امریکہ خانہ جنگی کے دھانے پر
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: عوامی ناراضگی اب صرف ڈیموکریٹس کے روایتی حلقوں تک محدود نہیں۔ اگرچہ نعرہ "بادشاہ کو نہیں مانتے" براہِ راست ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تھا، مگر مظاہرین کے پلے کارڈز اور نعروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی ناراضی محض ایک شخص سے نہیں بلکہ پورے حکومتی نظام سے ہے۔ یہ صورتحال امریکی سپر پاور کے بڑے اور چھوٹے لابی گروپوں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ یہ عوامی غم و غصہ صرف ایک سیاستدان کے خلاف نہیں بلکہ پورے حکومتی ڈھانچے کے خلاف ابھر رہا ہے۔ مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ ان مظاہروں میں یہ ایسی چنگاری موجود ہے کہ یہ احتجاج کسی بھی وقت ایک سنگین خانہ جنگی کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ خصوصی رپورٹ:
18 اکتوبر 2025 کو امریکا بھر میں ایک ایسا احتجاج برپا ہوا جسے حالیہ تاریخ کے سب سے بڑے مظاہروں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ تقریباً سات ملین افراد ملک کے 2600 سے زائد مقامات پر سڑکوں پر نکل آئے اور نعرہ لگایا: "بادشاہت کو نہیں مانتے" (No to King)۔ ایسے مظاہروں کی اپنے پیمانے اور جغرافیائی وسعت کے اعتبار سے امریکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ مبصرین کے مطابق اور یہ اس بڑھتی ہوئی عوامی تشویش کی عکاسی کرتے ہیں جسے امریکی عوام، خاص طور پر آزاد خیال اور اعتدال پسند حلقے، ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں "اقتدار پسندی" اور "انتہا درجے کی بدعنوانی" کے طور پر شمار کر رہے ہیں۔
ملک گیر مظاہروں کے نعروں اور اس کے عنوان "بادشاہت کو نہیں مانتے" سے واضح ہے کہ امریکا میں ایک نئی گہری سیاسی تقسیم پیدا ہو چکی ہے۔ ایک طرف ٹرمپ اور ان کے حامی، اور دوسری جانب ان کے مخالفین۔ یہی صورتحال ان خدشات کو تقویت دیتی ہے جن کی طرف سابق وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن پہلے ہی اشارہ کر چکے تھے کہ امریکا خانہ جنگی کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ یہ پرشکوہ احتجاج Indivisible Movement کی قیادت میں منعقد ہوا، جو محض ایک سیاسی احتجاج نہیں بلکہ امریکی طاقت کے غیر متوازن ڈھانچوں کے خلاف ایک شہری بیانیہ بھی تھا۔
مظاہرین نے امریکی پرچم کے رنگوں (سرخ، سفید، نیلا) کے لباس پہن کر اور علامتی غباروں کے ساتھ یہ پیغام دیا کہ وہ طاقت کے ارتکاز کے خلاف ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ان مظاہروں کی حمایت کی، جبکہ ریپبلکنز نے اسے "امریکا سے نفرت کا اجتماع" قرار دیا۔ اس ردعمل نے امریکی معاشرے میں موجود سیاسی دراڑ کو اور زیادہ نمایاں کر دیا ہے، اگرچہ امریکی شہری اب طویل عرصے سے ڈیموکریٹ اور ریپبلکن ڈبل پارٹی سسٹم سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ یہ احتجاج صرف بڑے ساحلی شہروں جیسے نیویارک اور لاس اینجلس تک محدود نہیں تھا، بلکہ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی پھیل چکا ہے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی ناراضگی اب صرف ڈیموکریٹس کے روایتی حلقوں تک محدود نہیں۔ اگرچہ نعرہ "بادشاہ کو نہیں مانتے" براہِ راست ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تھا، مگر مظاہرین کے پلے کارڈز اور نعروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی ناراضی محض ایک شخص سے نہیں بلکہ پورے حکومتی نظام سے ہے۔ یہ صورتحال امریکی سپر پاور کے بڑے اور چھوٹے لابی گروپوں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ یہ عوامی غم و غصہ صرف ایک سیاستدان کے خلاف نہیں بلکہ پورے حکومتی ڈھانچے کے خلاف ابھر رہا ہے۔ مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ ان مظاہروں میں یہ ایسی چنگاری موجود ہے کہ یہ احتجاج کسی بھی وقت ایک سنگین خانہ جنگی کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کو نہیں مانتے خانہ جنگی کے خلاف
پڑھیں:
ویشنو دیوی یونیورسٹی میں مسلم طلباء کو داخلہ دینے کے خلاف جموں میں ہندوؤں کا احتجاج
مظاہرین نے کہا کہ کالج کے قیام کیلئے خرچ ہونے والی رقم ہندو عقیدتمندوں کی نذرانہ رقم سے حاصل ہوئی، اسلئے زیادہ سے زیادہ نشستیں ہندو طلبہ کیلئے مختص کی جائیں۔ اسلام ٹائمز۔ ویشنو دیوی شرائن بورڈ سنگھرش سمیتی نے آج "ایم بی بی ایس" داخلوں میں مبینہ طور پر ایک ہی طبقے کے طلبہ کو ترجیح دئے جانے کے خلاف اپنے احتجاج کو مزید تیز کرتے ہوئے تاوی پل جموں پر زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس دوران شرائن بورڈ کے اراکین کے پتلے نذر آتش کئے گئے اور سخت نعرے بازی کی گئی۔ نگھرش سمیتی اور اس کی حمایتی تنظیموں کے کارکنوں کے ساتھ سادھو سماج کے نمائندوں نے بھی احتجاج میں شرکت کی اور الزام عائد کیا کہ شرائن بورڈ نے ہندو عقیدے کے ساتھ سمجھوتہ کیا ہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ ہندوؤں کے جذبات کے ساتھ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
سمیتی کے کنوینر کرنل سکھویر سنگھ منکوٹیا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا احتجاج شرائن بورڈ کے ذمہ داران تک یہ صاف پیغام پہنچائے گا کہ فیصلہ فوری طور پر واپس لیں، ورنہ ایک وسیع عوامی تحریک کے لئے تیار رہیں۔ سنگھرش سمیتی نے مطالبہ کیا ہے کہ شری ماتا ویشنو دیوی میڈیکل کالج کو اقلیتی ادارہ قرار دیا جائے اور اس سال کے "ایم بی بی ایس" داخلوں کی جاری شدہ لسٹ کو فوراً منسوخ کیا جائے۔ مظاہرین نے کہا کہ کالج کے قیام کے لئے خرچ ہونے والی رقم ہندو عقیدتمندوں کی نذرانہ رقم سے حاصل ہوئی، اس لئے زیادہ سے زیادہ نشستیں ہندو طلبہ کے لئے مختص کی جائیں۔
احتجاجی کارکنوں کے مطابق 50 ایم بی بی ایس نشستوں میں سے 42 مسلم، ایک سکھ اور 7 ہندو طلبہ منتخب ہوئے ہیں، جس پر انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے اسے سراسر ناانصافی قرار دیا۔ مظاہرین نے شرائن بورڈ، ایس ایم وی ڈی یونیورسٹی کٹرہ اور انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ایکسیلنس کے انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ مسلم طلبہ کو دیگر میڈیکل کالجوں میں منتقل کیا جائے۔ اگر مطالبات پورے نہ کئے گئے تو احتجاج مزید وسیع کرنے کا انتباہ دیا گیا۔ سمیتی لیڈروں نے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ اور مودی حکومت سے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ "ایم بی بی ایس" داخلوں میں ہندو طلبہ کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور یہ تعصب کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔