا عالمی فورم پر بحری سلامتی اور کنیکٹیویٹی کے تحفظ کا عزم
  • عاصم افتخاراحمد کا جنرل اسمبلی مباحثے میں عالمی ادارے میں طاقت کےعدم توازن پرگہری تشویش کااظہار