پاک افغان کشیدگی اور ایران
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: چین کیساتھ پاکستان کے تعاون کو مزید گہرا کرنے سے روکنے اور ایران کیخلاف محاصرے کو مکمل کرنے کیلئے امریکہ یہ کھیل شروع کرنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں، بین الاقوامی شدت پسند نیٹ ورکس کی بحالی بھی دباؤ کے منظرنامے کا حصہ بن سکتی ہے، کیونکہ طالبان گروپ ایران اور چین دونوں کے مفادات کیخلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے اسٹریٹجک نقطہ نظر سے، یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ افغان بحران اب صرف مشرقی سرحد پر ایک سکیورٹی چیلنج نہیں رہا، بلکہ یہ ابھرتے ہوئے ایشیائی نظام کو روکنے کیلئے مغرب کی جغرافیائی سیاسی جنگ کا حصہ بن گیا ہے۔ ماسکو فارمیٹ میں فعال موجودگی، تاجکستان اور روس کیساتھ سکیورٹی کوآرڈینیشن کو مضبوط بنانا اور ایران کے اندر سرحدی محافظوں اور امیگریشن کنٹرول کی صلاحیتوں کو بڑھانا اس منظرنامے کے اثرات پر قابو پانے کیلئے اہم اور فوری ضرورت ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ سرحدی تنازعات کو محض ڈیورنڈ لائن یا نسلی مسائل پر تاریخی اختلافات کی پیداوار کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ اس کشیدگی کا تجزیہ جیواسٹریٹیجک فریم ورک اور مغربی ایشیاء میں سکیورٹی کے نئے منظرناموں کی از سر نو ترتیب کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء اور کابل میں نیٹو سے وابستہ سیاسی ڈھانچے کے خاتمے کے بعد، واشنگٹن "کنٹرولڈ عدم استحکام" کی حکمت عملی کے ذریعے خطے میں اپنی بالواسطہ مداخلت پسندانہ پوزیشن کو برقرار رکھنے اور آزاد ایشیائی سکیورٹی انتظامات کی تشکیل کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نقطہ نظر سے، افغانستان پاکستان تنازعہ ایک ایسے علاقے میں مغرب کے مداخلت پسندانہ کردار کی تعمیر نو کا ایک نیا ذریعہ ہے، جو ماسکو، بیجنگ اور تہران کے درمیان تیزی سے بڑھتے تعاون میں رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی کئی طریقوں سے اس تنازعے کو بڑھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے، ماسکو فارمیٹ میں علاقائی تعاون کو روک کر یہ کام شروع کیا جا رہا ہے۔ ماسکو فارمیٹ کا مرکز روس ہے اور اس میں وسطی ایشیائی ممالک، ایران، چین، پاکستان اور افغانستان شامل ہیں۔ یہ فارمیٹ بحرانوں سے نمٹنے اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم، کابل اور اسلام آباد کے درمیان تنازعات میں اضافے سے اراکین کی ہم آہنگی کمزور ہوسکتی ہے اور مغربی اثر و رسوخ کے خلاف اتفاق رائے کی صلاحیت محدود ہونے کا امکان ہے۔ دوسرا، یہ پاکستان کی تزویراتی آزادی کو روکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، اسلام آباد نے چین اور روس کے ساتھ بات چیت کے لیے زیادہ آمادگی ظاہر کی ہے اور سرحدوں پر تنازعات کو ہوا دے کر، امریکا ایک بار پھر پاکستانی فوج اور سکیورٹی اشرافیہ کو اپنی فوجی اور انٹیلی جنس امداد پر انحصار کے چکر میں ڈال رہا ہے۔
دوسری جانب پاک افغان سرحدی عدم استحکام چینی منصوبوں بالخصوص چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ اس بحران پر انحصار کرتے ہوئے، واشنگٹن جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیاء سے جوڑنے کے عمل کو مؤثر طریقے سے سست کر رہا ہے اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) پر مبنی ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ اس کے علاوہ، سرحدی کشیدگی کے سائے میں، امریکی انٹیلی جنس بگرام بیس کے باقی ماندہ انفراسٹرکچر میں موجودگی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا ہے اور یہ افغان سکیورٹی میں خفیہ مداخلت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ علاقائی جغرافیائی سیاسی سطح پر، اس عدم استحکام کے کچھ ثانوی اہداف بھی ہیں۔ ایران کی مشرقی سرحدوں پر سلامتی، نقل مکانی، اور ماحولیاتی بحران پیدا کرکے مغربی افغانستان میں ایران کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنا۔
ہلمند اور نمروز میں مقامی تنازعات کو ہوا دینے سے مہاجرین اور ایندھن اور منشیات کی اسمگلنگ کی ایک نئی لہر پیدا کرنا اور ایرانی سرحد کی طرف بڑھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کی سکیورٹی کی کچھ صلاحیتوں اور وسائل کو اس سرحد پر الجھانا ہے۔ اس دوران تاجکستان کا کردار بھی اہم ہے۔ یہ ملک، جو روس کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے، افغانستان میں پیش رفت پر کنٹرول کے لئے شمالی حلقے کے طور پر کام کرتا ہے۔ افغانستان کی جنوبی سرحدوں پر تنازعات میں اضافہ دوشنبہ-ماسکو محور کی ضرورت کو بڑھا دے گا اور وسطی ایشیاء میں روس اور امریکہ کے درمیان اثر و رسوخ کے توازن کو تبدیل کرسکتا ہے۔ مجموعی طور پر، افغانستان اور پاکستان کے درمیان عدم استحکام کو دوبارہ پیدا کرکے، امریکہ شنگھائی اور ماسکو فارمیٹ میں ایشیائی انضمام کے عمل کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔
چین کے ساتھ پاکستان کے تعاون کو مزید گہرا کرنے سے روکنے اور ایران کے خلاف محاصرے کو مکمل کرنے کے لئے امریکہ یہ کھیل شروع کرنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں، بین الاقوامی شدت پسند نیٹ ورکس کی بحالی بھی دباؤ کے منظرنامے کا حصہ بن سکتی ہے، کیونکہ طالبان گروپ ایران اور چین دونوں کے مفادات کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے اسٹریٹجک نقطہ نظر سے، یہ صورت حال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ افغان بحران اب صرف مشرقی سرحد پر ایک سکیورٹی چیلنج نہیں رہا، بلکہ یہ ابھرتے ہوئے ایشیائی نظام کو روکنے کے لیے مغرب کی جغرافیائی سیاسی جنگ کا حصہ بن گیا ہے۔ ماسکو فارمیٹ میں فعال موجودگی، تاجکستان اور روس کے ساتھ سکیورٹی کوآرڈینیشن کو مضبوط بنانا اور ایران کے اندر سرحدی محافظوں اور امیگریشن کنٹرول کی صلاحیتوں کو بڑھانا اس منظرنامے کے اثرات پر قابو پانے کے لیے اہم اور فوری ضرورت ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ماسکو فارمیٹ میں عدم استحکام پاکستان کے کے درمیان اور ایران کا حصہ بن ایران کے کے ساتھ ہے اور رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات کب تک معمول پر آ سکتے ہیں، اور عالمی سطح پر افغانستان مخالف دباؤ کیا شکل اختیار کر سکتا ہے؟
تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات کی بہتری کے اِمکانات بہت محدود ہیں لیکن افغان طالبان رجیم عالمی ردعمل کا شکار ہو سکتی ہے جس سے افغان عوام کی زندگیاں مزید متاثر ہو سکتی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کو مشکل حالات میں سہارا دیا لیکن طالبان رجیم نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی خراب کر لیے جن کا فوری طور پر حل مشکل نظر آتا ہے۔
ایک روز قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن سرحد پر شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ بعض خبروں کے مطابق افغانستان میں ان حملوں سے جانی نقصان ہوا ہے جبکہ پاکستان کے سرحدی گاؤں میں 3 لوگ زخمی ہوئے۔
مزید پڑھیں: افغانستان اور تاجکستان بارڈر پر چینی شہریوں کے خلاف سنگین دہشتگرد منصوبہ بے نقاب
اس صورتحال نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے اور پہلے سے مذاکرات کے اندر ڈیڈ لاک کی کیفیت کو مزید ابتر کردیا ہے۔
دوسری طرف اقوامِ متحدہ کی درخواست پر پاکستان نے انسانی امداد کی فراہمی کے لیے جب طورخم سرحد کھولنے پر آمادگی ظاہر کی تو افغان طالبان رجیم کی جانب سے کہا گیا کہ وہ انسانی امداد تو قبول کریں گے لیکن اگر کسی اور ملک کی سرحد کے ذریعے سے بھجوائی جائے۔
پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ممالک اس وقت نا صرف افغانستان کو دہشتگردی کے مرکز کے طور پر دیکھ رہے ہیں بلکہ عالمی تنظیمیں افغانستان میں عورتوں کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے افغان طالبان حکومت کے خلاف مزید سخت پابندیوں کے مطالبات کر رہی ہیں جن کی وجہ سے افغان عوام کی زندگیاں مزید متاثر ہو سکتی ہیں۔
افغان طالبان اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، مسعود خانامریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب مسعود خان نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان سے جنگ چھیڑ کر افغان طالبان رجیم اپنی اندرونی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ افغانستان کو حالت جنگ میں مبتلا کرکے وہ پورے افغان عوام کو پاکستان کی دشمنی پر مائل کرنا چاہتے ہیں تاکہ جو آوازیں ان کے خلاف اٹھ رہی تھیں وہ پاکستان کے خلاف ہو جائیں۔ کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی بنیادی دشمنی نہیں ہے۔ لیکن یہ خطے کے استحکام کے لیے خطرناک ہے۔
افغانستان پر بڑھتا ہوا عالمی دباؤپاکستان اور ایران نے حالیہ برسوں میں لاکھوں افغان شہریوں کو ان کے وطن واپس بھجوایا ہے جس کی بعض دیگر کئی وجوہات کے ساتھ ساتھ یہ وجہ بھی اہم تھی کہ افغان شہریوں کے حوالے سے کہا گیا کہ وہ دہشتگردی کے سہولت کار ہیں۔
’دوسری طرف دہشتگردی کے الزامات کے تحت افغان شہریوں کی امریکا میں گرفتاریاں اور افغان سرزمین سے تاجکستان پر ہونے والے حملوں کے بعد سے نہ صرف افغان شہریوں کو دنیا بھر میں خطرے کی علامت کی طور پر پیش کیا جا رہا ہے بلکہ افغانستان کو دہشتگردی کے مرکز کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے جس کی وجہ سے افغان حکومت مشکلات کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔‘
عالمی امداد حاصل کرنے کے باوجود طالبان کی جابرانہ پالیسیاں جاریامریکا کے اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان ریکنسٹرکشن (سگار) نے افغان طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد جاری کردہ رپورٹ میں کہا تھا کہ اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے قریباً 3.71 بلین ڈالر کی امداد خرچ کی گئی جس میں سے 64.2 فیصد اقوام متحدہ کی ایجنسیوں یو این ایم اے ایم اور اور ورلڈ بینک کے زیر انتظام افغانستان ریزیلینس ٹرسٹ فنڈ کے ذریعے تقسیم کیا گیا۔
لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ اتنی بڑی امداد کے باوجود افغان طالبان کی جابرانہ پالیسیاں جاری ہیں۔ افغان طالبان نے تاحال خواتین کی تعلیم پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
سگار کی حالیہ رپورٹ جو طالبان سے پہلے کے دور کا احاطہ کرتی ہے وہ 3 دسمبر 2025 کو جاری ہوئی جس کے مطابق افغانستان میں 2001 سے 2021 تک قریباً 20 سال کے دوران تعمیرِ نو اور ریاستی استحکام کے لیے خرچ کیے گئے قریباً 148 ارب ڈالر اپنے بنیادی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
رپورٹ کے مطابق اس پورے عمل کو بدعنوانی، ناقص نگرانی، غلط مفروضات اور مقامی حقائق کو نظر انداز کرنے نے شدید نقصان پہنچایا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ شفاف اور پائیدار حکومتی ڈھانچہ قائم نہ ہو سکا، افغان سیکیورٹی فورسز بیرونی مدد کے بغیر خود کو برقرار نہ رکھ سکیں، بڑی مقدار میں امدادی رقوم اور وسائل ضائع ہوئے اور بعض معاملات میں طالبان کے کنٹرول میں بھی چلے گئے، جس کے نتیجے میں قانون کی حکمرانی، عوامی اعتماد اور ادارہ جاتی صلاحیت مضبوط نہ بن سکی۔
اسی ناکامی کی قیمت نہ صرف امریکی ٹیکس دہندگان بلکہ عام افغان عوام نے بھی ادا کی، یہی وجہ ہے کہ آج عالمی برادری افغانستان کے معاملے میں امداد کو سخت شرائط، انسانی حقوق خصوصاً خواتین کی تعلیم و آزادی، اور بہتر حکمرانی سے مشروط کرنے پر زور دے رہی ہے۔
آسٹریلیا کی جانب سے اعلیٰ افغان عہدیداروں پر پابندیاںآسٹریلیا کی حکومت نے گزشتہ روز چار افغان اعلیٰ عہدیداروں پر مالی اور سفری پابندیاں عائد کی ہیں جن میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے وزیر محمد خالد حنفی، وزیر اعلیٰ تعلیم ندا محمد ندیم، وزیرِ انصاف عبدالحکیم شرعی اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی شامل ہیں۔
آسٹریلیا کی حکومت نے افغان اعلیٰ عہدیداروں پر پابندیاں عورتوں کے حقوق سلب کرنے کے الزامات کے تحت لگائی ہیں۔
اس سال فروری میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی خواتین وزرائے خارجہ نے ایک اجلاس منعقد کیا جس میں انہوں نے افغانستان میں طالبان کی ڈی فیکٹو اتھارٹیز کی جانب سے انسانی حقوق کی جاری اور منظم خلاف ورزیوں پر شدید تشویش پر تبادلہ خیال کیا اور اپنے اس مؤقف کی توثیق کی، خصوصاً وہ خلاف ورزیاں جو خواتین اور لڑکیوں کو متاثر کر رہی ہیں۔
ہو سکتا ہے سعودی عرب کی میزبانی میں مذاکرات چلتے رہیں، طاہر خانافغانستان کے حوالے سے معروف صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان تعلقات کب تک معمول پر آئیں گے یہ کہنا مُشکل ہے۔
انہوں نے کہاکہ سہ فریقی مذاکرات تو ناکام ہو گئے ہیں لیکن سعودی عرب کی میزبانی میں جو حالیہ مذاکرات ہوئے ہیں گو کہ اُن میں فریقین کا مؤقف سخت ہے لیکن ممکن ہے یہ مذاکرات چلتے رہیں۔
طاہر خان نے کہاکہ پاکستان افغان طالبان کے مطالبات تسلیم نہیں کرتا نہ طالبان پاکستان کے مطالبات مان رہے ہیں اِس لیے اس وقت ایک ڈیڈ لاک کی کیفیت ہے۔
مزید پڑھیں: چمن سیکٹر میں افغان طالبان کی بلا اشتعال فائرنگ، پاکستان کا بھرپور اور مؤثر جواب
’ساتھ ساتھ میں جب حملے اور پُرتشدد کارروائیاں ہوتی رہیں گی تو معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ کل جو چمن پر فائرنگ ہوئی اس نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، کیونکہ اب جنگوں میں یہ ہوگیا ہے کہ راستوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے اور اِسی وجہ سے بہت زیادہ تلخی پیدا ہو گئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی درخواست پر پاکستان نے انسانی امداد کے لیے طورخم بارڈر کھولنے پر رضامندی ظاہر کی تو طالبان کہتے ہیں کہ وہ کسی اور ملک کے بارڈر سے انسانی امداد لینے کو تیار ہیں نہ کہ پاکستان کے راستے سے۔ تو اب مزید تلخی بڑھ گئی ہے جس کے فی الوقت کم ہونے کا اِمکان نظر نہیں آتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افغان طالبان رجیم پاک افغان کشیدگی چمن بارڈر فائرنگ سعودی عرب سہ فریقی مذاکرات مذاکرات ڈیڈلاک وی نیوز