غزہ: عالمی ضامنوں کے لیے لمحہ ٔ فکر
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251021-03-2
غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے ہونے والے معاہدے سے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا ان خدشات کے عین مطابق اسرائیل نے اتوار کے روز جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنوبی غزہ کو متعدد فضائی حملوں کا نشانہ بنایا، اسرائیل نے الزام لگایا ہے کہ حماس کی جانب سے اتوار کی صبح جنگ بندی کی خلاف ورزی کے جواب میں اس نے غزہ کے جنوبی علاقوں میں درجنوں اہداف پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے اور حماس کی زیر استعمال ایک سرنگ کو 120 راکٹوں سے نشانہ بنایا ہے۔ واضح رہے کہ دو سال تک جاری رہنے والی اسرائیلی بمباری اور جارحیت امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی میں طے پانے والی جنگ بندی، 13 اکتوبر کو نافذ ہوئی تھی، جس کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تباہ کن جنگ رک گئی تھی۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے نے وسطی غزہ کے البریج مہاجر کیمپ میں ایک مکان کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ ایک اور فضائی حملے میں خان یونس کے شمال مغرب میں واقع اسدا علاقے میں بے گھر افراد کے خیمے کو نشانہ بنایا گیا جس میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ اسرائیلی توپ خانے نے جنوبی غزہ کے خان یونس کے مشرقی علاقوں عبسان اور الزنہ پر بھی گولہ باری کی۔ جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی فوج کے غزہ پر فضائی حملوں میں اتوار سے اب تک 45 فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں۔ جنگ بندی نافذ ہونے کے بعد اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غزہ میں اب تک کل 98 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ یہ حملے حماس کی جانب سے ان کے اہلکاروں پر حملوں کے جواب میں کیے گئے تاہم حماس نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کردیا کہ اسرائیل جنگ دوبارہ شروع کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ رفح کراسنگ کی بندش یرغمالیوں کی لاشوں کی حوالگی میں تاخیر کا سبب بن رہی ہے‘ یرغمالیوں کی لاشوں کی حوالگی رفح کراسنگ کھلنے سے مشروط ہے۔ غزہ میں 45 فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد اسرائیلی فوج نے تازہ بیان جاری کیا کہ حماس کے اہداف پر فضائی حملوں کے بعد غزہ میں جنگ بندی دوبارہ نافذ کر دی گئی ہے۔ اس صورتحال پر حماس رہنما خلیل الحیہ کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی وفد قاہرہ پہنچ گیا جہاں وہ رواں ماہ شرم الشیخ میں طے پانے والے سیز فائر معاہدے پر عمل درآمد کے معاملات پر مصری حکام کے ساتھ بات چیت کرے گا۔ ادھر امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر جیرڈ کْشنر پیر کے روزاسرائیل پہنچیں گے جبکہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس منگل کو اسرائیل پہنچیں گے۔ رپورٹس کے مطابق تینوں امریکی حکام اپنے دورے کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور دیگر اعلیٰ اسرائیلی حکام سے ملاقاتیں کریں گے تاکہ غزہ میں جنگ بندی کے امریکی فریم ورک کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ادھر اسرائیلی وزیردفاع نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوج کو غزہ میں حماس کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا ہے، اسرائیلی وزیردفاع نے دھمکی دی ہے کہ حماس کو ایک بار پھر سبق سکھایا جائے گا، وزیردفاع کا کہنا تھا کہ انہوں نے فوج کو اسرائیلی شہریوں کی حفاظت کے احکامات دے دیے ہیں، دوسری جانب اسرائیلی فوج نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ میں امداد کے داخلے پر مکمل پابندی عائد کردی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق حکومت نے اسرائیلی فوج کو غزہ میں امداد کے داخلے پر تاحکم ثانی پابندی عائد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ پابندی حماس کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے باعث عائد کی گئی ہے۔ یوں تو غزہ میں جارحیت اور انسانی حقوق کی مسلسل پامالی اور یرغمالیوں کی بزورطاقت عدم بازیابی اور نیتن یاہو کے جنگی جنون کے خلاف اسرائیل کے عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ صہیونی قیادت کسی طور جنگ بندی پر آمادہ نہیں، خود نیتن یاہو اپنی سیاسی مجبوریوں اور داخلی دباؤکے زیر اثر ہیں، اگلے مرحلے کے لیے غزہ میں جارحیت کے مکمل خاتمے، اسرائیلی فوج کے انخلا اور طویل المدتی جنگ بندی کی تجویز وہ پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں، یہ اس امر کی کھلی دلیل ہے کہ وہ جنگ بندی کا نفاذ نہیں چاہتے، وہ غزہ سے حماس کے مکمل خاتمے یا اسے غیر مسلح کرنے کے آرزو مند ہیں، نیتن یاہو کھل کر کہہ چکے ہیں کے وہ غزہ جنگ بندی کے معاہدے پر اْس وقت تک آگے نہیں بڑھیں گے جب تک حماس کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود اسرائیل کو اس کی خلاف ورزی کرنے کی ہمت محض اس وجہ سے ہوئی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بیس نکاتی امن معاہدہ پیش کیا ہے اس کی کسی شق میں بھی واضح طور پر اس امر کی بابت بات نہیں کی گئی کہ خلاف ورزی کی صورتحال میں کیا لائن آف ایکشن ہوگا، اس حوالے سے معاملہ صرف نیتن یاہو کے کردار و عزائم اور سیاسی مجبوریوں ہی کا نہیں ہے خود معاہدے میں موجود اسقام، ضامنوں کا کردار اور دیگر کئی اہم پیچیدہ مسائل کا بھی ہے۔ یہ معاہدہ عارضی جنگ بندی کا باعث تو بن گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدے کی خلاف ورزی پر کوئی واضح لائحہ عمل نہیں دیا گیا، معاہدے میں بین الاقوامی نگرانی اور مکمل عمل درآمد کا تو ذکر ہے مگر خلاف ورزی پرکوئی قانونی یا فوجی کارروائی کا ذکر نہیں، اسی لیے دنیا بھر کے مبصرین اور تجزیہ نگار اس معاہدے اور اس پر عمل درآمد کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، معاہدے میں انسانی امداد کی بحالی کا تو ذکر ہے مگر اس امداد پر پابندی کی صورت میں ثالث کیا کردار ادا کریں گے اس کا کہیں ذکر نہیں، ٹرمپ کے امن پلان میں اسرائیل کو مکمل طور پر تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات کیے گئے، جبکہ فلسطینیوں کے حقوق بالخصوص حق ِ خود ارادیت کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا، غرض اس نوع کے ابہام کی وجہ سے اس کا مکمل فائدہ اسرائیل اٹھا رہا ہے۔ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران متعدد مرتبہ اقوامِ متحدہ میں جنگ بندی کی قرار داد پیش کی گئی مگر ہر مرتبہ امریکا نے اس قرارداد کو ویٹو کر کے ثابت کیا کہ وہ کسی طور اسرائیل کی حمایت اور سرپرستی سے باز نہیں آنے والا، خود ٹرمپ ڈھٹائی سے اعتراف کرچکے ہیں کہ اسرائیل نے جنگ کے لیے درکار جتنے فوجی ساز و سامان کی خواہش ظاہر کی امریکا نے وہ پوری کی اگر ڈونلڈٹرمپ غزہ میں حقیقتاً جنگ بندی کے خواہاں ہوتے تو اقوامِ متحدہ میں اس کے نمائندے کبھی ویٹو نہ کرتے، ان کے بیس نکاتی امن پلان کے پیچھے کیا عزائم تھے وہ کسی سے مخفی نہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے مسلم حکمران امریکا کے جھانسے میں آگئے اور ایک ایسے معاہدے پر آمادہ ہوگئے جو فلسطین پر امت مسلمہ کے اصولی اور دیرینہ موقف سے کسی طور ہم آہنگ نہیں، اگر امریکی صدر اور معاہدے کے ضامن فی الواقع غزہ میں قیامِ امن کے خواہاں ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ معاہدے میں موجود ابہام کو دور کریں، اسرائیلی جارحیت کے سد ِ باب کے لیے بین الاقومی فورس تشکیل دیں، جنگ بندی کی حالیہ خلاف ورزی، رفح کراسنگ کی بندش کا نوٹس لیں اور مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے دوسرے دور کا آغاز کریں جو فلسطینی عوام کی امنگوں اور خواہشوں کا ترجمان ہو۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج کی خلاف ورزی جنگ بندی کے جنگ بندی کی معاہدے میں نیتن یاہو کرتے ہوئے حماس کے کرنے کے حماس کی کے بعد کے لیے
پڑھیں:
فلسطین کے ہر غدار کا انجام ابوشباب جیسا ہی ہوگا، حماس
بیان میں مزید کہا گیا کہ صہیونی دشمن جو اپنے ہی کارندوں کی حفاظت سے عاجز ہے، "کسی بھی مزدور یا اپنے اطراف کے افراد کی حفاظت نہیں کر سکتا۔" حماس نے فلسطینی خاندانوں، قبائل، عشائر اور قومی اداروں کی وحدت کو "فلسطینی سماج کے اندرونی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی تمام کوششوں کے مقابل ایک حفاظتی والو" قرار دیا۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے غزہ کے جنوب میں اسرائیل کے لئے کام کرنے والے مزدور یاسر ابو شباب کی ہلاکت پر پہلی ردّعمل میں کہا ہے کہ اس کا انجام ہر اس شخص کا حتمی مقدر ہے جو اپنی قوم اور وطن سے غداری کرے۔ حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ یاسر ابو شباب کا انجام ہر اُس شخص کا یقینی انجام ہے جو اپنے لوگوں سے خیانت کرے اور قابض دشمن کا آلہ کار بن جائے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ صہیونی دشمن جو اپنے ہی کارندوں کی حفاظت سے عاجز ہے، "کسی بھی مزدور یا اپنے اطراف کے افراد کی حفاظت نہیں کر سکتا۔" حماس نے فلسطینی خاندانوں، قبائل، عشائر اور قومی اداروں کی وحدت کو "فلسطینی سماج کے اندرونی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی تمام کوششوں کے مقابل ایک حفاظتی والو" قرار دیا۔ تحریک نے فلسطینی قبائل اور خاندانوں کے مؤقف کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک "منحرف اور تنہا گروہ" سے اپنا سماجی و قبائلی تحفظ واپس لے کر ایک مرتبہ پھر فلسطین کے قومی مفادات سے اپنی وفاداری ثابت کی ہے۔
دوسری جانب صہیونی ویب سائٹ وائی نیٹ نے بتایا کہ یاسر ابو شباب دراصل اپنے ہی گروہ کے چند افراد کے ساتھ "باہمی اختلاف" کے نتیجے میں ہونے والی مارپیٹ کے باعث ہلاک ہوا۔
ان ذرائع کے مطابق قابض فورسز نے اسے علاج کے لیے "فوری طور پر" غزہ سے باہر منتقل کیا۔ مگر وہ بئر السبع کے سوروکا اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گیا۔ صہیونی سکیورٹی اداروں نے اندازہ لگایا ہے کہ ابو شباب کی موت حماس کی حیثیت کو غزہ میں مزید مضبوط کرے گی اور اسرائیلی منصوبوں کو کمزور کرے گی، جن کا مقصد تھا کہ حماس کے متبادل کے طور پر مقامی مسلح گروہوں کو "حکومتی یا عسکری متبادل" کے طور پر استعمال کیا جائے۔
وائی نیٹ کے مطابق جنگ کے دوران اسرائیل نے جنوبی رفح میں حماس مخالف اس گروہ کے سربراہ کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اکتوبر میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد تل ابیب میں یہ خدشات پیدا ہوئے کہ غزہ میں حماس اور اسرائیل کے بنائے گئے گروہوں کے درمیان طاقت کی کشمکش بڑھ سکتی ہے۔ اس سے قبل تل ابیب کے چینل 14 نے اطلاع دی تھی کہ ابو شباب شمالی رفح میں فائرنگ کے ایک واقعے میں ہلاک ہوا۔ اس نیٹ ورک کے مطابق ابو شباب کو اس کے اپنے گروپ کے ایک فرد نے قتل کیا، جو صرف چند دن پہلے اس کے گروہ میں شامل ہوا تھا۔ واقعے کے وقت اس کا نائب غسان دہینی اور گروہ کے کئی افراد موقع پر موجود تھے۔