حجاب کرنے پر دیپیکا پڈوکون کو تنقید کا سامنا
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
بالی ووڈ کی سپر اسٹار دیپیکا پڈوکون ایک بار پھر سوشل میڈیا پر بحث کا مرکز بن گئی ہیں، اس بار وجہ ابوظہبی کے ایک تشہیری ویڈیو میں ان کا عبایا پہننا بنا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی یہ ویڈیو ابوظہبی کے محکمۂ ثقافت و سیاحت کے اشتراک سے جاری کی گئی ہے، جس میں دیپیکا اپنے شوہر رنویر سنگھ کے ہمراہ برانڈ ایمبیسیڈر کے طور پر نظر آتی ہیں۔ اس ویڈیو میں دونوں کو لُووَر ابوظبی میوزیم اور شیخ زید گرینڈ مسجد کی سیر کرتے دکھایا گیا ہے۔
میوزیم اور مسجد میں لی گئی جھلکیوں میں دیپیکا عنابی رنگ کے عبایا میں نظر آئیں، تاہم ان کے بھارتی مداحوں کو ان کا حجاب کرنا ناگوار گزرا جس پر انہوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ حجاب پہن کر اپنی ’آزادی رائے‘ کے خلاف گئی ہیں جو ان کا مشہور بیان ہے۔
تاہم کچھ مداحوں نے واضح کیا کہ یہ عبایا تھا، جو مسجد میں داخلے کے وقت خواتین کے لیے مناسب لباس سمجھا جاتا ہے اور حجاب کرنا عرب ثقافت کا بھی حصہ ہے۔
کچھ صارفین نے ان کی 2015ء کی مختصر فلم ’مائی چوائس‘ کا حوالہ دیتے ہوئے طنز کیا، جبکہ ان کے حامیوں نے کہا کہ دیپیکا نے صرف مقامی روایات کا احترام کیا ہے۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ اداکارہ مذہبی یا ثقافتی مقامات پر روایتی لباس میں دکھائی دی ہیں۔ اس سے قبل بھی وہ اور رنویر مختلف مندروں اور گوردواروں میں مذہبی رسومات کے دوران روایتی ملبوسات میں نظر آ چکے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اترپردیش، سنبھل شاہی جامع مسجد کیس کی سماعت 8 جنوری کو ہوگی
کورٹ کمشنر نے ایک اور سروے کی اجازت کی درخواست کی، جو 24 نومبر کو کیا گیا تھا، اس دوران بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑا جسکے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ اسلام ٹائمز۔ سنبھل شاہی جامع مسجد بمقابلہ ہریہر مندر کیس میں ہندو فریق کے دعوے کو خارج کرنے کے لئے دائر مقدمے پر چندوسی میں سول جج (سینئر ڈویژن) کی عدالت میں بدھ کو سماعت ہوئی، اگلی سماعت اب 8 جنوری کو ہوگی۔ شاہی جامع مسجد کی نمائندگی کرنے والے وکیل شکیل احمد وارثی نے بتایا کہ آج سول جج (سینئر ڈویژن) آدتیہ سنگھ کی عدالت میں سماعت ہوئی۔ عدالت نے اگلی سماعت کی تاریخ اگلے سال 8 جنوری مقرر کی ہے۔
ہندو فریق کی نمائندگی کرنے والے وکیل شری گوپال شرما نے بتایا کہ ہندو فریق نے 19 نومبر 2024ء کو عدالت میں دعویٰ دائر کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ شاہی جامع مسجد محکمہ آثار قدیمہ کی ملکیت ہے، اس لئے تمام فریقین کو مسجد جانے کی اجازت دی جائے۔ شرما کے مطابق بعد ازاں عدالت نے اسی دن مسجد کے سروے کا حکم دیا، جو اسی دن مکمل ہوگیا۔ کورٹ کمشنر نے ایک اور سروے کی اجازت کی درخواست کی، جو 24 نومبر کو کیا گیا تھا۔ اس دوران بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑا جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ شرما نے بتایا کہ مساجد مینجمنٹ کمیٹی نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور سروے رپورٹ پیش ہونے تک سماعت پر روک لگانے کی درخواست کی۔
ہائی کورٹ نے سول جج (سینیئر ڈویژن) کے سروے کے حکم کو برقرار رکھا اور درخواست کو خارج کر دیا۔ مسجد کمیٹی نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، جس نے اپنے فیصلے تک جمود برقرار رکھنے کا حکم دیا۔ شرما نے کہا کہ سپریم کورٹ میں زیر التواء کیس کی وجہ سے سول جج آدتیہ سنگھ نے اگلی سماعت کی تاریخ 8 جنوری مقرر کی۔ سنبھل میں گزشتہ سال 24 نومبر کو شاہی جامع مسجد میں سروے کے دوران ہوئے تشدد کے معاملے میں پولیس نے ایس پی ایم پی ضیاء الرحمن برق اور شاہی جامع مسجد مینجمنٹ کمیٹی کے صدر ظفر علی اور 2750 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔