UrduPoint:
2025-10-18@17:29:20 GMT

ڈرائیورلیس ٹیکسیاں اگلے برس لندن میں بھی، ویمو کا منصوبہ

اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT

ڈرائیورلیس ٹیکسیاں اگلے برس لندن میں بھی، ویمو کا منصوبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اکتوبر 2025ء) لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ویمو (Waymo) کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ روبوٹیکسیاں متعارف کرانے والی یہ پہلی کمپنی عام صارفین کو 'ڈرائیورلیس رائیڈز‘ کی فراہمی کی اپنی سروس کو اب بین الاقوامی سطح پر توسیع دینا چاہتی ہے اور اس کا اگلا بزنس ٹارگٹ لندن ہے، جہاں یہ منصوبہ متوقع طور پر 2026ء میں عملی صورت اختیار کر لے گا۔

کرایہ پندرہ یورو مگر لیے پندرہ سو، ٹیکسی ڈرائیور گرفتار

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ویمو کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس کی بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑیاں برطانوی دارالحکومت کی سڑکوں پر چلانے کا تجرباتی مرحلہ اگلے چند ہفتوں میں شروع ہو جائے گا۔

(جاری ہے)

ابتدائی طور پر تاہم ان گاڑیوں میں 'سیفٹی ڈرائیور‘ کے طور پر ایک ماہر ڈرائیور اس لیے سٹیئرنگ وہیل کے پیچھے بیٹھا ہوا ہو گا کہ کسی بھی غیر متوقع صورت حال کا مقابلہ کیا جا سکے۔

ویمو کی طرف سے یہ اقدام اس لیے بھی کیا جائے گا کہ یہ کمپنی چاہتی ہے کہ لندن حکومت اسے برطانیہ میں اپنی کمرشل سروسز مہیا کرنے کی اجازت دے دے۔ یہ حکومتی منظوری اسے ابھی تک نہیں ملی۔

لندن سروس کے لیے گراؤنڈ ورک کی تیاریاں

ویمو نے اپنی ایک بلاگ پوسٹ میں بتایا کہ وہ اپنی لندن سروس کے لیے گراؤنڈ ورک چند ماہ میں شروع کر دے گی۔

ساتھ ہی اس روبوٹیکسی کمپنی کی طرف سے مزید کہا گیا، ''ہم اپنی کمرشل رائیڈ سروس کے لیے لندن میں مقامی اور قومی سطح کی قیادت کے ساتھ رابطے اس لیے جاری رکھیں گے کہ ہمیں لازمی طور پر درکار سرکاری منظوری مل سکے۔‘‘

اب تک کے حکومتی ارادوں کے مطابق ویمو کی سیلف ڈرائیونگ ٹیکسیاں اور بسیں ''محدود پیمانے‘‘ پر ایک ایسے پائلٹ پروگرام میں حصہ لے سکیں گی، جو 2026ء کے موسم بہار میں شروع ہو گا۔

ویمو کی ایک ادارے کے طور پر خاص بات یہ ہے کہ اس کا آغاز امریکی ٹیک جائنٹ کمپنی گوگل کے تنظیمی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے اور ایک خفیہ منصوبے کے طور پر کیا گیا تھا، تاہم بعد میں یہ گوگل کا حصہ بنی رہنے کے بجائے ایک علیحدہ کاروباری کمپنی بنا دی گئی تھی۔

امریکہ میں کئی برسوں سے جاری سروس

ویمو کی سیلف ڈرائیونگ ٹیکسیاں گزشتہ کئی برسوں سے امریکہ میں استعمال ہو رہی ہیں اور اس وقت ان روبوٹیکسیوں کی سروس فینکس، سان فرانسسکو، لاس اینجلس، اٹلانٹا اور آسٹن جیسے شہروں میں پوری طرح فعال ہے۔

اس کمپنی نے اپنے بزنس کو بین الاقوامی سطح پر وسعت دینے کی کوششیں اسی سال شروع کی تھیں۔ اس کے لیے اس نے جاپان میں ٹیسٹنگ کے لیے ایک مقامی پارٹنر کمپنی کے ساتھ اشتراک عمل کا فیصلہ کیا ہے۔

پولیس نے ’خطرناک حد تک چمکیلی‘ پورشے ضبط کر لی

جاپان میں ویمو کی روبوٹیکسیاں سڑکوں پر لانے سے متعلق کوئی حتمی تاریخ ابھی طے نہیں کی گئی۔

تاہم یورپ میں پہلی بار 2026ء میں ایسا کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔

برطانیہ میں اپنی کمرشل سروس کے لیے قانونی اجازت لینے سے قبل ویمو کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اس کی ڈرائیورلیس ٹیکسیاں اپنی سیفٹی کے لحاظ سے ''کم ازکم بھی اتنی محفوظ ڈرائیونگ کر سکیں گی، جتنی کوئی بہت محتاط، قابل اعتماد اور تجربہ کار انسان بطور ڈرائیور کرتا ہے۔

‘‘

کیا مستقبل میں مشینوں کو بھی جیل جانا پڑے گا؟

برطانوی حکومت کی طرف سے اجازت کے علاوہ ویمو کو مستقبل میں لندن میں کام کرنے کے لیے 'ٹرانسپورٹ فار لندن‘ نامی اس اتھارٹی کے قواعد و ضوابط پر بھی مکمل عمل کرنا ہو گا، جو لندن کی روایتی 'بلیک کیب‘ کہلانے والی ٹیکسیوں اور اوبر جیسے دیگر ٹیکسی آپریٹر اداروں کو لائسنس جاری کرتی ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سروس کے لیے کی طرف سے ویمو کی

پڑھیں:

لندن میں گزشتہ برس 80 ہزار موبائل چوری ہونے کا انکشاف

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لندن (انٹرنیشنل ڈیسک) لندن میں گزشتہ سال اربوں روپے مالیت کے 80 ہزار فون چوری ہوئے اور چھینے گئے۔ لندن پولیس نے انکشاف کیا کہ زیادہ تر موبائل دیگر ممالک بھیجے جا رہے تھے۔میٹروپولیٹن پولیس کی تحقیقات کے مطابق جرائم اب محض گلی محلوں کی واردات نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر منظم نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ پولیس نے گزشتہ ماہ شمالی لندن میں چھاپوں کی ایک سیریز کے دوران تقریباً 2ہزار چوری شدہ فونز اور 2لاکھ پاؤنڈ نقدی برآمد کی۔ یہ کارروائیاں ان دکانداروں اور درمیانی سطح کے خریداروں کے خلاف کی گئیں جو چوری شدہ فونز کو ہانگ کانگ، چین اور الجزائر جیسی منڈیوں میں بھیجنے والے نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ پولیس کو یہ نیٹ ورک اس وقت بے نقاب ہوا جب گزشتہ دسمبر میں ایک خاتون نے اپنے آئی فون کی لوکیشن ایپ کے ذریعے ہیتھرو ائیررپورٹ کے قریب ایک گودام تک پہنچنے کا سراغ دیا جس کے بعد وہاں سے ہانگ کانگ روانہ ہونے والے کنٹینرز میں ایک ہزار چوری شدہ آئی فونز برآمد کیے گئے۔ سینئر ڈیٹیکٹو مارک گوئن کے مطابق یہ جرم کسی انفرادی چور کا کام نہیں بلکہ صنعتی پیمانے پر منظم کاروبار ہے، چوری شدہ فونز غیر ملکی منڈیوں میں 5 ہزار ڈالر تک فروخت ہوسکتے ہیں۔ پولیس کے مطابق جرائم کا نیٹ ورک 3 درجوں پر مشتمل ہے، نچلی سطح پر وہ چور جو زیادہ تر ای بائیکس پر سوار ہو کر فون چھینتے ہیں، درمیانی سطح پر دکاندار اور خریدار جو یہ فون خرید کر آگے بیچتے ہیں جب کہ اعلیٰ سطح پر وہ ایکسپورٹرز جو انہیں غیر ملکی منڈیوں میں بھیجتے ہیں۔

انٹرنیشنل ڈیسک گلزار

متعلقہ مضامین

  • عالمی منڈیوں کیلیے اُمید کی کرن: امریکا اور چین اگلے ہفتے نئے تجارتی مذاکرات کے لیے متفق
  • امریکا اور چین اگلے ہفتے نئے تجارتی مذاکرات پر متفق، محصولات کی جنگ ٹالنے کی کوشش
  • امریکا اور چین اگلے ہفتے نئے تجارتی مذاکرات پر متفق
  • قومی ایئر لائن کی نجکاری اگلے ماہ مکمل ہونے کی توقع ہے، سیکریٹری دفاع
  • لندن میں اگلے سال خودکار ٹیکسی سروس متعارف کرانے کی تیاری
  • لندن میں گزشتہ برس 80 ہزار موبائل چوری ہونے کا انکشاف
  • اے سی پی آیل کے اکثریتی حصص کا مجوزہ منصوبہ باضابطہ طور پر واپس لے لیا گیا
  • لندن فلم فیسٹیول میں سرپرائز انٹری، بروس اسپرنگسٹین کی اپنی کہانی پر مبنی فلم کی رونمائی
  • ’’اپنی چھت اپنا گھر‘‘ منصوبہ: اکتوبر تک ایک لاکھ خاندانوں کو قرضوں کی فراہمی کا ہدف