بہار اسمبلی انتخابات۔ مودی کا وقار دائو پر
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آبادی کے لحاظ سے بھارت کے تیسرے بڑے صوبہ بہار میں دو مرحلوں پر محیط ریاستی اسمبلی کی 243 نشستوں کے لیے انتخابات کا عمل جاری ہے۔ ووٹنگ 6 اور 11 نومبرکو ہوگی، جبکہ ووٹوں کی گنتی 14 نومبر کو ہوگی۔ ویسے تو بھارت میں ہر سال کسی نہ کسی صوبہ کے لیے الیکشن ہوتا ہی رہتا ہے، مگر سیاسی شعور کے لحاظ سے خاصی اہم ریاست بہار کے یہ انتخابات وزیر اعظم نریندو مودی کی بقاء کے لیے اہمیت اختیارکرگئے ہیں۔ گو کہ بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی نے اس صوبے میں اب خاصے پائوں پھیلائے ہیں، پھر بھی یہ ابھی تک سوشلسٹ سیاست کا آخری قلعہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ دو سوشلسٹ پارٹیاں راشٹریہ جنتا دل اور جنتا دل یونائیٹڈ ابھی بھی اس صوبہ کی سیاست پر حاوی ہیں۔ بہار کے باسیوں کے سیاسی شعور اور مزاحمتی مزاج کی وجہ سے ہی شاید مہاتما گاندھی نے جنوبی افریقا سے واپسی کے بعد 1917 میں اسی صوبے کے چمپارن ضلع سے ہی برطانوی اقدار کو للکارنے کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اسی طرح 70 کی دہائی میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کی مطلق العنانی کے خلاف سوشلسٹ لیڈر جے پر کاش نارائینن نے اس صوبہ میں طلبہ کی ایجی ٹیشن کی قیادت کی تھی۔ اسی ایجی ٹیشن کی کوکھ سے موجودہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار، سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو، آنجہائی رام ولاس پاسوان سمیت ان گنت سیاسی قد آور شخصیتوں نے جنم لیا۔ گو کہ گجرات، مہاراشٹرہ یا جنوبی ریاستوں کے برعکس بہار وسائل کے اعتبار سے غریب ہے، مگر اس کی سیاست میں ایک رومانیت ہے، اس لیے سیاسی جماعتوں کے لیے اس صوبہ پر کنٹرول حاصل کرنا وقار کا معاملہ بن جاتا ہے۔ یہ صوبہ ذات پات کی سیاست کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماضی میں اس صوبہ کے انتخابات کو کورکرنے کے لیے جب کسی دیہات میں جانا ہوتا تھا، تو پہلا سوال لوگ ذات کے بارے میں پوچھتے تھے۔ ’’کون ذات ہو‘‘۔ جب ان کو بتایا جاتا تھا کہ میں مسلمان ہو اور وہ بھی کشمیر سے، تب وہ کھل کر بات کرنا شروع کرتے تھے۔ موجودہ انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ پہلی بار ووٹنگ ریاست کی ذات پات کی مردم شماری کے بعد ہو رہی ہے۔ ذات پات کی یہ مردم شماری 2022 میں مکمل ہو گئی تھی اور اس کے اعداد وشمار نے برسوں سے قائم سماجی ڈھانچے کو چیلنج کر دیا ہے۔ اس کے مطابق انتہائی پسماندہ طبقات (EBCs) ریاست کی سب سے بڑی آبادی ہیں۔ ان کا حصہ 36 فی صد ہے، جس میں 112 ذیلی ذاتیں شامل ہیں۔ پسماندہ طبقات (OBCs) 27 فی صد اور دلت و قبائیلی برادریاں تقریباً 21 فی صد ہیں۔ یعنی 80 فی صد آبادی وہ ہے جو تاریخی طور پراقتدار کے مراکز سے باہر رکھی گئی۔ فرنٹ لائن میگزین کے سیاسی مدیر آنند مشرا کے مطابق یہ مردم شماری ووٹ بینک کی سیاست سے کہیں زیادہ گہری چیز ہے اور اس نے سماجی شعور کو بیدار کر دیا ہے۔ ’’جب ذاتیں اپنے اعداد جان لیتی ہیں، تو ان کی خاموشی طاقت میں بدل جاتی ہے‘‘۔ اس لیے اس بار ہر برادری، ہر طبقہ، اپنی آبادی کے تناسب سے حصہ داری مانگ رہا ہے۔ 1990 میں لالو پرساد یادو نے ’’منڈل کمیشن‘‘ کے نفاذ کے بعد ریاست کے اقتدار کی بنیاد بدل دی تھی۔ ان کا نعرہ تھا: ’’جس کی جتنی آبادی، اْس کی اتنی حصہ داری۔ لالو نے یادو، مسلمان اور پسماندہ
طبقات کو اقتدار کے مرکزی دھارے میں لاکر کھڑا کردیا۔ گو کہ ان کی سیاست نے سماجی انصاف کو جمہوری جذبے کے ساتھ جوڑ دیا، مگر چونکہ ذات پات کی مردم شماری ہو نہیں رہی تھی، اس لیے بس اندازوں سے ہی اعداد وشمار ترتیب دیے جا رہے تھے۔ لالو یادو نے سیاست کے دھا رے کو بدل تو دیا، مگر وقت کے ساتھ ’’جنگل راج‘‘ یعنی لاقانونیت اور بد عنوانی کا دور شروع ہوا اور ان کی مقبولیت کم ہونے لگی۔ یہ وہ وقت تھا جب نیتیش کمار نے ترقی اور نظم و نسق یعنی سوشاسن کا نیا نعرہ دیا۔ انہوں نے بہار کو بدعنوانی سے نکالنے، خواتین کو بااختیار بنانے، اور نظم و نسق قائم کرنے کا وعدہ کیا۔ بھارت میں گجرات کے بعد بہار دوسری ریاست ہے جہاں مکمل شراب بندی عائد کی گئی۔ پنچایتوں میں خواتین کے لیے 50 فی صد ریزرویشن اور اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے اسکالر شپ یہ سب ان کے سْشاسن کے ستون تھے۔ لیکن 2020 کے بعد حالات بدلے۔ ترقی کا وعدہ پرانا لگنے لگا۔ عوام کے سوال اب بدل گئے۔ نتیش کمار سیاسی پالے بھی بدلنے لگے۔ کبھی لالو پرساد کے فرزند تیجسوی یادو کے ساتھ ہاتھ ملا کر مل کر سرکار بناتے ہیں تو کبھی بی جے پی کی گود میں بیٹھ کر ان سے حمایت لیکر حکومت سازی کرتے ہیں۔ ان ہی داو پیچوں سے نو بار وزیر اعلیٰ رہنے والے نیتیش کماراب اپنی سیاسی زندگی کے نازک موڑ پر ہیں۔ وہ اس وقت بی جے پی کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد کے رکن ہیں۔ مگر بی جے پی ان کے ساتھ رہتے ہوئے ان کے اثر کو کم کرنے کی پالیسی پر چل رہی ہے۔ وہ اب اپنے بل بوتے پر اس اہم صوبہ میں حکومت سازی کرنا چاہتی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بی جے پی گو کہ نیتیش کے سہارے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے، مگر نتائج کے بعد ان کو کنارے کرنے کے امکانات بھی ڈھونڈ رہی ہے، جس طرح اس نے مہاراشٹرہ میں شیو سینا کے سہارے ووٹ تو لیے مگر پھر ان کو دودھ میں مکھی کی طرح قیادت سے باہر نکال دیا۔ بی جے پی، چونکہ تاریخی طور پر اونچی ذات کی پارٹی رہی ہے، اس لیے وہ ذات پات کی سیاست سے پرہیز کرتی رہی ہے۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ ہندو اتحاد کے نعرے کے ساتھ ساتھ بی جے پی نے ذاتوں کو اپنے بیانیے میں سمو لیا ہے۔ وہ اب ذات پات کو مٹانے کی نہیں، بلکہ اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ پارٹی نے بہار کے ایک سابق وزیر اعلیٰ آنجہانی کرپوری ٹھاکر کو اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ بھارت رتن دے کر ای بی سی طبقے میں رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طبقہ کے لیے قرض معافی، اور دیہی روزگار پروگراموں میں ترجیحی حصہ دیکر وہ اس طبقہ میں ایک طرح کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ دوسری طرف راشٹریہ جنتا دل، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد جس کو عظیم اتحاد یا مہا گٹھ بندھن کہتے ہیں ظاہری طور پر ذات پات کی بیداری کا سب سے فطری وارث تھا۔ مگر اندر سے اس اتحاد کی بنیادیں کمزور ہو چکی ہیں۔ حکومت کے خلاف ناراضی کا فائدہ اٹھانے کی اس کی کوششیں نشستوں کی تقسیم کی لڑائی میں دب گئی ہے۔ لگتا ہے کہ اس کے پاس ووٹر ہے مگر وژن نہیں۔ اس اتحاد کی کلیدی پارٹی راشٹریہ جنتا دل کا ووٹ بینک مسلم اور یادو یعنی ایم وائی رہا ہے۔ اس کے لیڈر تیجسوی یادو اگرچہ پرعزم دکھائی دیتے ہیں، مگر پرانے یادو لیڈران کی نوجوان قیادت پر کھلے عام اعتماد نہیں کرتے ہیں۔ (جاری ہے) (بشکریہ: 92 نیوز)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ذات پات کی وزیر اعلی کی سیاست بی جے پی کے ساتھ جنتا دل کے لیے رہی ہے کے بعد اس لیے
پڑھیں:
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے پاک فوج کی قیادت کی حمایت کی
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے بانی پاکستان سے متعلق ریاستی ادارے کے موقف کو واضح اور قابل تحسین قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ شخص جو پاک فوج کے خلاف جھوٹا بیانیہ پھیلانے اور منفی مہم چلانے کی کوشش کرتا ہے، کسی رعایت کا مستحق نہیں۔
اویس لغاری نے 5 دسمبر کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کو پوری قوم کی آواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں سچائی اور شفافیت نمایاں تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ خود کو عقل کل سمجھنے والا یہ شخص بھول گیا تھا کہ وہ دراصل مخصوص قوتوں کا آلہ کار تھا، اور ترجمان پاک فوج نے اس کا اصل چہرہ قوم کے سامنے بے نقاب کر دیا۔
وفاقی وزیر نے زور دیا کہ آزادیٔ اظہار اہم ہے، لیکن یہ کبھی بھی ملکی سالمیت اور فوجی وقار سے بالاتر نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ آزادیٔ اظہار کے نام پر دشمنی پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی مکمل حمایت کی جاتی ہے۔
اویس لغاری نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت کی بھی تعریف کی، جنہوں نے 8 گنا طاقتور دشمن کو شکست دے کر قوم کا سر فخر سے بلند کیا اور پاکستان کے عالمی وقار میں اضافہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ فتنہ الخوارج کے خلاف واضح اور مضبوط پالیسی فیلڈ مارشل کا قابلِ فخر کارنامہ ہے، اور پاکستان ان کی قیادت میں ترقی اور وقار کے راستے پر گامزن رہے گا۔