data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(کامرس رپورٹر) ٹھٹھہ سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ نے اعلان کیا ہے کہ اس کی مکمل ملکیتی ذیلی کمپنی، مِنسک ورک ٹریکٹر اینڈ اسمبلنگ (پرائیویٹ) لمیٹڈ، نے بیلاروس میں واقع او جے ایس سی مِنسک ٹریکٹر ورکس کے ساتھ بلوچستان میں بیلاروس ٹریکٹرز کو اسمبل کرنے اور مقامی طور پر تیار کرنے کے لیے خصوصی معاہدہ کیا ہے۔پی ایس ایکس کو ارسال کردہ نوٹس میں کمپنی نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت او جے ایس سی مِنسک ٹریکٹر ورکس نے ایم ڈبلیو ٹی اے کو بلوچستان میں بیلاروس ٹریکٹرز کی اسمبلنگ کے لیے خصوصی حقوق فراہم کیے ہیں۔

کامرس رپورٹر سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

ایران جوہری معاہدہ (JCPOA) ایک خلاصہ

اسلام ٹائمز: بارہ روزہ جنگ کے دوران امریکہ کے ایران کے ایٹمی پلانٹ نطنز اور فردو پر حملوں کو دیکھا جائے تو واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ برجام معاہدہ ایران کے ایٹمی پلانٹ کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ برجام معاہدے کی شرائط تھیں کہ افزودگی نطنز میں ہوگی، فردو میں کام معطل کر دیا جائے گا، عالمی ایٹمی ایجنسی ان سب امور کی مسلسل نگرانی کر رہی تھی۔ امریکا اور اسرائیل کے پاس ایران کے ایٹمی پلانٹ اور سائنسدانوں کے حوالے سے درست معلومات تھیں، جو عالمی ایٹمی ایجنسی نے نگرانی کے دوران جمع کیں۔ تحریر: سید اسد عباس

JCPOA جسے فارسی میں برجام بھی کہا جاتا ہے، ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے میں ایران پر عائد تجارتی اور اقتصادی پابندیوں میں کمی کا  معاہدہ تھا، جو 14 جولائی 2015ء کو ویانا میں ایران اور P5+1 ممالک (اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین چین، فرانس، روس، برطانیہ، امریکہ اور جرمنی) کے درمیان یورپی یونین کے ساتھ مل کر طے پایا۔ معاہدے کی باقاعدہ بات چیت کا آغاز نومبر 2013ء میں ایران اور P5+1 ممالک کے درمیان ایک عبوری معاہدے، جوائنٹ پلان آف ایکشن پر دستخط سے ہوا۔ اگلے 20 مہینوں تک مذاکرات جاری رہے، جس کے نتیجے میں اپریل 2015ء میں ایران جوہری معاہدے کا فریم ورک طے پایا اور بالآخر JCPOA اور عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ ایک روڈ میپ معاہدہ ہوا۔ برجام، عالمی ایٹمی ایجنسی کے روڈ میپ نیز ایران کے عمل درآمد کے آغاز کی توثیق کے بعد جنوری 2016ء کو نافذ ہوا۔ JCPOA کے تحت، ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو نمایاں طور پر محدود کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، تاکہ ہتھیاروں کے درجے کا یورینیم یا پلوٹونیم تیار کرنے کی صلاحیت کو کم کیا جا سکے۔

ایران نے اس معاہدے میں جو پابندیاں قبول کیں، درج ذیل تھیں: ایران 15 سال کی مدت میں اپنے کم افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو 10,000کلو گرام سے 300 کلو گرام تک کم کرے گا۔ افزودگی کی سطح کو 3.67 فیصد تک محدود کیا جائے گا، 5 فیصد اور 20 فیصد کے درمیان افزودہ شدہ یورینیم کو پگھلا دیا جائے گا، بیچا جائے گا یا تہران ریسرچ ری ایکٹر کے لیے ایندھن کی پلیٹوں میں تبدیل کیا جائے گا۔ معاہدے کے مطابق 10 سال کی مدت میں، ایران اپنے فعال سینٹری فیوجز کو 6,104 تک کم کرے گا، جن میں سے صرف 5,060 کو یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت ہوگی۔ افزودگی صرف نطنز پلانٹ تک محدود ہوگی اور صرف ایران کے پرانے اور کم کارگر IR-1 سینٹری فیوجز استعمال کیے جائیں گے۔ جدید سینٹری فیوجز کو گوداموں میں محفوظ کیا جائے گا اور IAEA کی نگرانی میں رکھا جائے گا۔ اراک ہیوی واٹر ریسرچ ری ایکٹر کو جدید بنایا جائے گا، تاکہ یہ 20 میگا واٹ تک محدود رہے، جس سے پلوٹونیم کی پیداوار کم ہو اور ہتھیاروں کے درجے کا پلوٹونیم حاصل نہ ہوسکے۔ استعمال شدہ ایندھن ملک سے باہر بھیجا جائے گا۔ فردو پلانٹ 15 سال تک یورینیم کی تحقیق اور افزودگی روک دے گا۔ اسے جوہری فزکس اور ٹیکنالوجی سینٹر میں تبدیل کیا جائے گا، جہاں چھ میں سے صرف دو سینٹری فیوجز مستحکم ریڈیو آئسوٹوپس کی پیداوار کے لیے استعمال ہوں گے۔

ایران نے معاہدے کے مطابق اپنے جوہری ایندھن سے متعلق سرگرمیوں کے لیے IAEA کے زیادہ سخت نگرانی کو قبول کیا۔ IAEA کو نطنز اور فردو جیسی جوہری تنصیبات تک 24 گھنٹے رسائی اور مسلسل نگرانی حاصل ہوئی۔ ایک جامع معائنہ نظام لاگو کیا گیا، جس میں ایڈیشنل پروٹوکول کا عارضی نفاذ شامل تھا۔ معاہدے کے مطابق IAEA کو ایران کی پوری جوہری سپلائی چین کی نگرانی کا حق حاصل تھا۔ ان وعدوں اور ان پر عمل کے بدلے میں، ایران کو اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکہ کی جانب سے عائد ایٹمی پابندیوں سے ریلیف ملنا تھا۔ ریلیف کے نتیجے میں ایران کو بیرون ملک منجمد اپنے تقریباً 100 بلین ڈالر کے اثاثے حاصل کرنے کا موقع ملا، تاہم امریکہ کی غیر جوہری پابندیاں جیسے میزائل پروگرام، دہشت گرد گروہوں کی حمایت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عائد پابندیاں برقرار رہیں، جس سے ریلیف کا اقتصادی اثر محدود ہوا۔

اگر دیکھا جائے تو برجام معاہدہ ایٹمی عدمِ پھیلاؤ کے معاملات کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ تھا۔ یہ معاہدہ  159 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں پانچ ضمیمے شامل تھے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلی بار کسی ترقی پذیر ملک کے جوہری افزودگی پروگرام کو تسلیم کیا اور ایک قرارداد (2231) کے فریم ورک کے اندر کثیر القومی معاہدے کی حمایت کی۔ معاہدے میں "اسنیپ بیک" طریقہ کار بھی شامل تھا، جس کے تحت اگر ایران معاہدے کی نمایاں طور پر خلاف ورزی کرتا ہے تو P5+1 ممالک میں سے کوئی بھی یکطرفہ طور پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کو خودکار طور پر دوبارہ نافذ کرسکتا ہے۔ 2018ء ٹرمپ کے پہلے دور اقتدار میں امریکہ یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکل گیا۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اگرچہ ایران حکومت کی جانب سے معاہدے میں قبول کردہ پابندیوں سے اختلاف رکھتے تھے، تاہم امریکا کے انخلاء کے بعد انھوں نے یورپ کو JCPOA کو جاری رکھنے کے لیے سات شرائط پیش کیں۔

ان میں سب سے اہم یہ تھی کہ یورپی طاقتیں ایرانی بینکوں کے ساتھ کاروباری تعلقات کو برقرار رکھنے اور ایرانی تیل کی خریداری کے لیے اقدامات کریں۔ اسی طرح ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور علاقائی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی۔ یورپ نے  برجام معاہدے کو بچانے یا امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے، 7 اگست 2018ء کو "بلاکنگ اسٹیٹیوٹ" نافذ کیا، تاکہ ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک کو امریکی پابندیوں سے بچایا جا سکے، تاہم امریکی پابندیاں نافذ ہوئیں اور ایران کو وہ اقتصادی و تجارتی فوائد حاصل نہ ہوسکے جو کہ برجام معاہدے کے تحت طے پائے تھے۔ جواب میں ایران نے دوسرے ممالک کو اضافی افزودہ یورینیم اور ہیوی واٹر کی فروخت روک دی اور دھمکی دی کہ اگر دیگر فریق اسے JCPOA کے اقتصادی فوائد سے مستفید ہونے کی اجازت نہیں دیتے تو وہ 3.67 فیصد سے زیادہ افزودگی دوبارہ شروع کر دے گا۔ برجام معاہدے میں درج اقتصادی فوائد کے حصول میں رکاوٹوں اور مشکلات کے سبب یکم جولائی 2019ء کو، ایران نے اعلان کیا کہ اس نے کم افزودہ یورینیم کے ذخیرے کی حد کو توڑ دیا ہے، جس کی IAEA نے تصدیق کی۔

5 نومبر 2019ء کو ایران نے فردو ایٹمی پلانٹ میں 5 فیصد تک یورینیم کی افزودگی کا اعلان ان الفاظ میں کیا کہ اس کے پاس پہلے ہی 20 فیصد تک افزودگی کی صلاحیت موجود ہے۔ 5 جنوری 2020ء کو، ایران نے اعلان کیا کہ وہ مزید معاہدے کی حدود پر عمل نہیں کرے گا، لیکن IAEA کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ بائیڈن دور اقتدار میں ایران اور امریکا میں مختلف ذرائع سے برجام کو دوبارہ نافذ کرنے کے حوالے سے مذاکرات ہوتے رہے، ایران کی پارلیمان نے بھی سابق صدر ایران رئیسی کو برجام معاہدہ کے دوبارہ نفاذ پر عمل درآمد کرنے کا کہا، تاہم ایسا نہ ہوسکا۔ برجام معاہدہ دس برس کی مدت کے لیے تھا، اس کے اختتام کی تاریخ 18 اکتوبر 2025ء مقرر تھی۔ اس روز سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے خاتمے کا دن تھا، یعنی اب کوئی ملک اسنیپ بیک یا یکطرفہ پابندیاں از سر نو لاگو نہیں کرسکتا تھا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یورپی ٹرائکا یعنی برطانیہ، جرمنی اور فرانس پہلے ہی اسنیپ بیک کے لیے درخواست کرچکے تھے۔ امید تو یہی ہے کہ ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ سے لاگو کر دی جائیں گی۔ فروری 2025ء میں سپریم لیڈر ایران آیت اللہ خامنہ ای نے جوہری معاہدے (JCPOA) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی مذاکراتی ٹیم نے ضرورت سے زیادہ نرمی دکھائی، جبکہ امریکہ نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے اور آخرکار معاہدے سے نکل گیا۔ ان کے مطابق JCPOA نے ایران پر سنیپ بیک کی صورت میں خطرے کی تلوار کو لٹکائے رکھا۔ سپریم لیڈر نے کہا کہ ایسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا نہ دانائی ہے، نہ عقلمندی، نہ ہی باعث عزت۔ ایران کے اصول پسند قائدین اور گروہ ابتداء سے ہی برجام معاہدے کے خلاف تھے۔ میرے علم کے مطابق ان کی مخالفت کی وجہ معاہدے کا کوئی تکنیکی پہلو یا سقم نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ پر عدم اعتماد تھا۔ اس کے باوجود ایرانی پارلیمان اور اعلیٰ قیادت نے اس معاہدے کو قبول کیا اور اس پر ریاستی سطح پر عملدرآمد کا آغاز بھی ہوا۔

معاہدے میں یہ سقم ابتداء سے موجود تھا کہ تمام شرائط اور پابندیاں ایران کے لیے تھیں، دیگر ممالک فقط شرائط کے پورے ہونے کی صورت میں پابندیاں ہٹانے کے ذمہ دار تھے۔ برجام میں کسی پارٹی بالخصوص امریکا اور یورپ کو پابند نہیں کیا گیا تھا کہ ایک مرتبہ دستخط کی صورت میں وہ معاہدے کو مکمل کرنے کے پابند ہوں گے۔ اسی سبب امریکا دستخط کرنے کے باوجود برجام سے نکل گیا اور ایران پر پابندیاں نافذ کر دیں۔ یورپ امریکی پابندیوں کے مقابل گھٹنے ٹیک گیا اور ایران کو برجام کے وہ فوائد حاصل نہ ہوسکے، جو اصل معاہدے میں درج تھے۔ بارہ روزہ جنگ کے دوران امریکہ کے ایران کے ایٹمی پلانٹ نطنز اور فردو پر حملوں کو دیکھا  جائے تو واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ برجام معاہدہ ایران کے ایٹمی پلانٹ کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ برجام معاہدے کی شرائط تھیں کہ افزودگی نطنز میں ہوگی، فردو میں کام معطل کر دیا جائے گا، عالمی ایٹمی ایجنسی ان سب امور کی مسلسل نگرانی کر رہی تھی۔ امریکا اور اسرائیل کے پاس ایران کے ایٹمی پلانٹ اور سائنسدانوں کے حوالے سے درست معلومات تھیں، جو عالمی ایٹمی ایجنسی نے نگرانی کے دوران جمع کیں۔

متعلقہ مضامین

  • قائمہ کمیٹی تجارت نے چینی بحران پر رپورٹ منظور کرلی
  • کمپنی کے مالک کی انوکھی پیشکش، 51 ملازمین کو نئی گاڑیاں تحفے میں دے کر مثال قائم
  • ایران جوہری معاہدہ (JCPOA) ایک خلاصہ
  • پی اے سی کی ذیلی کمیٹی میں پی سی بی سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ
  • سیاحت کے فروغ کیلیے لاہور تا شیخوپورہ ڈبل ڈیکر بس سروس کا آغاز
  • سانحہ کارساز کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کیلیے تقریب کا انعقاد
  • امریکہ۔سعودی عرب دفاعی معاہدے کے پس منظر میں، ریاض کا چاہتا ہے؟
  • تاریخی اضافے کے بعد سونا سستا، فی تولہ قیمت میں نمایاں کمی
  • اماراتی کمپنی کیساتھ فرسٹ ویمن بنک کی نجکاری کا معاہدہ طے ، اچھے سفر کا آغاز: وزیراعظم