خون کا حساب لینے کے لیے افغانستان میں داخل ہونا ہمارا حق ہے: خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT
خون کا حساب لینے کے لیے افغانستان میں داخل ہونا ہمارا حق ہے: خواجہ آصف WhatsAppFacebookTwitter 0 11 October, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: (آئی پی ایس) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ خون کا حساب لینے کیلئےافغانستان میں داخل ہونا ہمارا حق ہے، افغان حکومت پاکستان کے خلاف اپنی زمین استعمال نہ ہونےکی ضمانت نہیں دے سکی۔
اگر افغان سر زمین سے فتنہ خوارج پاک سرزمین میں آکر خون بہاۓ اور پاکستان کو اس خون کا حساب لینے کے لئے اگر افغان سرزمین میں داخل ھونا پڑے تو وہ ھمارا حق ھے۔ کابل اس سلسلہ میں ابتک کو ئ ضمانت نہیں دے سکا کہ انکی سرزمین ھمارے خلاف بھات نواز فتنہ استعمال نہیں کرے گا۔ ھماری مٹی کے…
— Khawaja M.Asif (@KhawajaMAsif) October 10, 2025
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے بیان میں خواجہ آصف نے لکھا کہ ہماری مٹی کے تقدس کو پامال نہ ہونے دیں، ہم بھی آپ کی زمین پر آنچ نہیں آنے دیں گے، کابل حکومت اس سلسلہ میں اب تک کوئی ضمانت نہیں دے سکی کہ ان کی سرزمین ہمارے خلاف بھارت نواز فتنہ استعمال نہیں کرے گا۔
خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہزاروں طالبان کو عمران خان نے پاکستان لا کے بسایا، آج بھی پی ٹی آئی دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کر رہی ہے، برسوں سے ہماری فوج اور عوام کا خون بہایا جارہا ھے۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کے ساتھ برسوں پہ محیط مذاکرات اور وفود کا کابل آنے جانے کے باوجود پاکستان میں خونریزی بند نہیں ہوئی، روزانہ فوجی جوانوں کے جنازے اٹھ رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ 60لاکھ افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی قیمت ہم اپنے خون سے ادا کر رہے ہیں، وقت آ گیا ہے کہ افغان مہمان اپنے گھروں کو جائیں اور یہ مفت بری اور محسن کشی بند کریں، یہ کیسے مہمان ہیں جو میزبانوں کا خون بہاتے ہیں اور قاتلوں کو پناہ میسر کرتے ہیں۔
قبل ازیں ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان میں بھارت کی سہولت کاری کی جارہی ہے، ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن افغان حکومت ضمانت لینے پر تیار نہیں، کالعدم طالبان کے لیڈر کو وہاں بلٹ پروف گاڑی دی گئی، دہشتگردوں کی سہولت کاری کی جارہی ہے کہ وہ نئی پناہ گاہیں بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کابل میں کہا کہ اپنی سرزمین سے دہشتگردوں کو کنٹرول کریں، ہم آج بھی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، افغان حکومت دہشت گردی کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر مجبور نہیں، افغان وزیر خارجہ دلی میں بیٹھ کر بیان دے رہے ہیں، کیا یہ بھارت کی اجازت سے مذاکرات کریں گے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرغزہ جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات سامنے آگئیں غزہ جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات سامنے آگئیں ڈی آئی خان پولیس ٹریننگ اسکول پر حملہ، جوابی کارروائی میں 5 دہشتگرد مارے گئے، 7 اہلکار شہید ملک میں مہنگائی کا رجحان مسلسل جاری، 21 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ڈی آئی خان پولیس ٹریننگ سینٹر کے قریب دھماکہ، فائرنگ کی آوازیں، ہلاکتوں کا خدشہ بھارت نے دہلی کے دورے میں افغان وزیر خارجہ کو ایمبولینسز کا تحفہ دے دیا وینزویلا کی جمہوری رہنما ماریا کورینا نے نوبیل امن انعام ٹرمپ کے نام کردیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: خون کا حساب لینے خواجہ ا صف نے افغان حکومت نے کہا کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
چمن سرحد کی طویل بندش، افغانستان کو ادویات اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا
پاک افغان کشیدگی کے باعث چمن اسپن بولدک سرحد کی طویل بندش نے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی اربوں روپے کی روزانہ تجارت کو مکمل طور پر منجمد کر دیا ہے۔ اکتوبر کے اوائل میں ہونے والی جھڑپ کے بعد سرحد کو مسلسل بند رکھا گیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف سینکڑوں ٹرک کئی ہفتوں سے بارڈر پر پھنسے ہوئے ہیں بلکہ پھل اور سبزیاں سڑ کر ضائع ہو چکی ہیں۔ اس صورتحال نے افغانستان کے اندر بنیادی اشیائے ضروریہ کی قلت سنگین حد تک بڑھ دیا ہے
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان بارڈر کی بندش: خشک میوہ جات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
چمن کے مقامی تاجر حاجی عثمان خان نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ بحران کے نتیجے میں بارڈر پر پڑے ہوئے سینکڑوں ٹرک تیزی سے خراب ہوتے سامان کے ساتھ مکمل طور پر بیکار ہو چکے ہیں۔
ان کے مطابق افغانستان کی مارکیٹ کا بڑا حصہ پاکستان سے آنے والی اشیا پر منحصر ہے، اور سرحد بند ہونے کے بعد سب سے زیادہ متاثر وہی عام لوگ ہو رہے ہیں جنہیں نہ خوراک میسر ہے اور نہ ہی بنیادی ادویات۔ افغانستان کا اپنا پیداواری انفراسٹرکچر اتنا مضبوط نہیں کہ وہ اچانک اس خلا کو پُر کر سکے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں میڈیسن، سبزیوں اور پھلوں کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
ایوانِ صنعت و تجارت کوئٹہ کے نائب صدر جی اختر نے بھی اس صورتحال کو سنگین ترین معاشی بحران قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اربوں روپے کی روزانہ تجارت سرحد بند ہونے کے بعد مکمل طور پر رُک گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ الیکٹرانکس، ادویات، ٹشو پیپر، کپڑا، مصالحے، گندم، چاول اور دیگر درجنوں اشیائے ضروریہ کے بڑے بڑے ٹرک ہفتوں سے کھڑے ہیں۔
ان کے مطابق افغانستان کی مارکیٹ اس وقت پاکستانی مصنوعات کی شدید کمی کا سامنا کر رہی ہے، جس نے نہ صرف اشیا کی قلت پیدا کی ہے بلکہ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی دیکھا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:چمن: پاک افغان سرحد پر مہاجرین کا انخلا جاری، تجارتی سرگرمیاں دوسرے روز بھی معطل
انہوں نے کہا کہ ادویات تو تقریباً ختم ہونے کے قریب ہیں اور افغانستان اب اپنا انحصار ایران، تاجکستان اور دیگر ممالک سے ہونے والی مہنگی درآمدات پر منتقل کر رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق سرحد کی بندش نے عام افغان شہریوں کی زندگی کو بھی بے حد متاثر کیا ہے، کیونکہ علاج کے لیے پاکستان کا رخ کرنے والے مریضوں کی آمد مکمل طور پر رک گئی ہے۔
افغانستان کے اندر پہلے ہی صحت کا بنیادی نظام کمزور ہے، اور کئی اضلاع میں معمولی علاج کے لیے بھی پاکستان پر انحصار کیا جاتا ہے۔ سرحد بند ہونے سے یہ سلسلہ ٹوٹ گیا ہے جس کے نتیجے میں متعدد افراد علاج معالجے سے محروم ہو چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ بندش طویل عرصے تک جاری رہی تو پاکستان کی برآمدات کو مستقل نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ افغانستان میں پاکستانی مصنوعات کی جگہ ایرانی، وسطی ایشیائی اور دیگر ممالک کے سامان نے لینا شروع کر دی ہے۔
پاکستان کی افغان مارکیٹ میں دہائیوں پر محیط بنیاد کمزور پڑ سکتی ہے، جس کا اثر نہ صرف تاجروں بلکہ لاکھوں مزدوروں پر پڑے گا جو اپنی روزی روزگار کے لیے اسی تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟
ادھر بارڈر کے دونوں جانب کھڑے ٹرک ڈرائیور بھی کسمپرسی کا شکار ہیں۔ کئی ہفتوں سے وہ سرحد کے قریب نہ مناسب خوراک کے ساتھ موجود ہیں، نہ آرام کے لیے جگہ میسر ہے اور نہ ہی کوئی واضح اعلان سامنے آ رہا ہے کہ سرحد کب کھلے گی۔
چمن کی مقامی معیشت، جو بارڈر ٹریڈ کے بغیر تقریباً مفلوج ہو جاتی ہے، اس وقت شدید جمود کا شکار ہے۔ بازار سنسان ہونے لگے ہیں، مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں اور مقامی ٹرانسپورٹ کا نظام بھی تقریباً ٹھپ پڑ گیا ہے۔
چمن سرحد کی بندش نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاک افغان تجارت دونوں ملکوں کی معیشتوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر کشیدگی کم نہ ہوئی تو خوراک اور ادویات کا بحران افغانستان میں انسانی المیہ بن سکتا ہے جبکہ پاکستان کی بارڈر بیسڈ تجارت کو پہنچنے والا نقصان طویل المدتی منفی اثرات چھوڑ جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ادویات کی قلت ایران پاک افغان سرحد پاکستان پھل چمن بارڈر سبزیاں وسطی ایشیا