پاک افغان کشیدگی عوامی جنگ نہیں، پاکستان کا ردِ عمل
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
افغانستان کی جانب سے مبینہ بلااشتعال جارحیت اور پاک فوج کے سخت ردعمل کے تناظر میں پاکستانی حکام کے مطابق اس کشمکش کو پاکستان اور افغانستان کی عوام کے درمیان جنگ قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔
سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ حالیہ واقعات دراصل افغان عبوری حکومت، بعض عسکری گروہوں (جس میں افغان طالبان اور فتنہ الخوارج جیسی تنظیمیں شامل ہیں) اور ان کی حمایت کرنے والے حلقوں کی طرف سے مسلط کیے گئے ہیں، جن کے پیچھے بعض حلقوں نے بیرونی اثر و نفوذ بشمول بھارت کا نام بھی لیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کا جوابی ردِ عمل دہشت گردانہ ٹھکانوں، تربیتی مراکز اور ان مخصوص عناصر تک محدود رہا ہے جو براہِ راست یا بلاواسطہ طور پر پاکستانی حدود میں جارحیت میں ملوث تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مقصد افغان عوام یا عام شہریوں کو ہدف بنانا نہیں ہماری کارروائیاں صرف اُن ٹھکانوں اور نیٹ ورکوں کے خلاف ہیں جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور حملوں میں براہِ راست ملوث ہیں۔
حکام نے مزید کہا کہ پاک فوج اور دیگر ادارے حدِ دفاع کی پاسداری کرتے ہوئے محتاط انداز میں کارروائی کر رہے ہیں تا کہ غیر متعلقہ افراد کو نقصان نہ پہنچے، اور اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں کسی بھی بیرونی جارحیت یا دہشت گردی کا جواب مزید مؤثر انداز میں دینے کا حق پاکستان کے پاس محفوظ ہے۔
ذرائع نے اس بات پر زور دیا کہ یہ تنازعہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان بنیادی اختلاف نہیں بلکہ ان عناصر کے خلاف ہے جو بیرونی سرپرستی میں خطے میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔
بیانیے کے مطابق مقامی امن بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسئلے کو صحیح فریقین اور اداروں تک محدود رکھتے ہوئے حل کیا جائے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان
پڑھیں:
ایف سی ہیڈکوارٹر حملے کے ذمہ دار افغان شہری ہیں،آئی جی خیبر پختونخواپولیس
حکام نے وہ جگہ شناخت کر لی جہاں دہشت گردوں نے حملے سے قبل رات گزاری تھی
انٹیلی جنس ادارے حملے کے پیچھے سہولت کار اور سپورٹ نیٹ ورک کی تلاش میں ہیں
انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) خیبر پختونخوا پولیس ذوالفقار حمید نے کہا کہ پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری (ایف سی) ہیڈکوارٹرز پر ہونے والے خودکش حملے کے ذمہ دار ممکنہ طور پر افغان شہری ہیں۔سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق تحقیقاتی اور انٹیلی جنس ادارے حملے کے پیچھے سہولت کار اور سپورٹ نیٹ ورک کی تلاش میں ہیں، واضح ر ہے کہ حملے میں 3 اہلکار شہید اور 12 زخمی ہوئے تھے ۔حملہ اس وقت ہوا جب ایک خودکش بمبار نے ہیڈکوارٹر کے داخلی دروازے پر خود کو دھماکے سے اڑا دیا، تاہم اہلکاروں نے فوری رد عمل دکھاتے ہوئے خود کش بمبار کے دیگر 2 ساتھیوں کو ہلاک کر دیا، جس سے وہ اندر داخل ہو کر کوئی بڑا نقصان پہنچانے میں ناکام رہے ۔تحقیقات کی پیش رفت اور حملہ آوروں کے افغان شہری ہونے کے شواہد کے بارے میں پوچھے جانے پر آئی جی ذوالفقار حمید نے کہا کہ ہم یہ اس لیے کہہ رہے ہیں کیونکہ اب تک جو بھی شواہد ملے ہیں، ان کے مطابق جب کسی کے پاس شہریت کا ریکارڈ نہیں ہوتا تو اسے افغان یا کسی مشابہہ ملک کا شہری سمجھا جاتا ہے ۔انہوں نے تصدیق کی کہ حکام نے وہ جگہ بھی شناخت کر لی ہے جہاں دہشت گردوں نے ایف سی ہیڈکوارٹر پر حملے سے قبل رات گزاری تھی، تاہم انہوں نے کہا کہ اب تک کوئی سہولت کار گرفتار نہیں ہوا۔آئی جی ذوالفقار حمید نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کی سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کر لی گئی ہیں اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) ان کی شناخت کی تصدیق کر رہی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ حکام یہ بھی معلوم کر رہے ہیں کہ دہشت گرد پشاور میں داخل ہونے کے لیے کون سا راستہ استعمال کر کے آئے۔انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کی موٹر سائیکل قبضے میں لے لی گئی اور گاڑی سے حاصل شدہ فنگر پرنٹس اب فرانزک تحقیقات کا حصہ ہیں۔آئی جی کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا پولیس کی حالیہ اقدامات کے باعث دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے اور صوبائی پولیس فورس کو جدید ہتھیاروں، ٹیکنالوجی، اینٹی ڈرون سسٹمز، بلٹ پروف جیکٹس اور گاڑیوں سے آراستہ کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے خیبر پختونخوا پولیس کی بہادری کی بھی تعریف کی اور کہا کہ سخت حالات کے باوجود پولیس خطے میں امن کے لیے قربانیاں دے رہی ہے ۔