ابراہیم معاہدہ یا اسرائیل کی تسلیم: ہماری ریڈ لائن
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا کی سیاست ایک بار پھر اْس موڑ پر آن پہنچی ہے جہاں ایمان، غیرت اور اصولوں کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی تپش ایک بار پھر عالمی سیاست کے مرکز میں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ایک بار پھر نئی سیاسی بساط بچھانے میں مصروف ہیں۔ فاکس بزنس نیٹ ورک کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں ٹرمپ نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب ابراہام معاہدے میں شمولیت کے لیے تیار ہے۔ یہ خبر اگر درست ہے تو یہ صرف ایک سفارتی پیش رفت نہیں بلکہ مسلم دنیا کے اجتماعی شعور پر ایک گہرا زخم ہے۔ ٹرمپ کے مطابق غزہ جنگ کے دوران سعودی عرب اس معاہدے میں شامل نہیں ہو سکا تھا لیکن اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ ان کے بقول، ایران کی طاقت میں کمی اور اسرائیلی جارحیت کے بعد خطے میں ایک نئی ’’صف بندی‘‘ ابھر رہی ہے جس میں سعودی عرب کی شمولیت خطے میں امن و استحکام کے نئے امکانات پیدا کر سکتی ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ امریکا کی خارجہ پالیسی میں مشرقِ وسطیٰ ہمیشہ سے اسرائیل کے مفادات کے گرد گھومتی رہی ہے۔ ’’ابراہام معاہدے‘‘ کے نام پر جو منصوبہ پیش کیا گیا تھا وہ دراصل فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے اور عرب دنیا کو اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش تھی۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان اس جال میں پھنس چکے ہیں۔ اب کوشش یہ ہے کہ سعودی عرب بھی اس قافلے میں شامل ہو جائے تاکہ فلسطین مکمل طور پر تنہا ہو جائے۔ یہ معاہدے دراصل ’’امن‘‘ کے نام پر غلامی کی دستاویزات ہیں جن کے ذریعے اسرائیل کو خطے کا مرکزی کردار دینے کا خواب پورا کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی خطہ ہے جہاں لاکھوں بے گناہ فلسطینی پچھلے پچھتر برس سے ظلم، جبر اور قبضے کے خلاف قربانیاں دے رہے ہیں۔ بیت المقدس کی گلیاں آج بھی شہید بچوں کے خون سے تر ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مظالم نے انسانیت کو شرما دیا ہے۔ غزہ کے حکام کے مطابق قابض فوج نے شہدا کی لاشوں سے انسانی اعضا تک چوری کیے ہیں۔ ریڈ کراس کے ذریعے واپس کی گئی 120 لاشوں میں سے اکثر کی حالت انتہائی ابتر تھی۔ ان پر تشدد کے آثار، بندھی ہوئی آنکھیں، گلے پر رسی کے نشانات، اور باندھ کر قتل کیے جانے کے ثبوت موجود تھے۔ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ادارے اور مغربی حکومتیں ان جرائم پر خاموش ہیں کیونکہ قاتل اسرائیل ہے اور مقتول مسلمان ہے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس اب اقوامِ متحدہ میں ایک نئی قرارداد پیش کرنے جا رہے ہیں جس کے تحت ’’غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس‘‘ تعینات کی جائے گی۔ بظاہر یہ امن کے قیام کی بات ہے مگر درحقیقت یہ اسرائیل کے قبضے کو قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے۔ جب عالمی طاقتیں خود ظالم کے ساتھ کھڑی ہوں تو انصاف کی کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ اسی تناظر میں پاکستان کے عوام اور قیادت پر بھی ایک بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ریڈ لائنز واضح کریں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہی فلسطین کے اصولی مؤقف پر رکھی گئی تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ یہی مؤقف پاکستان کے عوام کے دل کی دھڑکن ہے۔ یہی ریڈ لائن ہے جسے پار کرنا کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امیر ِ جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے بجا طور پر اور کئی بار کہا کہ حکومت کا اسرائیل کو تسلیم کرنا یا ابراہام معاہدے کی طرف بڑھنا ہماری ریڈ لائن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دو ریاستی فارمولہ قبول نہیں، کیونکہ یہ ریاست ِ پاکستان کا مؤقف نہیں بلکہ صہیونی منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں متنبہ کیا کہ اگر کسی حکومت نے ابراہامی معاہدے کی طرف کوئی قدم بڑھایا تو قوم راستہ روکے گی، عوام کی طاقت آپ کو خاک میں ملا دے گی۔ یہ اعلان صرف امیر جماعت کا نہیں بلکہ اس قوم کے شعور کی علامت ہے جو نظریاتی بنیادوں پر وجود میں آئی تھی۔ حافظ نعیم الرحمن کا یہ کہنا کہ ’’اسرائیل یا امریکا کی غلامی کا نہیں سوچیں بلکہ حماس کی پشت پر کھڑے ہوں‘‘ امت ِ مسلمہ کے دل کی آواز ہے۔ حماس کوئی عام تنظیم نہیں، وہ مظلوموں کی آواز ہے۔ وہ ان مائوں کی دعا ہے جن کے بیٹے بیت المقدس کے دفاع میں شہید ہوئے۔ وہ ان نوجوانوں کی امید ہے جو ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہیں۔ حماس کی مزاحمت دراصل ایمان کی قوت کا استعارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا اسے دہشت گردی کا نام دیتی ہے۔ پاکستان میں بھی عوام کا یہی احساس غالب ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا دراصل اپنے نظریاتی تشخص کو دفن کرنا ہے۔ امیر ِ جماعت اسلامی کا اس پس منظر میں یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ مسلم ملکوں پر قابضین براجمان ہیں، ان سے قبضہ چھڑوانا ہے۔ امریکا نے پاکستان کو آج تک کیا دیا؟ صرف قرضے، مہنگائی، اور معاشی بدحالی۔ ہمارے حکمران واشنگٹن کی خوشنودی کے لیے اپنی خودمختاری گروی رکھتے ہیں۔ ہم نے اپنی معیشت کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں پھنسا دیا ہے، جس کا نتیجہ عوام کی غربت اور بے بسی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ امریکا زوال پذیر قوت ہے اور دنیا میں طاقت کے مراکز تبدیل ہو رہے ہیں۔ چین، روس، ایران اور ترکی اب عالمی طاقت کے نئے محور بن کر ابھر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر ہم اب بھی امریکا یا اسرائیل کے قدموں میں بیٹھنے کی کوشش کریں تو یہ ہماری سیاسی بصیرت نہیں بلکہ قومی خودکشی ہوگی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو قرآن و سنت اور قائد اعظم کے نظریات کے مطابق استوار کریں۔ ہمیں اپنے عوام کے ایمان اور اصولی موقف پر اعتماد کرنا چاہیے۔ اگر حکومتیں امت کے جذبات کے خلاف فیصلے کریں گی تو انہیں عوامی ردعمل کا سامنا کرنا ہوگا۔ آج امت ِ مسلمہ ایک فیصلہ کن مرحلے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف امریکا اور مغربی طاقتوں کی غلامی کا راستہ ہے جو ہمیں ایمان، خودداری اور غیرت سے محروم کر دے گا۔ دوسری طرف مزاحمت، عزیمت اور حریت کا راستہ ہے جسے فلسطینی خون سے روشن کر رہے ہیں۔ پاکستان کا ہر با شعور شہری جانتا ہے کہ ہم اپنی اساس سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ ہم اس راستے پر نہیں چل سکتے جو بیت المقدس کی آزادی کے بدلے تل ابیب کے جھنڈے کو سلامی دینے کا تقاضا کرے۔ اس وقت یہی ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم نہ کریں۔ یہ صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری امت ِ مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ آج اگر بیت المقدس خاموش ہے تو کل مکہ و مدینہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ نعیم الرحمن کا اعلان وقت کی آواز ہے۔ اگر کسی حکومت نے ابراہام معاہدے کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کی تو عوام خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ یہ قوم اپنے نظریاتی تشخص کے تحفظ کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔ دنیا کی طاقتیں بدل رہی ہیں، لیکن حق کا معیار نہیں بدلتا۔ ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ایمان کی علامت ہے۔ آج اگر ہم نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو یہ صرف فلسطین کی شکست نہیں بلکہ پوری امت ِ مسلمہ کی شکست ہوگی۔ پاکستان کے عوام کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں، ہم سب کا ہے۔ بیت المقدس امت ِ مسلمہ کا دل ہے۔ اگر یہ دل زخمی ہے تو پوری امت بیمار ہے۔ اور جب تک یہ زخم مندمل نہیں ہوتا، کوئی امن، کوئی معاہدہ، کوئی ابراہامی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ امت کی بیداری، مزاحمت اور ایمان ہی اس اندھیری رات کا واحد چراغ ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: حافظ نعیم الرحمن ابراہام معاہدے بیت المقدس اسرائیل کو اسرائیل کے نہیں بلکہ کو تسلیم کی کوشش کا نہیں رہے ہیں نہیں ہو کے لیے
پڑھیں:
کراچی میں 6 دسمبر سے شروع ہونے والے 35 ویں نیشنل گیمز کھٹائی میں پڑنے کا امکان
کراچی:کراچی میں 6 دسمبر سے شروع ہونے والے 35 ویں نیشنل گیمز کھٹائی میں پڑنے کا امکان ہے۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ نے سندھ حکومت کو تحریری طور پر اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا، پی ایس بی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر برائے نیشنل فیڈریشنز کی جانب سے سندھ حکومت کے سیکرٹری کھیل کو تحریر کیے جانے والے خط میں استدعا کی گئی ہے کہ نیشنل گیمز میں حقیقی اور تسلیم شدہ کھیلوں کی تنظیموں اور آفیشلز کو مواقع فراہم کیے جائیں۔
پی ایس بی کی جانب سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نیشنل گیمز میں مبینہ طور پر غیر قانونی فیڈریشنز کو شامل کیا گیا ہے، 13 دسمبر تک جاری رہنے والے نیشنل گیمز میں کچھ کھیل ایسی باڈیز یا افراد کی زیر نگرانی منعقد کرائے جا رہے ہیں جن کو پی ایس بی یا متعلقہ بین الاقوامی فیڈریشن تسلیم نہیں کرتیں۔
خط میں توجہ دلائی گئی ہے کہ ویٹ لفٹنگ فیڈریشن پر پی ایس بی کی جانب سے پابندی عائد ہے جبکہ ڈوپنگ معاملات کی خلاف ورزی کے سبب اسے انٹرنیشنل فیڈریشن بھی تسلیم نہیں کرتی، ممنوعہ ادویات کے استعمال پر پابندی کا شکار ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کو نیشنل گیمز میں شامل کیا گیا ہے، مسلسل خلاف ورزیوں پر پابندی عائد ہونے کے باوجود بیرون ملک مقیم بیس بال کے فخر زمان کا مبینہ طور پر مقابلوں کے انعقاد میں عمل دخل ہے۔
پی ایس بی کے تحت پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن کے انتخابات تسلیم کرنے کی بجائے غیر قانونی اور غیر تسلیم شدہ باڈی کے تحت ایونٹ منعقد کرایا جا رہا ہے، ایتھلیٹکس فیڈریشن کے انتخابات کو غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے لیکن نیشنل گیمز میں ایتھلیٹکس مقابلے قائم کردہ الگ کمیٹی کے تحت کرائے جا رہے ہیں۔
پی ایس بی نے سندھ حکومت سے استدعا کی ہے کہ مذکورہ معاملات کا فوری طور پر جائزہ لیا جائے اور نظر ثانی کرتے ہوئے نیشنل گیمز میں قانونی فیڈریشنز اور آفیشلز کو ہی شرکت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔