پاکستان میں ریچھوں کی آبادی کو کئی دہائیوں سے لاحق خطرات ہیں جن میں رہائش گاہوں میں کمی، غیر قانونی شکار، جنگلات کی کٹائی، اور انسان و جانور تنازعات شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: گلوکارہ قرۃالعین بلوچ پر ریچھ کا حملہ: منتظمین اور گلگت بلتستان وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ آمنے سامنے

ترک خبر رساں ادارے انادولو کی رپورٹ کے مطابق یہ خطرات اب اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ مقامی ماہرین جنگلی حیات ملک میں ریچھوں کی بقا کو سنگین خطرے میں قرار دے رہے ہیں۔

گزشتہ ایک دہائی میں ملک میں ریچھوں کی آبادی کتنی کم ہوئی؟

اگرچہ پاکستان میں ریچھوں کی درست تعداد جاننے کے لیے کوئی جامع سائنسی سروے نہیں ہوا تاہم ماہرین کا اندازہ ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں ان کی آبادی میں 20 سے 30 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔

یونیورسٹی آف ہری پور کے وائلڈ لائف ایکالوجی لیب کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ملک کے کچھ علاقوں میں ریچھوں کی آبادی اب بھی نسبتاً مستحکم ہے مگر مجموعی رجحان تشویشناک ہے۔

’کئی علاقوں میں ریچھ مکمل طور پر ناپید ہو چکے ہیں‘

محمد کبیر نے کہا کہ کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پہلے ریچھوں کی اچھی خاصی تعداد ہوا کرتی تھی لیکن اب وہ وہاں مکمل طور پر ناپید ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں ریچھوں کی اقسام

پاکستان میں ریچھوں کی 2 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں ہمالیائی براؤن بیئر اور ایشیائی کالا ریچھ شامل ہیں۔

کالے ریچھ کی 2 ذیلی اقسام ہیں جن میں ہمالیائی کالا ریچھ (خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے جنگلات میں پایا جاتا ہے) جبکہ دوسرا بلوچستان کالا ریچھ  جو بلوچستان کے خشک پہاڑی علاقوں، خصوصاً خضدار اور قلات میں موجود ہے۔

ریچھوں کو لاحق بنیادی خطرات

ماہرین کے مطابق ریچھوں کو درپیش اہم خطرات میں رہائش گاہوں کی کمی، جنگلات کی کٹائی، زرعی زمین پر قبضہ، غیر قانونی شکار اور انسان اور جنگلی حیات کے درمیان بڑھتے تصادم شامل ہیں۔

پاکستان فاریسٹ انسٹیٹیوٹ پشاور کے محقق فیضان احمد نے کہا کہ ایشیائی کالا ریچھ، جو کبھی پورے ایشیا کے جنگلات میں پایا جاتا تھا، اب شدید دباؤ میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی آبادی بکھری ہوئی ہے اور انسانی علاقوں میں دخل اندازی کے باعث مزید خطرے میں ہے۔

بلوچستان کالا ریچھ خطرناک حد تک کم

کبیر کے مطابق پاکستان میں ہمالیائی اور بلوچستان کالا ریچھوں کی مشترکہ آبادی ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار کے درمیان ہے جبکہ بلوچستان کالے ریچھ کی بالغ آبادی شاید 50 سے بھی کم رہ گئی ہو جو اسے شدید خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔

فیضان احمد نے خبردار کیا کہ یہ پاکستان کے ان چند بڑے گوشت خور جانوروں میں سے ایک ہے جس پر نہ ہونے کے برابر تحقیق کی گئی ہے۔

دیوسائی میں کامیاب تحفظ

ہمالیائی براؤن بیئر کی سب سے مستحکم آبادی دیوسائی نیشنل پارک میں پائی جاتی ہے جہاں باقاعدہ مردم شماری اور تحفظ کی کوششوں سے ان کی تعداد میں حالیہ برسوں

میں بہتری آئی ہے۔

مزید پڑھیے: دیوسائی میں گلوکارہ قرۃ العین بلوچ پر ریچھ کا حملہ کیوں ہوا، واقعات بڑھنے کی اصل وجوہات کیا ہیں؟

ایک چھوٹی سی آبادی خنجراب نیشنل پارک میں بھی موجود ہے جبکہ سوات، کوہستان، شانگلہ، اپر دیر، نیلم ویلی اور دیامر میں ہمالیائی کالا ریچھ کبھی پایا جاتا تھا مگر اب ان علاقوں میں ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔

ریچھوں کا شکار اور غیر قانونی تجارت

ریچھوں کو نہ صرف کھال اور چربی کے لیے شکار کیا جاتا ہے بلکہ ریچھ کے پتّے (Bear bile) کو روایتی چینی دوا میں استعمال کرنے کے لیے بھی شکار کیا جاتا ہے جس میں موجود یورسوڈی آکسی کولک ایسڈ جدید ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

فیضان احمد کے مطابق شکاری اکثر بہار کے موسم میں غاروں میں آگ لگا کر مادہ ریچھ اور بچوں کو باہر نکالتے ہیں جس کے بعد مادہ کو مار دیا جاتا ہے جبکہ بچے ریچھ نچوانے یا لڑانے جیسے غیر انسانی کھیلوں کے لیے بیچ دیے جاتے ہیں۔

تحفظ کے اقدامات

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ صرف قانون سازی کافی نہیں بلکہ مقامی برادریوں کی شمولیت، رہائش گاہوں کا تحفظ، تصادم میں کمی کے اقدامات اور لمبے عرصے کی نگرانی بھی ضروری ہے۔

احمد نے زور دیا کہ معاوضہ اسکیمیں، غیر مہلک روک تھام کے طریقے اور فصلوں کی حفاظت جیسے اقدامات سے انسان کے اس جانور پر ظلم کو کم کیا جاسکتا ہے۔

ماحولیاتی توازن کے لیے خطرہ

سوات سے تعلق رکھنے والے وائلڈ لائف ماہر اذان کرم نے خبردار کیا کہ ریچھوں کی کمی پاکستان کے ماحولیاتی نظام پر شدید اثر ڈال سکتی ہے کیونکہ یہ ’کی اسٹون‘ اور ’امبریلا اسپیشیز‘ میں شمار ہوتے ہیں۔

اذان کرم  نے کہا کہ ریچھ بیج پھیلانے، مردہ جانوروں کو صاف کرنے اور کیڑوں کی افزائش روکنے جیسے عمل میں کردار ادا کرتے ہیں جن کا غائب ہونا پورے ماحولیاتی توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان میں کالے ریچھ پر تشدد کی ویڈیو وائرل، وفاقی وزیر مصدق ملک کا نوٹس

ان کا کہنا تھا کہ کالا ریچھ چونکہ وسیع اور متنوع علاقوں کا تحفظ یقینی بناتا ہے اس لیے اس کا ختم ہونا پاکستان کی جنگلی حیاتیاتی تنوع کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

براؤن بیئر بلیک بیئر پاکستان کا براؤن ریچھ پاکستان کی سیاہ ریچھ پاکستان کے ریچھ پاکستان میں ریچھ خطرے میں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلیک بیئر پاکستان کے ریچھ پاکستان میں ریچھ خطرے میں پاکستان میں ریچھ میں ہمالیائی علاقوں میں کی آبادی کے مطابق جاتا ہے ہیں جن کے لیے

پڑھیں:

خطرات کی زد میں (حصہ اول)

موجودہ صدی پوری دنیا کے لیے بے شمار خطرات اپنے ساتھ لے کر آئی ہے، زمینی و سماوی آفات کا کوئی شمار نہیں ہے، اس کے علاوہ انسان کی اپنی پیدا کردہ تکالیف اپنی جگہ ہیں۔ پاکستان میں تو ایسی صورتحال زمانہ بعید سے زمانہ قریب تک جوں کی توں ہے بلکہ مصائب و مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔

ان مشکلات کی خاص وجہ ناخواندگی ہے، جب تعلیم سے دوری ہو جاتی ہے تب انسان تہذیب، شرافت، ہمدردی اور رحم جیسی صفات سے محروم ہو جاتا ہے۔ ساتھ میں والدین کا بھی کردار ہے وہ اپنے بچوں پر بالکل توجہ نہیں دیتے ہیں۔

فی زمانہ ایسی ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں کہ جانوروں نے اپنے عمل سے انسانوں جیسی عادات اور عفو و درگزرکو اپنا کر مثال قائم کر دی ہے۔ بلی،کتے اور دوسرے جنگلی جانور ایک دوسرے کے لیے مددگار بن گئے ہیں، زخمی اور مجبور اپنے ہم جنس جانوروں کی مدد اور ان کے بچوں کو گود لے کر ماں جیسا سلوک کرتے ہیں، لیکن آج کا انسان درندہ صفت بن چکا ہے۔

چند سکوں کی خاطر اپنے ہی بھائی کا خون کردیتا ہے، سفاکی کی انتہا نے اپنے والدین، بہن بھائیوں کو تھوڑے سے فائدے یا معمولی سے لڑائی جھگڑے پر جان سے مار دیتا ہے۔ اسلام سے قبل جس قدر ظالمانہ رسمیں اور طور طریقے رائج تھے، وہ سب آج کے زمانے میں لوگوں نے اپنا لیے ہیں۔

 طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک سڑکوں، شاہراہوں اور گھروں میں جنم لینے والے سانحات اپنے ساتھ قیامت لے کر آتے ہیں۔ نوحہ، بین اور گریہ و زاری متاثرہ علاقوں کو قبرستان میں بدل دیتی ہے۔ یہ تو ہمارے ملک میں ہونے والے روزمرہ کے خونی واقعات ہیں لیکن ذرا آگے دیکھیں دوسرے ملکوں کے حالات کو تو دل تڑپ جاتا ہے۔

غزہ میں ہزاروں لوگ شہید اور سیکڑوں بچوں کو والدین سے جدا کردیا گیا۔ ان کے جسم سے گوشت ختم ہوگیا لیکن ظالموں کو رحم نہیں آتا، ہر روز بمباری اور جاتے جاتے بھی مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگ گئے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

سیکڑوں صحافیوں کو ابدی نیند سلانے کے بعد معروف صحافی صالح الحفراوی بھی شہید کر دیے گئے۔ جنگ بندی کے تاریخی امن معاہدے پر دستخط 20 سربراہان مملکت نے کیے۔

اس امن معاہدے کے باوجود غزہ، حماس و غمش میں جھڑپوں کے نتیجے میں 27 کی ہلاکت کی خبر ہے، پاکستانی سرحد پر بھی جھڑپیں جاری ہیں، ان جھڑپوں میں 200 افغان طالبان اور خوارج مارے گئے۔ پاک فوج کے 23 جوان شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔

کشمیر میں بھی مودی کی بربریت نے ہر گھرکا سکون برباد کر دیا ہے۔ کشمیری رہنما یٰسین ملک کی سزائے موت کے خلاف آواز اٹھانے اور اسلامی ملکوں کی تائید ضروری ہے، یٰسین ملک کا جرم اتنا ہی تو ہے کہ وہ آزادی کا استعارہ ہیں۔

شرم آنی چاہیے ہندوستان کے مقتدر حضرات کو، وہ روز اول سے ہی پاکستان کے حصے میں جو خطے آئے تھے، ان کے حصول کے لیے خون کی ندیاں بہا رہے ہیں۔

اگر 57 ملکوں کے اسلامی سربراہان ان دنوں ہی سے اتحاد کی شکل میں سامنے آتے اور اپنے مسلمان بھائیوں کو صہیونیوں، نصرانیوں اور اہل ہنود کے مظالم اور درندگی سے بچانے کے لیے بیانات کے ساتھ عملی اقدامات کرتے تو آج مسلمان کفارکی ایذا رسانی سے بچ سکتے تھے۔

یہ تو پاکستان اور باہرکی دنیا کے حالات تھے جہاں ہر مسلمان ہی ناانصافی، درندگی اور بربریت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اب رہے پاکستان کے اندرونی حالات یہاں امن و سکون عنقا ہو چکا ہے۔

پاکستان اور بیرون پاکستان کے دانشور، علما، اساتذہ، اہل علم و فن، عام شہری، مچھلی پھل اور چاٹ فروخت کرنے والے بھی ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں کہ ملک میں انصاف قائم کیا جائے۔غریب عوام کے انصاف دیا جائے ،مظلوم عوام کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟ ان حالات میں عوام معجزے کا انتظار کر رہے ہیں۔

کیا ہی اچھا ہو کہ صاحبان اقتدار اپنے اعمال نامے کا جائزہ لیں اور انھیں حق کے ترازو میں تولیں اور پھر جو بھی نتیجہ آئے اس کو قبول کر لیں ، اگر نیکی کا پلڑا بھاری ہوا تو رب جلیل مالک کائنات کے حضور سجدہ شکر بجا لائیں کہ اس دور میں وہ گناہ کبیرہ سے دور رہا۔

پاکستان کا ہر خطہ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے، بلوچستان میں بھی ناانصافی اور مفاد پرستی عروج پر ہے وہاں پر بسنے والے خاندان کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، وہ اپنوں کی مدد کی طالب ہیں ان کے گھر بار اور بچے بے آسرا ہو چکے ہیں اس جگہ انصاف اور امن کی روشنی کو پھیلانے کی ضرورت ہے یہ ہمارے ہی مسلمان بھائی ہیں۔

بلوچستان کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ وہاں کا قبائلی نظام ہے،قبائلی سردار اپنے ہی لوگوں کی تعلیم،صحت کی بہتر سہولتوں، بہتر روزگار اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔قبائلی سردار اپنے لوگوں کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ جب تک لوگ پسماندہ رہیں گے ،قبائلی نظام کو تحفظ ملتا رہے گا،قبائلی نظام کی بقا لوگوں کی پسماندگی اور جہالت میں مضمر ہے۔

 (جاری ہے۔)

متعلقہ مضامین

  • آبادی بم پھٹنے کے قریب، پاکستان میں اضافے کی شرح خطے میں سب سے زیادہ
  • سیمی کنڈکٹر کا منصوبہ انتہائی اہم، نوجوانوں کو مزید آگے لیکر جانا ہے: وزیراعظم
  • بٹر ڈپلومیسی
  • سیلاب متاثرین کی بحالی کے عمل کو جنگی بنیادوں پر مکمل کیا جانا چاہیے؛ مسرت جمشید چیمہ
  • قانون کی حکمرانی ایک عملی زینہ ہے، قومی ترقی کے لیے تنقید برائے اصلاح کو فروغ دینا ضروری ہے،وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ
  • پاکستان میں غربت اور اس کا حل
  • وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس  میں   سہیل آفریدی کا نہ جانا افسوسناک ، گورنرخیبر پی کے 
  • طالبان ہوش سے کام لیں!
  • خطرات کی زد میں (حصہ اول)