افغان مہاجرین کی واپسی، آزاد کشمیر حکومت نے حتمی ٹائم فریم مقرر کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر نے ایک اہم انتظامی اقدام کے تحت ریاست بھر میں مقیم تمام افغان مہاجرین کو 18 نومبر 2025 تک ملک بدر کرنے کا حتمی حکم جاری کردیا ہے۔
اس سلسلے میں دفترِ انسپکٹر جنرل پولیس آزاد کشمیر کی جانب سے تمام ضلعی پولیس افسران کو باضابطہ ہدایات پر مبنی سرکلر ارسال کیا گیا ہے۔
افغان مہاجرین کا آزاد کشمیر سے انخلاء،،
۔18 نومبر کی ڈیڈ لائن دے دی گئی۔18 نومبر کے بعد جس علاقے میں افغان مہاجرین کا انخلاء مکمل نہیں ہو گا اس تھانہ کے ایس ایچ او اور سپیشل برانچ کے ایریا آفیسر کو ملازمت سے برخاست کر دیا جائے گا انسپکٹر جنرل پولیس آذاد کشمیر کا نوٹیفکیشن جاری.
— Shoukat ali khokhar (@shoukatkhokher) October 20, 2025
سرکلر میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں موجود افغان شہریوں کی وطن واپسی کے لیے 18 نومبر آخری تاریخ ہوگی۔ اس کے بعد کسی بھی افغان باشندے کو آزاد کشمیر کی حدود میں غیر قانونی قیام کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور ڈیپورٹیشن کا عمل ہر صورت مکمل کیا جائے گا۔
آئی جی پولیس نے تمام ایس ایس پیز اور ایس پیز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس عمل کو مکمل کرکے مقررہ مدت میں رپورٹ پیش کریں۔ سرکلر کے مطابق ہر ضلع کا پولیس سربراہ ڈیپورٹیشن آپریشن کی براہ راست نگرانی کا ذمہ دار ہوگا۔
حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈیڈ لائن کے بعد اگر کسی افغان شہری کو آزاد کشمیر کے کسی بھی علاقے میں مقیم پایا گیا تو متعلقہ ایس ایچ او، پناہ دینے والے شہری اور نگران افسران کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی، جس میں نوکری سے برخاستگی سمیت دیگر قانونی اقدامات شامل ہوں گے۔
دستاویز میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ تمام ضلعی پولیس افسران سہ ماہی بنیاد پر ڈیپورٹیشن کی پیش رفت رپورٹ آئی جی کے دفتر بھجوانے کے پابند ہوں گے تاکہ اس پورے عمل کی مؤثر نگرانی ممکن ہو۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی پولیس کی کارروائی، افغان مہاجرین کے خالی کیے گئے گھر مسمار کردیے
اعلان میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ فیصلہ آزاد کشمیر سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے مکمل اخراج کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔
تمام اضلاع کے پولیس افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی حدود میں موجود افغان شہریوں کی شناخت، تصدیق اور وطن واپسی کے انتظامات بروقت مکمل کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آزاد کشمیر حکومت افغان مہاجرین کی واپسی اہم فیصلہ وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا زاد کشمیر حکومت افغان مہاجرین کی واپسی اہم فیصلہ وی نیوز افغان مہاجرین گیا ہے کہ
پڑھیں:
بسنت کی واپسی: خوشیوں کی بہار یا خطرات کا نیا موسم؟
پچیس سال بعد پنجاب حکومت نے بسنت اور پتنگ بازی کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ اعلان سنتے ہی لاہور کی فضا جیسے ایک پرانی یاد سے بھرگئی، گلیوں میں شور، چھتوں پر رنگ اور بہار کے استقبال کا وہ مخصوص جوش۔ مگر اس خوشی کے ساتھ ایک تلخ حقیقت بھی جڑی ہوئی ہے... وہ سب حادثات، زخمی بچے، کٹے گلے، اور بے شمار جانیں، جن کی وجہ سے یہ کھیل پابندی تک جا پہنچا تھا۔
حکومت نے اس بار بڑے دعوے کیے ہیں۔ ’’صرف سوتی ڈور‘‘ چلے گی، ہر پتنگ اور ڈور پر کیو آر کوڈ ہوگا، دکاندار سے لے کر بنانے والے تک سب کی رجسٹریشن لازمی۔ دھاتی یا کیمیکل ڈور بنانے اور بیچنے والوں کے لیے تین سے پانچ سال قید اور بھاری جرمانے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے لیے پتنگ اُڑانے پر پابندی، خلاف ورزی پر والدین کو جرمانہ۔ کاغذ اور فریم کے سائز تک ضابطے میں۔ وغیرہ وغیرہ۔
کاغذ پر یہ سب کافی مضبوط لگتا ہے۔ مگر سوال وہی پرانا ہے کہ کاغذ کے ضابطے چھتوں پر اُڑتی پتنگ کو واقعی کنٹرول کرسکتے ہیں؟
اس ملک میں قانون لکھنے والوں کا ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے۔ قانون بنتا ہے، عملدرآمد کہیں ہوا نظر نہیں آتا۔ ’’انسداد پتنگ بازی ایکٹ‘‘ بھی لاکھوں گرفتاریوں اور ہزاروں ضبطی کارروائیوں کے باوجود کاغذ ہی میں رہا۔ پتنگیں ضبط ہوئیں، بچے پکڑے گئے، مگر ’’قاتل ڈور‘‘ بنانے والوں پر ہاتھ ڈالنے کی باری کبھی نہیں آئی۔ بازار میں مال آسانی سے دستیاب رہا، اور اوپر کہیں نہ کہیں ’’اوپری کمائی‘‘ کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔
پتنگ کٹنے پر ’’بوکاٹا‘‘ کی آوازیں لگانے والے، انسانی گلا کٹنے پر خاموش رہے۔
یہ تضاد پاکستانی معاشرے کا اصل المیہ ہے۔ عملاً حادثات روکے نہیں گئے۔ فیصل آباد سے لاہور تک درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے، بائیک چلانے والے گلے پر ڈور لگنے سے زخمی، بعض مستقل معذور، بعض کی جان تک چلی گئی۔ حکومت پابندی لگاتی رہی، عوام قانون توڑتے رہے، اور درمیان میں اعداد و شمار بڑھتے گئے۔
اس بار بھی حکومت ایک بڑے جشن کا اشارہ دے رہی ہے۔ بسنت کو ’’ثقافتی میل‘‘ کا درجہ مل چکا ہے۔ سیاحتی آمدنی، کاروبار، میڈیا کوریج، سب کچھ۔ لیکن اگر ہیلمٹ پر حفاظتی راڈ نہ ہو، اگر ڈور کی پیمائش نہ چیک ہوئی، اگر چھتوں پر اندھا دھند مقابلے شروع ہوئے، تو کیا پھر وہی کہانی نہیں دہرائی جائے گی؟
اصل خطرہ پتنگ نہیں ہے۔ خطرہ وہ ’’منافقت‘‘ ہے جس میں سستی شہرت، مقابلے کی ضد، غیر قانونی ڈور اور لاپرواہی شامل ہیں۔ پتنگ تو ایک کاغذ ہے۔ جان اس وقت جاتی ہے جب شوق عقل سے تجاوز کر جائے۔
حکومت کہتی ہے کہ اس بار سب کچھ ریگولیٹڈ ہوگا۔ مگر عملدرآمد صرف بیانوں سے نہیں ہوتا۔ پنجاب میں قانون کاغذ پر ہمیشہ مضبوط رہا، مگر گلی میں کمزور۔ یہی وجہ ہے کہ بسنت پر تنقید بھی ضروری ہے۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو... دھاتی یا کیمیکل ڈور بنانے والوں کے خلاف اصل کارروائی ہو، پولیس چھتوں پر دوڑتے بچوں کے بجائے مینوفیکچرنگ نیٹ ورک پکڑے، پتنگ بازی کےلیے مخصوص اور محفوظ مقامات مختص ہوں، موٹرسائیکل سواروں کے لیے حفاظتی راڈ اور ماسک ضروری ہوں، مانیٹرنگ ٹیمیں صرف کاغذی نہ ہوں بلکہ میدان میں نظر آئیں۔ ورنہ تاریخ خود کو دہرانے میں دیر نہیں لگاتی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم معاشرہ زیادہ تلخ ہوتا ہے۔ شاید بسنت کی واپسی لوگوں کو کچھ رنگ، کچھ تفریح واپس دے۔ مگر کھیل، کھیل رہنا چاہیے، کسی کا سوگ نہیں بننا چاہیے۔
بہت سال پہلے بسنت لاہور کی پہچان تھی۔ نیلے آسمان پر پیلے، نیلے، گلابی رنگ لہراتے تھے۔ چھتوں پر ہنسی تھی، گلیوں میں دوڑتے قدم تھے۔ اب ڈر یہ ہے کہ کہیں اس ہنسی میں پھر چیخیں شامل نہ ہوجائیں۔ اگر حکومت صرف اجازت دے کر خاموش بیٹھ گئی، اگر ضابطے صرف اشتہار تک رہے، تو پھر ’’بہار کے انتظار‘‘ میں شہر دوبارہ خون سے نہ بھر جائے۔ بسنت کو واپس لانا شاید آسان ہے۔ مگر بسنت کو محفوظ رکھنا سب سے مشکل کام ہے۔
وقت بتائے گا کہ یہ فیصلہ جشن کی بہار لایا یا خطرات کی ہوا۔ ابھی کےلیے ایک ہی دعا کی جا سکتی ہے کہ پتنگیں آسمان میں اُڑیں، اور انسان سلامت رہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔