Jasarat News:
2025-10-10@02:34:07 GMT

السلام علیکم کی انفرادیت

اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

السلام علیکم کے معنی ہیں تم پر سلامتی ہو۔ ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرتا ہے اور السلام علیکم کہتا ہے تو یہ صرف اظہارِمحبت ہی نہیں دعا بھی ہے۔ دُعا کے معنوں میں یہ ایک بہترین دُعا ہے کہ تم میری طرف سے ہر طرح محفوظ رہو۔ ’السلام‘ ہر طرح کی سلامتی، ظاہری سلامتی بھی اور باطنی سلامتی بھی، یعنی تمھاری زندگی، صحت، جان و مال، اولاد، ایمان اور اخلاق ہر چیز سلامتی میں رہیں، کیوںکہ صرف سلام نہیں السلام ہے۔ ’ال‘ استغراق کے لیے ہے، یعنی مکمل سلامتی۔ پھر دنیا کی نہیں آخرت کی بھی۔ اس اعتبار سے السلام علیکم بہت جامع الفاظ ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اس کے مقابلے میں جو الفاظ رواج پارہے ہیں ان میں ’ہیلو‘ اور ’ہائے‘ جیسے بے معنی اور مبہم الفاظ ہیں۔ اسی طرح دنیا کی دوسری زبانوں میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں، مثلاً چائینز میں ’نی ہائو‘ کیا آپ خیریت سے ہیں۔ یہاں بھی وہی انداز ہے۔ دُعا نہیں سوال کیا گیا ہے۔ ہیبرون میں ’شیلون‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی سلامتی اور دوسرے معنی صحت مند، بُرائی سے محفوظ کے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہودیت بھی ایک الہامی دین ہے اس لیے ان کے ہاں جو لفظ استعمال ہوا وہ سلام کا ہم معنی ہے۔ ہندی میں ’نمستے‘ کہتے ہیں اس کے ایک معنی خوش آمدید کے ہیں، اور دوسرے معنی یہ کہ میرے اندر کا خدا آپ کے اندر کے خدا کی تعظیم کرتا ہے۔ ہیوالین میں ’زے لوہا‘ کو خوش آمدید کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اٹالین میں ’چائون‘ کے معنی بھی ’ہائے‘ کے ہیں۔ اسی طرح افریقین میں ’راکسی‘، جرمن میں ’گنج تحانگ‘، تمھارا دن اچھا گزرے۔ جنوبی افریقہ میں ’ہوایست‘ جو اصل میں ’ہائوازاٹ‘ سب کچھ کیسا ہے؟ کا جواب ہے۔ ’جینیو‘ کچھ گڑبڑ نہیں، اسی طرح ہنگی میں ’جاناپوڈ‘ جس کا معنی ہے گڈ ڈے۔ سائوتھ افریقہ کے بعض دیگر ممالک میں ’انہیبارہ‘ آپ کا کام کیسا ہے۔ ’زولوسائیونا‘ آپ مجھے نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح ’سیلو لیمنازینجو‘ لمبی زندگی پائو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک و مذاہب میں سلام کا جو مترادف ہے وہ اپنے معنی کے اعتبار سے کامل اور جامع نہیں ہے اور اس کی ادایگی خواہ مقامی زبان کی واقفیت کے بعد بہترین تلفظ کے ساتھ بھی کی جائے تو السلام علیکم جیسی مٹھاس اور خوش گواری سے بہت دُور معلوم ہوتی ہے۔

عربوں میں یہ رواج تھا صباح الخیر (اچھی صبح ہو)، صباح النور (روشن صبح ہو)۔ انگریزی الفاظ گڈمارننگ، گڈ ایوننگ کا مفہوم بھی وقتی سلامتی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس میں دعا کا پہلو نہیں بلکہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ تمھاری صبح و شام اچھی ہو لیکن اسلام ’السلام‘ کہنے کی ہدایت کرتا ہے جو صبح و شام تک محدود نہیں مکمل سلامتی کی بات ہے اور اگر وسیع معنوں میں لیا جائے تو آخرت کی سلامتی بھی۔
ایک مسلمان مفکر کا قول ہے: وہ پوچھتے ہیں کہ تم جانتے ہو سلام کس چیز کا نام ہے؟ پھر وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سلام کرنے والا دراصل یہ کہتا ہے کہ تم میری طرف سے بالکل مطمئن رہو، بے خوف رہو، یعنی مجھ سے تمھیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

غور کریں کہ جب ہم کسی سے ملنے جاتے ہیں اور السلام علیکم کہتے ہیں اور پھر اس کو طعنے دینے لگیں، اس کو بُرا بھلا کہیں تو یوں اس کے اور اپنے اعمال کو برباد کرنے لگتے ہیں۔ اگر اس کے ساتھ جھوٹ، دھوکا اور فریب کا معاملہ کرنے لگیں تو ہمارے قول و فعل میں تضاد ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلام ایک ایسی یاد دہانی ہے جو ہمیں احساس دلاتا ہے کہ تم جس سے مل رہے ہو نہ تو اس کو تکلیف دینا مقصود ہے اور نہ اس کی جانب سے تکلیف کا امکان ہی ہے۔ شاید ہم نے سلام کی روح کو نہیں سمجھا اور کبھی شعوری طور پر سلام نہیں کیا۔ صرف ایک روایت کی طرح اظہار کرتے ہیں۔
ہم سب مسلمان ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض علاقوں میں سلام کے بجاے آداب کہنے کا رواج ہے۔ یہ ہی نہیں اس کی ادایگی کے لیے بھی مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ سیدھی ہتھیلی کو کچھ گولائی میں خم دے کر جھک کر آداب کیا جاتا ہے۔ جتنی محترم بزرگ اور عمررسیدہ ہستی کو آداب کرنا ہو اس قدر جھکتے ہیں۔ کہیں آداب عرض کیا جاتا ہے تو اس کے جواب میں جیتے رہو کی دُعا دی جاتی ہے۔ اسی طرح جوڈو کراٹے کی ابتدا میں ایک دوسرے کو جھک کر سلام کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات جلدی میں سام علیکم کہہ دیتے ہیں جس میں ’لام‘ کی ادایگی نہیں ہوتی تو معنی بدل کر موت کے ہوجاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں سلام کرتے ہوئے پائوں چھوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اسے بدتہذیبی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح پگڑی اُتار کر پیروں میں رکھنا، پیروں اور گھٹنوں کو چھونا، زبان سے سلام کرنے کے بعد مصافحہ پھر ہاتھوں کو چومنا بھی لازمی سمجھا جاتا ہے۔

نبی محترمؐ نے فرمایا: اللہ نے جب آدمؑ کو پیدا کیا تو فرمایا: جائو سلام کرو فرشتوں کے ان گروہوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر غور سے سننا جو وہ تم کو کہیں گے۔ وہ تمھارا اور تمھاری اولاد کا سلام ہوگا۔ حضرت آدمؑ نے جاکر کہا: السلام علیکم تو انھوں نے کہا: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔ جواب میں السلام علیکم سے بڑھ کر ورحمۃ اللہ اضافی کہا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تمھیں کوئی سلام کرے تو اُسے اس سے کچھ زائد دعا دو ورنہ اس کے برابر جواب تو ضرور دو۔ روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے بعض باتوں کا حکم دیا۔ بیمار کی مزاج پُرسی کا، جنازے کے پیچھے چلنے کا، یعنی اس میں شریک ہونے کا، چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینے کا، یعنی یرحمک اللہ کہنے کا، کمزور کی مدد کرنے کا، مظلوم کی فریاد رسی کرنے کا، سلام پھیلانے کا اور قسم دلانے والے کی قسم پوری کرنے کا۔ ایک روایت میں نبی کریمؐ نے فرمایا کہ سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔

ڈاکٹر ممتاز عمر گلزار

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: السلام علیکم کیا جاتا ہے ہے کہ تم کرتا ہے ہے اور

پڑھیں:

’جاوید نامہ‘

یہ نوے کی دہائی کے لگ بھگ وسط کی بات ہے، جب جاوید قریشی صاحب پنجاب کے چیف سیکریٹری تھے۔ میں ان دنوں فین روڈ لاہور پر ایک لاء چیمبر سے وابستہ تھا اور صحافتی تجربات بھلانے کی سعی ِ لا حاصل کر رہا تھا۔ ایک روز چیمبر سے نکلا تو ایک سینئر صحافی، جن کے ان سے دیرینہ مراسم تھے، آتے دکھائی دیے۔ قریب پہنچے تو بتایا کہ کل چیف سیکریٹری کے ساتھ میٹنگ ہے، جس میں انھوں نے آپ کو بھی مدعو کیا ہے۔

میں حیران ہوا ، کیونکہ میری ان سے شناسائی نہ تھی۔ بہرحال، دوسرے روز ہم مقررہ وقت پر جی او آر ان کے دفتر پہنچ گئے۔ یہ جاوید قریشی کے سرکاری کیریئر کے عروج کا دور تھا۔ گرمیوں میں بھی سفاری سوٹ میں تھے، سر کے بال کنپٹیوں کے قریب بالکل سفید، جن کی ایک لٹ سر کے درمیانی حصہ، جو بالوں سے خالی ہو چکا تھا، پر پیچھے کی اور خوب جمی ہوئی، چہرہ کھنچا ہوا اور ہونٹ اس طرح بھینچے ہوئے، جیسے منہ میں دونوں طرف روئی دبا رکھی ہو، یا ڈینٹسٹ ڈاڑھ نکالنے کے بعد منہ میں روئی ٹھونس دیتے ہیں، اجلا گندمی رنگ ، ڈیل ڈول کے لحاظ سے مضبوط اور چوکس۔ ان سے ملتے ہی، مگر جو پہلی چیز اپنی طرف کھنچتی تھی، وہ ان کی بڑی بڑی ، گہری جھیل جیسی آنکھیں تھیں، جو بطور چیف سیکریٹری ان کی انتظامی ہیبت کو غیر محسوس انداز میں، جس کا شاید ان کو بھی پوری طرح ادراک نہیں تھا، کم کر رہی، بلکہ نرمی، محبت اور ملائمت میں بدل رہی ہوتی تھیں۔

میٹنگ شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی یادداشتوں کی ترتیب وتدوین کے خواہش مند ہیں، جو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد شایع ہوں گی ، اوراس کے لیے اس سینئر صحافی نے، جو میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے، میرا نام تجویز کیا ہے۔

جاوید قریشی پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے گریجوایٹ تھے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ میں نے بھی وہیں سے ایل ایل بی کیا ہے، تو مسکرائے اور خوش ہو کے کہا ، پھر تو ہم آپ’ کالج فیلو‘ بھی ہوئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سینئر صحافی اور ان کے درمیان کیا طے پایا تھا، مگر جب میں نے کہا ، ’تو میں اپنے ’سینئر کالج فیلو‘ سے اس کام کو کوئی معاوضہ قبول نہیں کروں گا‘، تو مجھے یاد ہے جاوید قریشی صاحب چند لمحوں تک خاموش رہے، اور ٹک میری طرف دیکھتے رہے اور پھر بڑی شفقت یوں گویا ہوئے ،’ پھر میری بھی ایک شرط ہے۔

 اس کام کے دوران آپ میرے مہمان ہوں گا، اورآج ہی جی او آر شفٹ ہو جائیں گے۔ قصہ مختصر، اسی روز میں جی اوآر منتقل ہو گیا۔ مگر، یہ وہ دورہے، جب پنجاب اور وفاق کے درمیان شدید کشمکش چل رہی تھی، اوربحیثیت چیف سیکریٹری، ان کی مشکلات اور مصروفیات غیر معمولی حد تک بڑھ چکی تھی۔ چنانچہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی ان کو یادداشتیں ریکارڈ کرانے کی فرصت میسر آتی تھی۔ ان کے ساتھ ان ملاقاتوں کی خوشگوار یادیں اس وقت میرے ذہن پر ہجوم کر رہی ہیں، مگر وہ اس مختصرکالم میں سما نہیں سکتی ہیں۔

معلوم ہوا کہ قیام پاکستان سے قبل ان کا خاندان ہریانہ (بھارت) میں آباد تھا ۔ البتہ ان کے والد اقبال قریشی، جو ریلوے میں معمولی ملازم تھے، نئی دہلی ریلوے کوارٹرز میں رہتے تھے۔ یہ بڑے سخت دن تھا۔ مگر وہ اپنا پیٹ کاٹ کے بچوں کو پڑھا رہے تھے ۔ جاوید قریشی پانچ بھائی بہنوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ گاؤں سے پرائمری کے بعد نئی دہلی میونسپل کارپوریشن اسکول میں آگئے۔ وہ ساتویں جماعت میں تھے، جب 47ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے لاہور آیا۔ یہاں ابتدائی طور پر گوالمنڈی میں ٹھیرے، اس کے بعد پاکپتن اور پھر حسن ابدال، جہاں ان کے والد کی نئی تعیناتی ہوئی تھی۔

والد کا تبادلہ سرگودھا ہوا، تو انھوں نے بچوں کو سرگودھا کے بجائے لاہور سینٹرل ماڈل اسکول میں داخل کرا دیا تاکہ فیملی لاہورمیں ہی رہے۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ ہو گیا۔مگر، ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے جاوید قریشی اکثر آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے،’’ اصغر، تم یقین نہیں کرو گے، لیکن میں روزانہ ایک ہی پینٹ بشرٹ پہن کے کالج جایا کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر ایک روز میری خالہ زاد بہن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، تو میں نے کہا، دیکھو، دکھی مت ہو، ایک وقت آئے گا، میرے پاس اتنے سوٹ ہوں گے کہ ہر روز نیا سوٹ پہنا کروں گا، اور پھر وقت آیا بھی کہ دل میں کوئی حسرت نہیں رہی‘‘۔ بی اے کے بعد وہ فلسفہ یا اکنامکس میں ایم اے کرنا چاہتے تھے، مگر والد نے کہا کہ ایم اے نہیں، ایل ایل بی کرنا ہے۔ سر تسلیم خم کیا اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں داخلہ لے لیا۔لاء کے بعد بطور جونیئر، ایک سینئر وکیل کے ساتھ کام بھی کیا۔

اس دوران بینک میں ملازمت مل گئی ۔ پھر سوچا، مقابلے کے امتحان کا معرکہ بہرصورت سر کرنا ہوگا۔ وہ ان دنوں ملتان روڈ لاہور پر رہتے تھے۔ دو مرتبہ مطلوبہ نمبر حاصل نہ ہوئے، مگر ہمت نہیں ہاری۔ تیسری مرتبہ تحریری امتحان میں تیسرے نمبر پر تھے۔ مگر، انٹرویو میں تین سو میں سے صرف سو نمبر آئے، بعد میں معلوم ہوا کہ فیڈرل بورڈ کے کچھ ارکان پہلے سے ذہن بنا کے بیٹھے تھے کہ اتنے معمولی پس منظرکا حامل امیدوار کیسے اتنے اچھے نمبر لے کر آ گیا ہے۔

بطور اسٹنٹ کمشنر پہلی تعیناتی فیصل آباد ہوئی، جو اس وقت لائل پورکہلاتا تھا۔ 1965ء کی جنگ شروع ہوئی، تو ان کو سرگردھا میں ’او ایس ڈی وار‘ کی ذمے داری سونپ دی گئی۔ قبل ازیں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں، جہاں صدارتی انتخاب بطور کمشنر ان کی نگرانی میں ہوا تھا، جنرل ایوب، محترمہ فاطمہ جناح پر واضح برتری حاصل نہ کر سکے ۔ بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک میں ان کی ہمدردیاں اپوزیشن کے ساتھ تھیں، بلکہ آخری دنوں میں ان کی نظم ’جینا اگر یہی ہے تو مر جانا چاہیے‘ ایک ہفت روزہ میں اداریہ کی جگہ پر شایع ہوئی۔ بھٹو کے ازسرنو انتخابات کرانے کے اعلان پر ان کا تبصرہ تھا، ’ کتنے لعل لہو میں تڑپے، کتنے گھر بے نور ہوئے، تب کہیں جا کر تنے ہوئے سر، جھکنے پر مجبور ہوئے‘۔

بعینہ، وہ جنرل ضیاء، بے نظیر اور نوازشریف کی سیاست اور حکومت سے بھی مطمئن نہ تھے ۔ بطور چیف سیکریٹری ان کا تقرر ہوا، تو بعض لوگوں نے اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی، حالانکہ اس وقت پنجاب میں وہی سینئر ترین افسر تھے۔ یہ الگ بات ہے ، جیسے ہی پنجاب میں منظور وٹو کی حکومت ختم ہوئی، ان کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا، جس میں بظاہرکوئی انتظامی مصلحت کار فرما نہ تھی۔ میں اس روز جی او آر آفیسرز میس میں ان کی آمدکا منتظر تھا کہ ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کی اطلاع موصول ہوئی۔ میں نے تصدیق کے لیے فون کیا، توکہا، ہاں ایسا ہی ہے۔ چند روز بعد وہ سینئر صحافی، جنھوں نے مجھے ان سے ملوایا تھا، بڑی عجلت میں آئے اور ان کی ریکارڈنگ اور مسودہ ساتھ لے گئے ۔ یہ ’’جاوید نامہ‘‘ اشاعت پذیر نہ ہو سکا، یہ بھی ایک دل چسپ کہانی ہے، جو پھر کبھی سہی۔

جاوید قریشی صاحب نے آخری عمر میں کالم نگاری بھی کی، مگر یہ ان کا میدان نہیں تھا۔ موسیقی سے البتہ ان کو جوگہر الگاؤ تھا، وہ تال میل ان کی شاعری میں بھی موجودہے۔ ان کی غزلیں ’’آشیانے کی بات کرتے ہو‘‘ اور ’’شمار لمحوں کا صدیوں میں کر رہا ہوں‘‘ نورجہاں، فریدہ خانم، جگجیت سنگھ اور مہدی حسن نے اس قدر ڈوب کے گائی ہیں کہ فنکاروں پر ان کے تمام احسانات چکا دیے ہیں۔

چند روز پہلے یوٹیوب پر جاوید قریشی صاحب کی قبر اور اس پرکتبہ کی فوٹیج دیکھی، تو جی بہت اداس ہوا، اور ایکا ایکی برسوں پہلے کی ان کی شان و شوکت اور جی او آرکی وہ سہانی شام آنکھوں کے سامنے پھر گئی، ان کے کمرے میں میز پر چائے سجی تھی، وہ بیتے دنوں کو آواز دے رہے تھے، اور اپنی یہ غزل گنگنا رہے تھے،’’اس طرف سے ذرا گزر جاؤ، خشک پتوں میں رنگ بھر جاؤ‘‘۔ ایک لمحہ کے لیے بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ یہ خوب صورت شام بھی وقت کے دائمی بہاو میں بہہ رہی ہے، ’چار پہر دن گزر چکا ہے، چار پہر رات گزر جائے گی، ہر پہر میں آٹھ گھڑیاں ہیں، ہر آٹھویں گھڑی پرگجر بجتا ہے، انسانوں کا جلوس اپنی اپنی قبروں میں اتر رہا ہے، وقت موت ہے‘ بقول خواجہ شیراز ؎

حافظؔ شکایت از غم ہجراں چہ میکنی

در ہجر وصل باشد و در ظلمت است نور

متعلقہ مضامین

  • سیرت امام حسن العسکری کی روشنی میں عملی کردار
  • سلامتی کونسل: پیچیدہ تنازعات افریقہ کی ترقی میں رکاوٹ، یو این نمائندہ
  • کپاس کا عالمی دن: کسانوں کی جہدوجہد کو سلام پیش کرنے کا موقع، ایف اے او
  • بھارت کی کسی بھی جارحیت کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، کور کمانڈرز کانفرنس میں دوٹوک پیغام
  • اورکزئی آپریشن میں 19 دہشت گرووں کی ہلاکت پر پاک فوج کے جوانوں کو سلام، یہ شجاعت کی نئی مثال ہے، وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی
  • دہشت گردی کے خلاف شجاعت کی نئی مثال اورکزئی آپریشن پر پاک فوج کے جوانوں کو قوم سلام پیش کرتے ہیں ، رانا مشہود احمد خاں
  • اورکزئی آپریشن میں 19 دہشتگرووں کی ہلاکت پر پاک فوج کے جوانوں کو سلام، یہ شجاعت کی نئی مثال ہے، وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی
  • بیت اللہ سے
  • ’جاوید نامہ‘