ہتھیار ڈالنے والے دہشت گرد سرفراز بنگلزئی نے انکشاف کیا ہے کہ دشمن ممالک کی ایجنسیاں   بی ایل اے کو فنڈنگ دے کر مضبوط کررہی ہیں۔

سرفراز بنگلزئی نے کہا کہ کالعدم تنظیمیں خونریزی جیسے واقعات کو خود انجام دے کر پھر ان کی ذمے داری ریاست پر ڈال دیتی ہیں تاکہ عوام میں ریاست کے خلاف نفرت اور ان کے لیے ہمدردیاں پیدا ہو ں۔ کئی مواقع اور متعدد علاقوں میں وہ کارروائیاں حقیقت میں انہی تنظیموں نے خود کی ہیں، جن کے بعد ان واقعات کا جھوٹا بیانیہ چلایا جاتا ہے تاکہ عوامی جذبات کو ان کے حق میں موڑا جا سکے۔

یہ خبر بھی پڑھیں: یونیورسٹی پروفیسر بی ایل اے  کا سہولت کار نکلا؛ اعترافی بیان منظر عام پر

سرفراز بنگلزئی نے مزید کہا کہ بی ایل اے جیسی تنظیموں کو بیرون ملک سے فنڈنگ ملتی ہے اور وہاں مقیم رہنما دوسرے ممالک سے روابط کے ذریعے وسائل فراہم کرواتے ہیں، جس سے ان گروپوں کی کارروائیوں کی سرپرستی ممکن ہوتی ہے۔

ہتھیار ڈالنے ولاے دہشت گرد کا کہنا تھا کہ بیرون ملک موجود عناصر اپنے لیے سازگار تاثر قائم کرنے کے لیے مقامی واقعات کو ہوا دے کر پروپیگنڈا تیار کرتے ہیں۔

سرفرز بنگلزئی کے مطابق بعض ملک دشمن ایجنسیاں بھی ان دہشت گرد عناصر کو مدد فراہم کرتی ہیں جب کہ گروہوں کے سرغنہ نوجوانوں کی ذہن سازی کر کے انہیں منظم طریقے سے ملوث کرتے ہیں۔ یہ جھوٹے بیانیے اور غیر حقیقی باتوں کے لیے عوامی جذبات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ان تنظیموں کو فائدے پہنچاتے ہیں۔

سرفراز بنگلزئی کا کہنا تھا کہ کالعدم عناصر مخصوص واقعات کا غلط بیانیہ بنا کر ریاست کی بدنامی کی کوشش کرتے ہیں جب کہ حقیقت اکثر مختلف ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ شواہد اسی حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں۔

سرفراز بنگلزئی کے مطابق اگر حقیقت کو دیکھا جائے تو ان تنظیموں کی کارروائیاں اور ان کے بعد چلائے جانے والے بیانیے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں اور اس کے پیچھے نہ صرف مقامی عناصر بلکہ بیرونِ ملک معاونت کار بھی موجود ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرفراز بنگلزئی بی ایل اے کرتے ہیں کے لیے

پڑھیں:

ٹوپیوں کے زہر کا تریاق۔۔۔

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251008-03-5

 

نعمان برنی

القدس سے پہلے حرمین کی آزادی… اور امت کے تصور کا احیاء… یہی عالم ِ اسلام کا اصل قضیہ ہے! باقی سب معاہدے، اعلامیے، بیانیے… محض اس جمود کو برقرار رکھنے کے ہتھکنڈے ہیں، جہاں مسلم معاشروں پر قابض آمرانہ حکومتیں عوام کی خواہشات اور عالم ِ اسلام کے مفادات کو روندتے ہوئے اپنی حکمرانی کو طول دینے کے اقدامات کرتی ہیں۔ ایسا کوئی ہتھکنڈا آپ کو شہر ِ عزیمت کے شہید ترجمان کے یہ جملے بھلا دینے پر مجبور نہ کر دے جو اس نے امت کے ہر فرد کو گواہ بناتے ہوئے تاریخ کے ماتھے پر تا قیامت ثبت کر دیے ہیں: ’’اے امت ِ مسلمہ اور عرب دنیا کے پیشواؤ! اور اے علم و دانش کے تاجدارو، سیاسی قافلوں کے نگہبانو، اور منبر و محراب کے پاسبانو! تم سب اللہ کے حضور ہمارے مد ِ مقابل ہو۔ تم ہر اْس یتیم کے آنسوؤں کے جواب دہ ہو جس کا سہارا تمہاری بے حسی نے چھین لیا… ہر اْس ماں کی آہوں کے مجرم ہو جو اپنے لعل کی کٹی پھٹی لاش گود میں لیے نوحہ کناں ہے… ہر اْس بے سر و ساماں مہاجر کے خطاکار ہو جس کی پکار تمہارے محلات کی دیواروں سے ٹکرا کر بے صدا ہو گئی… اور ہر اْس فاقہ زدہ بچے کی بھوک میں شریک ِ جرم ہو جو خشک لب، معصوم آنکھوں میں حسرت لیے، ہڈیوں کا ڈھیر بن چکا ہے، اور ایک لقمے کو ترس رہا ہے۔ تمہاری گردنوں پر ان ہزاروں معصوموں کا خون ہے، جو تمہاری مجرمانہ خاموشی کے باعث بے یار و مددگار کٹ گئے۔ اور یہ سفاک نازی دشمن، یہ خون آشام درندہ، تمہارے دیکھتے، تمہارے سنتے، ہماری نسل کشی کا مرتکب نہ ہوتا اگر اْسے سزا سے بچ نکلنے کا یقین نہ ہوتا، تمہارے سکوت کی ضمانت نہ مل چکی ہوتی، اور تم اپنی بے حسی کا سودا نہ کر چکے ہوتے۔ ہم اس بہتے لہو کی ذمے داری سے کسی کو بری نہیں سمجھتے… ہم کسی ایسے فرد کو مستثنیٰ نہیں مانتے جس کے پاس اپنی حیثیت اور رسوخ کے مطابق کچھ کہنے یا کچھ کرنے کی طاقت تھی‘‘۔

پھر کیا آپ کا فہم یہ گوارا کرتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کاغذ کے ٹکڑے پر موجود ایک معاہدہ سے متاثر ہو کر محمد بن سلمان، اور کل کو ممکنہ طور پر محمد بن زاید النہیان، عبد الفتاح السیسی، شاہ عبد اللہ ثانی وغیرھم جیسے آمروں کو تو عالم ِ اسلام کی مخلص قیادت کے مرتبہ پر فائز فرما دیں جبکہ شہر ِ عزیمت میں بہتے خون اور کٹے پھٹے فاقہ زدہ جسموں کی انہی آمروں کے غلیظ کردار کے خلاف گواہی کو رد کر دیں؟ اگر جواب ’ہاں‘ میں ہے تو اقبال نے یہ اشعار آپ ہی کے متعلق کہے تھے:

مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور

تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے

غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے

وطن پرستی کی یہ لہر ابتدا میں عرب قوم پرستی کی صورت میں ابھری، جو وقت کے ساتھ ساتھ سعودی، اماراتی اور مصری قوم پرستی میں ڈھل گئی۔ پاکستان میں بھی ایک فوجی آمر کے دور میں اسی ذہنیت نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ جیسے نعرے کو جنم دیا۔ لہٰذا ایک جانب اپنی فرمانروائی کو استحکام بخشنے کے لیے سعودی قومی شناخت کو ازسرِ نو تشکیل دینے والا ایک آمر ہے تو دوسری جانب ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے hang over میں مبتلا ہماری ہائبرڈ قیادت۔ اب اگر یہ دونوں ’’باہمی مفادات‘‘ کے تحفظ کے معاہدے پر دستخط کرتے ہیں تو جوانب کے زامبی نما وطن پرستوں کو تو خوشی سے تالیاں پیٹنی ہی چاہئیں تھیں، اور وہ ہمارے مخاطب بھی نہیں، لیکن یہ کیسی سادگی ہے کہ اس معاہدے کے تخم سے ہمارے اسلام پسند بھی امت کے زخموں کا مرہم برآمد کرنے بیٹھ گئے۔

کیا آپ اتنے ہی سادہ لوح ہیں کہ عرب آمر کے ساتھ ایک معاہدے پر جشن منا کر سمجھ بیٹھیں کہ امت کی قیادت اب بھی انہی حکمرانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے جو دورِ حاضر میں اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان کے مابین امتیاز کروا دینے والے معرکہ میں مؤخر الذکر کے لشکر میں کھڑے نظر آئے؟ جنہوں نے نہ قبلۂ اوّل کے تقدس کا پاس رکھا نہ اْس کی آزادی کی جدوجہد کا لحاظ کیا اور ہزاروں مسلمانوں کو قابض دشمن کے ہاتھوں بیدردی سے قتل ہوتا دیکھتے رہے۔ اگر یادداشت پر گراں نہ ہو تو 7 اکتوبر 2023ء کے حملوں کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ عرب راجواڑے ’’ابراہیمی معاہدات‘‘ کی چھتری تلے قابض دشمن کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور امریکا سے جدید دفاعی عسکری صلاحیت کے حصول کے عوض قبلۂ اوّل کی سرزمین کا سودا کرنے پر راضی ہو چکے تھے۔ قبلۂ اوّل کی آزادی کی تحریک ِ اور شہر ِ عزیمت کی نمائندہ مزاحمتی جماعت کی پیٹھ میں چْھرا گھونپنے پر اتفاق کیا جا چکا تھا۔

اسی پالیسی کا تسلسل ہے کہ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور شدہ قرارداد میں 7 اکتوبر 2023ء کے حملوں کی سخت مذمت کے ساتھ ساتھ مجوزہ ریاست میں شہر ِ عزیمت کی نمائندہ مزاحمتی جماعت سے ’’پاک‘‘ حکومت کی حمایت کی گئی ہے۔ قرارداد میں مزاحمتی جماعت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شہر ِ عزیمت پر اپنا کنٹرول ختم کرے، ہتھیار ڈالے، اور عرب راجواڑوں کی پٹھو اور قابض دشمن کی باج گزار فلسطینی اتھارٹی کو حکومتی امور سنبھالنے دے۔

یہی عرب راجواڑے تھے جنہوں نے مصر میں صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے آمر عبد الفتاح سیسی کو بھرپور سہارا دیا۔ اربوں ڈالر جھونکے، فوجی بغاوت کی پشت پناہی کی، اور رابعہ العدویہ اور النہضہ اسکوائر میں نہتے انسانوں کے خونِ ناحق میں برابر کے شریک بنے۔ اگر آج مصر میں سیسی کے بجائے مرسی شہید یا اخوان کی حکومت قائم رہتی تو رفح کراسنگ امت اور شہر عزیمت کے درمیان دیوار نہ بنتی۔ سرحدیں کھلی ہوتیں، انسانی، مالی و عسکری امداد پہنچتی، اور اہلیانِ شہر ِ عزیمت فاقوں سے مر نہ رہے ہوتے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کا درد رکھنے والی انقلابی و مزاحمتی جماعتوں کی کامیابی سے ان آمروں کے تخت لرز جاتے ہیں۔ ’’انقلاب‘‘ اور ’’مزاحمت‘‘ کے الفاظ سے وہ اتنے خائف ہیں کہ اپنے آمرانہ اقتدار کے تحفظ کے لیے غیر مسلم افواج کو اپنے راجواڑوں میں لا بٹھاتے ہیں، امت کی رگوں میں مدخلیت کا زہر گھولنے کے لیے مذہبی وضع قطع رکھنے والے درباری مولویوں کے لشکر پالتے ہیں، قابض دشمن سے تعلقات قائم کرنا گوارا کر لیتے ہیں، مگر اس ہی قابض دشمن کے خلاف یا عالم ِ اسلام میں کہیں بھی کوئی انقلابی و مزاحمتی تحریک کامیاب ہو یہ برداشت نہیں کر سکتے۔ آپ انہیں ایسے ہر موقع پر اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی پشت میں چھرا گھونپنے میں پیش پیش پائیں گے۔

اب یہی خیانت امت کو ایک ایسی فلسطینی ریاست کا خواب دکھا کر کی جا رہی ہے جسے ہر قسم کے اسلحے، مزاحمت اور یہاں تک کہ مزاحمتی فکر سے بھی پاک کر کے، اْس ہی پر قابض اور دنیا کے جدید ترین اسلحہ سے لیس دشمن ریاست کے برابر میں قائم کیا جائے گا۔ کیا اس دکھائے جانے والے خواب کی مضحکہ خیزی تفصیل کی محتاج ہے؟ یاد رہے کہ یہ خواب آپ کو کسی اور جانب سے نہیں بلکہ عالم ِ اسلام کی قیادت کے منصب پر فائض حکمرانوں کی جانب سے دکھایا جا رہا ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکی صدر اور قابض دشمن کے توثیق کردہ اس ۲۰ نکاتی ’’امن معاہدے‘‘ میں کسی ایسی ریاست کا قیام ہی ایک وعدۂ فردا سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ لیکن ہم مسلم حکمرانوں کو اس نام نہاد ’’امن معاہدے‘‘ کی تعریف و توثیق میں رطب اللسان پا رہے ہیں۔

لہٰذا جان لیجیے کہ القدس سے پہلے حرمین کی آزادی… اور امت کے تصور کا احیاء… یہی عالم ِ اسلام کا اصل قضیہ ہے! باقی سب معاہدے، اعلامیے، بیانیے… محض اس جمود کو برقرار رکھنے کے ہتھکنڈے ہیں، جہاں مسلم معاشروں پر قابض آمرانہ حکومتیں عوام کی خواہشات اور عالم ِ اسلام کے مفادات کو روندتے ہوئے اپنی حکمرانی کو طول دینے کے اقدامات کرتی ہیں۔

 

نعمان برنی

متعلقہ مضامین

  • قوم کو بتایا جائے کون سے دہشتگرد کب اور کہاں بسائے گئے؟ بانی پی ٹی آئی عمران خان کا مطالبہ
  • سیف علی خان کا سابقہ اہلیہ امریتا سنگھ کے بارے میں حیران کن اعتراف
  • کالعدم بی ایل اے کو بیرون ملک سے فنڈنگ ہوتی ہے، سرفراز بنگلزئی
  • کالعدم بی ایل اے کے لوگوں کی ماہ رنگ بلوچ کیساتھ تصویریں سامنے آ چکیں: سرفراز بنگلزئی
  • کالعدم بی ایل اے کو بیرونی ایجنسیاں فنڈنگ کرتی ہیں، سرفراز بنگلزئی
  • دہشتگرد تنظیموں سے تعلقات، سہیل آفریدی کا وزیراعلیٰ بننا مشکل ہوگیا
  • ’دہشتگرد تنظیموں سے تعلقات‘، سہیل آفریدی کی بطور وزیراعلیٰ نامزدگی پر ہنگامہ
  • ’’اسرائیلی سفیروں نے ایک تقریب میں عمران خان پر سرمایہ کاری کا اعتراف کیا‘‘ اعزاز سید کا دعویٰ
  • ٹوپیوں کے زہر کا تریاق۔۔۔