تین روزہ پاک افغان جنگ ماضی اور حال کے آئینے میں
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ISPR کے جاری کردہ بیان کے مطابق، اس رات کے تصادم میں پاکستان کے 23 جوان شہید ہوئے، ان 23 میں سے صرف ضلع کرم میں 9 افراد شہید ہوئے۔ جن میں سے 3 کا تعلق پاراچنار سے تھا۔ جوابی کارروائی میں مبینہ طور پر طالبان کے 200 سے زائد جنگجو مارے گئے۔ تاہم جنگ اور عشق میں سب کچھ، خصوصاً جھوٹ تو جائز ہی ہے، یہی تو وجہ ہے کہ جانبین کے دعووں میں کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی۔ ہر ایک دوسرے کا نقصان کئی گنا زیادہ بتا رہا ہے۔ رپورٹ: ایس این حسینی
ہمیشہ کی طرح گذشتہ دنوں ایک بار پھر دو برادر اسلامی ممالک ایک دوسرے کے مقابلے پر آگئے اور تین روز تک ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے۔ یہ روایتی حریف ویسے تو 1947ء سے ہی ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔ تاہم 80 کی دہائی میں آپس کا بارڈر خوب مصروف رہا۔ سرحد پار سے روس اور افغانستان کے ہوائی جہاز پاکستانی سرحدی علاقوں میں موجود مہاجر کیمپ کے علاوہ مقامی آبادیوں پر بھی بمباری کرتے رہتے۔ یہی نہیں بلکہ اینٹی پرسونل بم بچھاتے، جس سے افغان مہاجرین کے علاوہ مقامی آبادی بھی متاثر ہو جاتی۔ ان جنگی اور چھاپہ مار کارروائیوں میں لاکھوں قبائل متاثر ہوگئے۔ روس امریکہ کی اس افغان جنگ میں پاکستان بالخصوص قبائلی علاقے قربانی کا بکرا بنے رہے۔ مقامی قبائل نے افغان مہاجرین کی خوب کمک کی۔ انہیں اپنی زمین اور جنگلات پیش کئے، جنہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد تو ان مہاجرین کو پاکستان چھوڑ کر اپنے ملک جانا چاہیئے تھا۔ تاہم اس کے بعد بھی لگ بھگ تین عشرے پاکستان میں مقیم رہے۔ یہی مہاجر جب افغانستان چلے گئے تو ایک لمحے کیلئے بھی پاکستان کا احسان تسلیم نہیں کیا، بلکہ پاکستان کے خلاف سرگرم عمل رہے اور ہمارے خلاف انڈیا کے سہولت کار بنے رہے۔ انڈیا کی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے کے پی اور بلوچستان میں مسلسل دراندازی کرتے رہے اور یہاں شرپسندوں کی کمک کرتے رہے۔ یہ ایک طویل تاریخ ہے، جس سے صرف نظر ہی بہتر ہوگی۔ اب آتے ہیں۔ حالیہ جھڑپ کی طرف۔
حالیہ جنگ کی شروعات کچھ یوں ہوئیں کہ کابل میں موجود ٹی ٹی پی کی تنصیبات پر پاکستان نے فضائی حملے کئے، جس میں ان کا اہم کمانڈر نور ولی محسود مارا گیا۔ اگلے ہی دن یعنی 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب، سرحد پار افغان چوکیوں سے پاکستانی مورچوں پر فائرنگ شروع ہوئی اور مبینہ طور پر کئی مقامات پر دراندازی کی کوشش بھی ہوئی۔ اس دوران پاک فوج نے نہایت برق رفتاری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے اپنی طرف سے ایک پیغام بھی دیا کہ یہ ملک امن تو چاہتا ہے، مگر اسے اس کی کمزوری بھی نہ سمجھی جائے۔
ISPR کے جاری کردہ بیان کے مطابق، اس رات کے تصادم میں پاکستان کے 23 جوان شہید ہوئے، ان 23 میں سے صرف ضلع کرم میں 9 افراد شہید ہوگئے۔ جن میں سے 3 کا تعلق پاراچنار سے تھا۔ جوابی کارروائی میں مبینہ طور پر طالبان کے 200 سے زائد جنگجو مارے گئے۔ تاہم جنگ اور عشق میں سب کچھ، خصوصا جھوٹ تو جائز ہی ہے، یہی تو وجہ ہے کہ جانبین کے دعووں میں کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی۔ ہر ایک دوسرے کا نقصان کئی گنا زیادہ بتارہا ہے۔ ایک اذان کیساتھ علیحدہ علیحدہ صفوں میں کھڑے ہونے والے دونوں ممالک کے نماز گزار سپاہی بیک وقت شہید اور ہلاک ٹھہرائے گئے۔ بہرحال حساب کتاب تو اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ اسی کو اختیار کلی حاصل ہے، جٓسے چاہے جنت اور جسے چاہے جہنم میں بھیجے۔ وہی علیم ہے اور ہر خبر سے باخبر ہے۔
افغان ردِ عمل
اگلے دن طالبان حکومت نے دعویٰ کیا کہ "ہم نے پاکستانی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔" ان کے بقول 58 پاکستانی فوجی مارے گئے، تاہم زمینی حقائق، غیر جانب دار ذرائع اور بین الاقوامی رپورٹس افغان نقصانات کو کہیں زیادہ بتا رہے ہیں۔ دو تین مقامات کے علاوہ اکثر مقامات پر پاک فوج کی جانب سے فریق مخالف کے مورچوں پر قبضے کے ویڈیو ثبوت میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔
مسلم ممالک کیجانب سے ثالثی کی پیشکش
اسی دوران ایران، قطر اور سعودی عرب نے دونون ممالک کو ثالثی کی پیش کش کرتے ہوئے اپنی خدمات پیش کیں۔ امن، برداشت اور آپس کی گفت و شنید پر زور دیا۔ تاہم جنگ زدہ اقوام کی جانب سے اس پیش کش کا کوئی خاطر خواہ جواب سامنے نہیں آیا ہے۔
بھارت، اسرائیل اور امریکا کی خاموشی
سال 2025ء کے نوبل انعام کا قوی امیدوار مسٹر ٹیرف اور اس کا پالتو نیتن یاہو اس جھڑپ کے حوالے سے مکمل طور پر خاموش دکھائے دے رہے ہیں۔ انکے علاوہ پڑوسی ملک بھارت بھی خاموش ہے۔ تاہم انکی خاموشی اندر ہی سے بہت کچھ کہہ رہی ہے کہ امت جب خود دوسروں کا آلہ کار ہو، تو دوسرے کیا خاک خیال رکھیں گے۔ یہ خواب گران کی خوابیدہ امت فلسطین میں 67 ہزار افراد کے قتل پر بیدار نہ ہوسکی۔ چند درجن یا چند سو افراد کا قتل اسے کیسے بیدار کرسکے گا۔
خاموشی، سرحد کی بندش اور صلح کی امید
آج 13 اکتوبر کو کرم سمیت غالباً تمام محاذوں پر خاموشی رہی۔ تاہم اس کے بعد ایک انوکھا اعلان یہ سامنے آیا کہ پاک افغان سرحد تا اطلاع ثانی مکمل بند رہے گی۔ چنانچہ چمن، کرم اور طورخم سمیت تمام اہم گزر گاہیں بند کر دی گئیں۔ غلام خان، انگور اڈہ اور خرلاچی جیسے اہم راستے سیل کر دیئے گئے۔ Reuters اور AP کی رپورٹس کے مطابق، یہ بندش "تجارتی اور انسانی آمد و رفت" دونوں پر مشتمل ہے۔ چنانچہ مال آجا رہا ہے اور نہ ہی لوگ۔ دونوں سائڈ پر مکمل خاموشی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ یہ خاموشی جنگ بندی کی تیاری ہے، کیونکہ ایران، قطر اور سعودی عرب شدت سے متحرک ہیں۔ ذرائع کے مطابق چند دنوں میں عارضی جنگ بندی کا اعلان متوقع ہے۔
انجام:
یہ کوئی نئی بات نہیں، مسلم ممالک نے ہمیشہ سے دوسروں کی مفادات کی جنگ لڑی ہے۔ عین ممکن ہے، ایک فریق بے قصور اور بے خبر ہو، مگر عموماً دونوں حریف الگ الگ اور اپنے ہی آقا کی ڈکٹیشن کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنا اور اپنے بھائی کا خون بہانے پر اترتے ہیں۔ افغانوں نے 80 تا 88 امریکہ کے کہنے پر اپنی افغان حکومت اور ان کے حلیف روس کے خلاف جنگ لڑی، اس کے بعد اپنے ہی آقا یعنی امریکہ کے مقابلے پر آگئے اور پھر 30 سال امریکہ کے خلاف برسر پیکار رہے۔ اسی دوران حکومت میں ہوتے ہوئے افغانستان کے اندر اپنے ہی ہم مسلک و ہم قبائل کا قتل عام کرتے رہے۔ پاکستان کی کمک سے حکومت تک پہنچنے والے یہ افغان گروپ یعنی طالبان آج اپنے ہی محسن سے پنگا لیتے ہوئے برسر پیکار ہیں۔ اسلام اور خلافت کا دعویٰ کرنے والی دولت اسلامی آج اپنے ملک میں ہندوستان کی انتہاء پسند ہندو حکومت کو سہولت فراہم کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہے۔ اللہ سے دست بہ دعا ہیں کہ وہ امت مسلمہ کی حالت زار پر رحم کرتے ہوئے ان کی مشکلات کو حل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پاکستان کے ایک دوسرے کے علاوہ کے مطابق کے خلاف اپنے ہی کے بعد ہے اور
پڑھیں:
افغانستان پرحملہ نہیں کیا، پاکستان کارروائی کا باقاعدہ اعلان کرتا ہے: آئی ایس پی آر
راولپنڈی (نیوزڈیسک) ڈی جی آئی ایس پی آر نے سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے افغانستان پر حملہ نہیں کیا، پاکستان جب بھی کارروائی کرتا ہے اس کا باقاعدہ اعلان کرتا ہے، ہماری پالیسی دہشتگردی کیخلاف ہے، ہماری پالیسی افغان عوام کے خلاف نہیں ہے۔
تفصیلا ت کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ کورٹ مارشل کے معاملے پر قیاس آرائی سے گریز کیا جائے، فیض حمید کا کورٹ مارشل ایک قانونی اور عدالتی عمل ہے جیسے ہی عملدرآمد ہو گا،کوئی فیصلہ آئے گا توبتائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سرحد پار سے دہشتگردی کی معاونت سب سے بڑا مسئلہ ہے، پاک افغان بارڈر پر اسمگلنگ اور پولیٹیکل کرائم کا گٹھ جوڑ توڑنے کی ضرورت ہے، بیرون ممالک سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ریاست کے خلاف بیانیہ بنا رہے ہیں، ہمارا مسئلہ افغان عبوری حکومت سے ہے، افغانستان کے لوگوں سے نہیں۔
دہشتگردی کیخلاف مربوط جنگ لڑنے کیلئے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا، دہشتگردوں کے خلاف قابل تصدیق کارروائی تک بات چیت نہیں ہو گی، پاکستان کے عوام اور افواج دہشتگردوں کے خلاف متحد ہیں، دہشتگردوں کا آخری دم تک پیچھا کیا جائے گا، افغان رجیم دہشتگردوں کے ٹھکانوں کے خلاف قابل تصدیق کارروائی کرے۔
ہماری نظر میں کوئی گڈ اور بیڈ طالبان نہیں ، دہشتگردوں میں کوئی تفریق نہیں ، 2021 سے 2025 تک ہم نے افغان حکومت کو باربار انگیج کیا، خوارج دہشتگردی کیلئے افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ استعمال کرتے ہیں، طالبان حکومت کب تک عبوری رہےگی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہناتھا کہ 4نومبر کے بعد سے اب تک 206 دہشتگرد مارے گئے، خودکش حملے کرنے والے سب افغان ہیں، خیبرپختونخوا،بلوچستان میں 4910آپریشن کیے گئے۔
ان کا کہناتھا کہ پاکستان کبھی بھی شہری آبادی پر حملہ نہیں کرتا، افغان عبوری حکومت کے الزامات بے بنیاد ہیں،بلوچستان حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عمل کررہی ہے، جنوری سے اب تک 67623 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کئیے گئے ہیں، خیبر پختونخواہ میں 12,857 جبکہ بلوچستان میں 53,309 اور باقی پورے ملک میں 857 ہوئے ہیں۔
افغان اس وقت پاکستان میں مہمانوں کا کردار نہیں ادا کر رہے، کون سا مہمان کسی کے گھر کلاشنکوف لے کر جاتا ہے، کون سا مہمان دہشتگردی پھیلاتا ہے میزبان کے گھر ؟ افغانستان کے ترجمان وزرات خارجہ کا ایکس اکاؤنٹ بھارت سے آپریٹ ہوتا ہے، اس سے بڑا چشم کشا انکشاف کیا ہو گا۔
پاکستان نے خطے میں اپنا کردار پر امن ملک کے طور پر بخوبی نبھایا، مگر بد معاشی کا جواب دینا جانتے ہیں، دوحہ مذاکرات میں پاکستان کی پوزیشن واضح تھی اور جو دہشت گردوں کے خلاف پاکستان نے ثبوت دیے انہیں افغان حکام جھٹلا نہیں سکے، سوال یہ ہے دہشت گرد امریکی ساختہ اسلحہ استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والے گزشتہ چند سالوں میں کے واقعات میں امریکی ساختہ ہتھیار استعمال ہوئے، پاکستان نے امریکی حکام سے یہ معاملہ اٹھایا ہے، ایف سی ہیڈ کوارٹر حملے پر ملوث دہشت گرد تیرہ سے آئے تھے، تیرہ میں دہشت گردوں کا گڑھ بن رہا ہے، تیرہ میں دہشت گردوں کی سیاسی سرپرستی ہو رہی ہے۔