کس سے کہاں غلطی ہو رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT
حالیہ دورکے بچے ماضی میں پیدا ہونے والے بچوں سے بے انتہا مختلف اور الگ معلوم ہوتے ہیں۔ اسّی اور نوّے کی دہائی میں مولود ہوئے افراد جو ابھی اپنی جوانی کے دن گزار رہے ہیں یا پھر بڑھاپے کی جانب رواں دواں ہیں جب چھوٹے ہوا کرتے تھے تو بااحساس تھے اور شکرگزاری کا عنصر بھی اُن کی طبیعت میں نمایاں طور پر موجود تھا، اس کے برعکس موجودہ زمانے میں بچوں کے حوالے سے یہ دونوں خصوصیات بالکل ناپید ہوچکی ہیں۔
جب ہم اپنی کم عمری کے دن گزار رہے تھے، تب ہمارے لیے دنیا ایک حسین وادی کی حیثیت رکھتی تھی جب کہ اُن دنوں بچوں کو ایسی آسائشوں سے بھرپور زندگی میسر بھی نہیں تھی، جیسی زمانہ حال میں ہے لیکن پھر بھی ہم اُس تھوڑے میں بہت خوش و نہال تھے۔
ہمارا ہر دن یومِ عید کی مانند تھا اور دن کا ہر پہر خوشگواریت سے بھرپور بس شام کا وقت باقی وقتوں سے تھوڑا زیادہ پُرلطف سمجھا جاتا تھا،کیونکہ دوپہرکی دھوپ ڈھلنے کے بعد ہم اپنے گھروں سے باہر موج مستی کی نیت سے نکل پڑتے تھے یا گھر کی چھت پر چڑھ کر خوب دھماچوکڑی کیا کرتے تھے، اُداسی کس بلا کا نام ہے ہمیں اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔
ماڈرن ایج کے بچے دنیا جہان کی نعمتیں و آسائشیں پاکر بھی خوش نظر آتے ہیں نہ مطمئن، سونے پر سہاگا ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال نے اُن کے اندر موجود ہر انسانی جذبے کو معدم کرکے رکھ دیا ہے۔
اپنے گھر کی چار دیواری اُن کی کُل کائنات ہے، کھلی فضا میں سانس لینا، نیچر سے دوستی کرنا اور آؤٹ ڈورکھیلوں کا حصہ بننا اُن کے فلسفہ زندگی میں بلاوجہ کی تھکاوٹ اور خود کو ہلکان کرنے کے ذرایع کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اپنی من چاہی ہر شے تک رسائی رکھتے ہوئے بھی نجانے اضطراب ان کی طبیعت کا بنیادی جُز کیوں بن کر رہ گیا ہے۔
ملینیئلز کہلائے جانے والے اسّی اور نوّے کی دہائی کے بچے مشترکہ خاندانی نظام کا حصہ ہوا کرتے تھے جہاں گھر میں بڑے، بزرگوں کی موجودگی اُن کی طبیعت میں ٹھہراؤ، نفاست اور بردباری کا باعث بنتی تھی۔
اس امر میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جو بچے اپنے دادا، دادی اور نانا، نانی کے زیرِ سایہ پروان چڑھتے ہیں اور دوسری جانب جن بچوں کو یہ نعمت سرے سے حاصل ہی نہیں ہوتی ہے ان دونوں طرح کے بچوں کی شخصیت میں واضح فرق پایا جاتا ہے جسے ہر ذی شعور انسان باآسانی محسوس کر سکتا ہے۔
جنریشن ذی کے نام سے پہچانی جانے والی اس نئی نسل میں کسی انسان کو اُس کی عمر، رشتے اور رتبے کی مناسبت سے عزت و احترام دینے کی تمیز ہمیں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جب ہم بچے ہوا کرتے تھے تو خود سے عمر میں بڑے افراد سے اختلافِ رائے رکھتے ہوئے بھی اُن سے بحث کرنا یا ایسی کسی حرکت کی جرات کرنا ہمارے لیے ناممکنات میں سے تھا۔
آج کے دور میں تو یہاں بچوں کو اپنے بڑوں کی کوئی بات ناگوار گزری وہاں دوسرے ہی لمحے اُن کی زبان سے پہلے لحاظ چلا جاتا ہے پھر طبیعت میں موجود مروت بھی چھومنتر ہو جاتی ہے۔
اپنی زندگی میں حاصل ہوئی نعمتوں، آسائشوں اور والدین کی جانب سے اولاد کی زیست کو پرسکون بنانے کی غرض سے دی جانے والی قربانیوں کو اپنا حق سمجھنے میں بھی اس نئے دورکے بچوں کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
دنیا میں ترقی کی رفتار ہر پل تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے، آج دنیا میں تعلیم کا معیار ماضی کے مقابلے میں کافی بلند ہے، بچہ بچہ اپنے اندر دنیا بھرکی معلومات سموئے ہوئے ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مجموعی طور پر جدید دنیا کے جدید بچوں میں سینس آف گریٹیٹیوڈ نہ ہونے کے برابر ہے۔
سوشل میڈیا کی پیداوار یہ بچے طبیعت کے اعتبار سے بلکل اینٹی سوشل ہیں، چار لوگوں سے ملنا اور اپنی زبان سے چند الفاظ سے زیادہ کااستعمال انھیں کوفت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایک کمرہ، اُس کمرے میں موجود کاؤچ یا بستر پر اُن کاسستی سے بھرا وجود اور ہاتھوں میں موبائل یاکوئی دوسرا الیکٹرانک گیجٹ اس کے بعد اُن کی بلاسے پوری دنیا بھاڑ میں جائے اُن کو اس کی قطعی پروا نہیں ہوتی ہے، یہاں تک کہ اپنے گھر میں برپاہونے والے طوفانوں سے بھی وہ بے خبر ہی رہتے ہیں۔
یہ سب دیکھ کر میرا دل بیحد کُڑھتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ آخر کس سے کہاں غلطی ہو رہی ہے جو سوچ کے اعتبار سے زمانہ حال کے بچے اپنے بڑوں سے دور سے دور تر ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمیں اس روز بروز بگڑتے ہوئے مسئلے کوسنجیدگی سے لینے کی اشد ضرورت ہے، اگر آج ہم بچوں کو اُن کے اس حال پر چھوڑ کر یہ تسلیم کر لیں گے کہ اُن کے رویوں میں رونما ہونی والی تبدیلی کی وجہ محض بدلتا ہوا وقت ہے اور ہاتھ پرہاتھ دھرکر بیٹھ جائیں تو کل جب ہمیں سدھار کی ساری راہیں مقفل ملیں گی، تب پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتے تھے بچوں کو کے بچے
پڑھیں:
جب ہم شرماتے ہیں تو ہمارا چہرہ سُرخ کیوں ہوجاتا ہے؟ سائنسی وجہ
جب ہمیں شرم آتی ہے تو ہمارا چہرہ سُرخ ہوجاتا ہے۔ یہ ایک فطری جسمانی ردِعمل ہے جس کا تعلق دماغ، اعصاب، اور خون کی روانی سے ہے۔
جب آپ کو شرم، جھجک، یا گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے جیسے
کسی کے سامنے غلطی ہوجائے تعریف ہو جائے یا سب کی توجہ آپ پر آجائے تو دماغ فوری طور پر "ایڈرینالین" ہارمون خارج کرتا ہے۔
یہ وہی ہارمون ہے جو خوف یا تناؤ کی حالت میں بھی نکلتا ہے۔ ایڈرینالین خون کی نالیوں کو پھیلا دیتا ہے خاص طور پر چہرے اور گردن کے حصے میں۔ نالیاں پھیلنے سے وہاں خون کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے۔
نتیجے میں چہرہ سُرخ نظر آنے لگتا ہے۔ یعنی، شرم محسوس کرتے وقت چہرہ دراصل گرم اور خونی بہاؤ سے بھرپور ہو جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چہرہ شرم سے سرخ ہونا صرف انسانوں میں دیکھا گیا ہے، کسی اور جانور میں نہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق یہ انسانی جذبات کی پہچان اور سماجی شعور کی علامت ہے۔
جب آپ شرمندگی یا شرم سے سرخ ہوتے ہیں، تو دوسروں کو یہ اشارہ ملتا ہے کہ آپ اپنی غلطی یا احساس کو سمجھتے ہیں یعنی آپ ایماندار اور حساس ہیں۔