Islam Times:
2025-10-21@15:37:14 GMT

امریکہ خانہ جنگی کے دھانے پر

اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT

امریکہ خانہ جنگی کے دھانے پر

اسلام ٹائمز: عوامی ناراضگی اب صرف ڈیموکریٹس کے روایتی حلقوں تک محدود نہیں۔ اگرچہ نعرہ "بادشاہ کو نہیں مانتے" براہِ راست ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تھا، مگر مظاہرین کے پلے کارڈز اور نعروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی ناراضی محض ایک شخص سے نہیں بلکہ پورے حکومتی نظام سے ہے۔ یہ صورتحال امریکی سپر پاور کے بڑے اور چھوٹے لابی گروپوں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ یہ عوامی غم و غصہ صرف ایک سیاستدان کے خلاف نہیں بلکہ پورے حکومتی ڈھانچے کے خلاف ابھر رہا ہے۔ مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ ان مظاہروں میں یہ ایسی چنگاری موجود ہے کہ یہ احتجاج کسی بھی وقت ایک سنگین خانہ جنگی کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ خصوصی رپورٹ: 

18 اکتوبر 2025 کو امریکا بھر میں ایک ایسا احتجاج برپا ہوا جسے حالیہ تاریخ کے سب سے بڑے مظاہروں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ تقریباً سات ملین افراد ملک کے 2600 سے زائد مقامات پر سڑکوں پر نکل آئے اور نعرہ لگایا: "بادشاہت کو نہیں مانتے" (No to King)۔ ایسے مظاہروں کی اپنے پیمانے اور جغرافیائی وسعت کے اعتبار سے امریکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ مبصرین کے مطابق اور یہ اس بڑھتی ہوئی عوامی تشویش کی عکاسی کرتے ہیں جسے امریکی عوام، خاص طور پر آزاد خیال اور اعتدال پسند حلقے، ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں "اقتدار پسندی" اور "انتہا درجے کی بدعنوانی" کے طور پر شمار کر رہے ہیں۔

ملک گیر مظاہروں کے نعروں اور اس کے عنوان "بادشاہت کو نہیں مانتے" سے واضح ہے کہ امریکا میں ایک نئی گہری سیاسی تقسیم پیدا ہو چکی ہے۔ ایک طرف ٹرمپ اور ان کے حامی، اور دوسری جانب ان کے مخالفین۔ یہی صورتحال ان خدشات کو تقویت دیتی ہے جن کی طرف سابق وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن پہلے ہی اشارہ کر چکے تھے کہ امریکا خانہ جنگی کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ یہ پرشکوہ احتجاج Indivisible Movement کی قیادت میں منعقد ہوا، جو محض ایک سیاسی احتجاج نہیں بلکہ امریکی طاقت کے غیر متوازن ڈھانچوں کے خلاف ایک شہری بیانیہ بھی تھا۔

مظاہرین نے امریکی پرچم کے رنگوں (سرخ، سفید، نیلا) کے لباس پہن کر اور علامتی غباروں کے ساتھ یہ پیغام دیا کہ وہ طاقت کے ارتکاز کے خلاف ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ان مظاہروں کی حمایت کی، جبکہ ریپبلکنز نے اسے "امریکا سے نفرت کا اجتماع" قرار دیا۔ اس ردعمل نے امریکی معاشرے میں موجود سیاسی دراڑ کو اور زیادہ نمایاں کر دیا ہے، اگرچہ امریکی شہری اب طویل عرصے سے ڈیموکریٹ اور ریپبلکن ڈبل پارٹی سسٹم سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ یہ احتجاج صرف بڑے ساحلی شہروں جیسے نیویارک اور لاس اینجلس تک محدود نہیں تھا، بلکہ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی پھیل چکا ہے۔

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی ناراضگی اب صرف ڈیموکریٹس کے روایتی حلقوں تک محدود نہیں۔ اگرچہ نعرہ "بادشاہ کو نہیں مانتے" براہِ راست ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تھا، مگر مظاہرین کے پلے کارڈز اور نعروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی ناراضی محض ایک شخص سے نہیں بلکہ پورے حکومتی نظام سے ہے۔ یہ صورتحال امریکی سپر پاور کے بڑے اور چھوٹے لابی گروپوں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ یہ عوامی غم و غصہ صرف ایک سیاستدان کے خلاف نہیں بلکہ پورے حکومتی ڈھانچے کے خلاف ابھر رہا ہے۔ مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ ان مظاہروں میں یہ ایسی چنگاری موجود ہے کہ یہ احتجاج کسی بھی وقت ایک سنگین خانہ جنگی کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔  

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کو نہیں مانتے خانہ جنگی کے خلاف

پڑھیں:

ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف امریکا کے 2700 سے زائد مقامات پر احتجاجی مظاہرے

مظاہرین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا پر دباؤ، سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات اور امیگریشن کے سخت اقدامات بڑھ گئے ہیں۔ کئی شہروں میں نیشنل گارڈ کے دستے تعینات ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا کی تمام 50 ریاستوں میں ہزاروں افراد نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ ان مظاہروں کو "نو کنگز" کے نام سے منظم کیا گیا، جنہیں ریپبلکن رہنماؤں نے طنزیہ طور پر "ہیٹ امریکا ریلیاں" قرار دیا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق ملک بھر میں 2700 سے زائد مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے جن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ نیویارک، واشنگٹن، شکاگو اور لاس اینجلس سمیت تمام بڑے شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا پر دباؤ، سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات اور امیگریشن کے سخت اقدامات بڑھ گئے ہیں۔ کئی شہروں میں نیشنل گارڈ کے دستے تعینات ہیں۔ احتجاج کے دوران شرکاء نے "ڈونلڈ ٹرمپ ہیز ٹو گو" جیسے نعرے لگائے اور جمہوریت کے تحفظ کا عزم ظاہر کیا۔ کچھ مظاہروں میں ٹرمپ کے غبارے نما پتلے بھی فضا میں اُڑائے گئے۔ امریکی حکومت تین ہفتوں سے جزوی طور پر بند (شٹ ڈاؤن) ہے، جس کے باعث ہزاروں سرکاری ملازمین برطرف ہو چکے ہیں۔صدر ٹرمپ نے ان مظاہروں پر محتاط ردِعمل دیا، مگر ریپبلکن رہنماؤں نے مظاہرین کو ’’مارکسسٹ‘‘، ’’اینٹیفا‘‘ اور ’’ڈیموکریٹک دہشت گرد ونگ‘‘ قرار دیا۔ دوسری جانب ڈیموکریٹ رہنماؤں، بشمول سینیٹر برنی سینڈرز اور چَک شومر، نے مظاہروں کی حمایت کی اور شہریوں کو آزادیِ اظہار کا حق استعمال کرنے پر سراہا۔ "نو کنگز" تحریک کو 300 سے زائد تنظیموں کی حمایت حاصل ہے، جن کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد جمہوری اقدار اور شہری آزادیوں کا تحفظ ہے۔ غیر ملکی شہروں لندن، میڈرڈ اور مالمو میں بھی یکجہتی کے طور پر مظاہرے کیے گئے۔

متعلقہ مضامین

  • معاندانہ امریکی پالیسی کیخلاف ایرانی سپریم لیڈر کے اصولی موقف کی عالمی سطح پر پذیرائی
  • ایرانی قوم معاہدے کے بہانے دباؤ تسلیم نہیں کریگی، رہبر معظم انقلاب
  • غزہ میں جنگی جرائم کیخلاف ہیومن رائٹس واچ کا احتجاج
  • امریکی سلطنت کے زوال کی علامات
  •  پارلیمانی انتخابات ملتوی کرنے سے خانہ جنگی ہوسکتی ہے، امریکی ایلچی ٹام بیرک کا لبنان کو انتباہ
  • ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف امریکا کے 2700 سے زائد مقامات پر احتجاجی مظاہرے
  • ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف امریکا کے 2700 سے زائد مقامات پر احتجاجی مظاہرے
  • ٹرمپ مخالف مظاہروں میں شدت
  • کوئٹہ ،لاپتا افراد کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے سراپا احتجاج ہیں