خیبر پختونخوا کی معروف وکیل مہوش محب کاکاخیل نے حال ہی میں ویانا، آسٹریا میں ’جسٹیشیا وومن ان لا ایوارڈز 2025‘ اپنے نام کر کے  پاکستان کا نام روشن کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: مارشل آرٹ میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی کوئٹہ کی باہمت خواتین

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مہوش محب کاکاخیل نے فخر کا اظہار کیا کہ انہیں سائبر کرائمز اور خواتین کو بااختیار بنانے کے شعبے میں نامزد کیا گیا اور یہ باوقار ایوارڈ دیا گیا۔

انہوں نے اپنی اس کامیابی کو اپنے، دیگر خواتین اور پورے خیبر پختونخوا کے لیے ایک اعزاز اور فخر کی بات قرار دیا کیونکہ انہیں پوری دنیا سے اس کے لیے منتخب کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایوارڈ ان کے پرعزم کام کی بین الاقوامی سطح پر پہچان ہے۔

خاندان کی وکالت کے پیشے کی خدمت

مہوش محب کاکاخیل نے اپنی شاندار کامیابی اور خاندانی پس منظر کے بارے میں کھل کر بات کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کی کامیابی میں خاندانی حمایت کا اہم کردار ہے کیونکہ کاکاخیل خاندان کے 8 افراد وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں جو قانونی نظام کے ساتھ ان کی گہری وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں وکالت کا ماحول

وکالت کے شعبے کو علاقائی تناظر میں دیکھتے ہوئے انہوں نے ایک دلچسپ رائے دیتے ہوئے کہا کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں خیبر پختونخوا میں خواتین کے لیے وکالت کرنا ’زیادہ آسان‘ ہے کیونکہ یہاں خواتین کو خصوصی عزت اور احترام دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: پست قامت لیکن حوصلے بڑے، کوئٹہ کی باہمت بلانستہ کی موٹیویشنل کہانی

انہوں نے اس تاثر کو زائل کیا کہ قبائلی معاشرے میں پیشہ ورانہ آزادی کم ہوتی ہے۔

سماجی انصاف پر توجہ اور اہم کیسز

سماجی انصاف کی خدمت پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے مہوش محب نے کہا کہ ان کے پاس آنے والے زیادہ تر کیسز بنیادی طور پر اہم سماجی اور قانونی مسائل سے متعلق ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کیسز میں ہراسانی، وراثت میں خواتین کا حصہ، طلاق اور گھریلو تشدد جیسے مسائل شامل ہیں۔

ان کیسز پر مہوش محب کا پرعزم کام خواتین کو بااختیار بنانے کی ان کی مسلسل کوششوں کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: رحیم یار خان کی باہمت خاتون روایتی پابندیوں سے آزاد ہوکر گھر کی خود کفیل بن گئی

مہوش محب کے لیے بین الاقوامی اعزاز ان کی ان کاوشوں کا اعتراف ہے کہ وہ کس طرح نہ صرف قانونی بلکہ سماجی سطح پر بھی خواتین کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ مزید تفصیل جانیے مصباح الدین کی اس ویڈیو رپورٹ میں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا مہوش محب کا انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

شمخانی ویڈیو: لباس نہیں، اخلاقی حدود کی پامالی کا سوال

اسلام ٹائمز: کسی بھی سماج میں اگر ہم کسی حکومت یا پالیسی پر تنقید کرتے ہیں، تو اس کے لیے اخلاقی حدود کا احترام لازمی ہے۔ جنگ ہو، سیاست ہو یا میڈیا کی کشمکش، کسی کی نجی زندگی کو ہتھیار بنانا ایک خطرناک رویہ ہے۔ جو لوگ آزادیِ اظہار یا خواتین کے حقوق کے نام پر کسی عورت کی نجی تقریب کی ویڈیو عام کرتے ہیں، وہ دراصل انہی اقدار کو مجروح کر رہے ہیں جن کا وہ دفاع کرتے ہیں۔ تحریر: ایس این سبزواری

ایران میں علی شمخانی کی بیٹی کی شادی کی ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد جس انداز سے عالمی اور علاقائی میڈیا نے شور برپا کیا، اس نے دو الگ نوعیت کے سوالات کو جنم دیا ہے: ایک وہ جو ایرانی حکومت کی دوغلی پالیسیوں سے متعلق ہے، اور دوسرا وہ جو اخلاقی اصولوں اور نجی زندگی کی حرمت سے تعلق رکھتا ہے۔

نجی زندگی اور اخلاقی اصول
عوام کو ایران میں ریاستی سطح پر بعض مواقع پر تضاد نظر آتا ہے۔ عوام کے لیے سخت قوانین اور اشرافیہ کے لیے نرمی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی کی نجی تقریب، خاص طور پر صرف خواتین کے لیے مخصوص اجتماع، کو سیاسی یا میڈیا ہتھیار بنانا کسی مہذب معاشرے میں قابلِ قبول نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ویڈیو ایک خواتین کی نجی تقریب جس میں صرف اور صرف خواتین تھیں کوئی نامحرم موجود نہیں تھا لیک ہوئی ہے، تو یہاں اصل جرم لباس نہیں بلکہ نجی محفل کی خلافِ اجازت فلم بندی اور لیک کرنا ہے۔ دنیا کے ہر مذہبی معاشرے میں، خواہ خواہ کسی مذہب یا فرقے یا کسی ملک سے تعلق رکھتے ہوں، خواتین اپنے دائرے میں آزادانہ لباس پہنتی ہیں، کیونکہ وہاں غیر محرم مرد موجود نہیں ہوتے۔ لہٰذا کسی ایسی محفل کی ویڈیو کو عوامی بنا کر ’’دوغلی پالیسی‘‘ کا ثبوت کہنا انصاف نہیں بلکہ اخلاقی انحطاط ہے۔

ثقافتی حقیقت کو سمجھنا
ایرانی خواتین، حتیٰ کہ سخت مذہبی گھرانوں میں بھی، نجی شادیوں یا گھریلو تقریبات میں مغربی طرز کے لباس پہنتی ہیں۔ یہ کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ ایرانی شہری ثقافت کا تسلسل ہے جو مذہبی حدود کے ساتھ ساتھ گھریلو نجی دائرے میں وجود رکھتا ہے۔ ایسے ماحول میں لباس کو تنقید کا ہدف بنانا، صرف اس لیے کہ ویڈیو لیک ہوئی ہے، دراصل ایرانی معاشرت کی اصل تقسیم ، یعنی عوامی اور نجی زندگی کے فرق کو نظر انداز کرنا ہے۔

سیاسی مفاد اور پروپیگنڈا
اس واقعے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ ویڈیو تقریباً ایک سال پرانی (اپریل 2024ء) ہے، مگر اب منظر عام پر آئی ہے۔ یہ وقت اور انتخاب بذاتِ خود اشارہ کرتا ہے کہ ویڈیو کے افشاء کے پیچھے سیاسی مقصد ہے، ممکنہ طور پر داخلی اختلافات یا بیرونی پروپیگنڈا۔ یہ وہی پرانی حکمتِ عملی ہے جس میں کسی ملک کے سماجی تضادات کو سیاسی ہتھیار بنا کر اس کے اندر خلفشار بڑھایا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایران میں تنقید کے کئی پہلو ہیں، مگر تنقید اگر کسی کی نجی محفل یا خاندان کی خواتین کی پرائیویسی کے استحصال سے ہو، تو وہ تنقید نہیں بلکہ انتقام بن جاتی ہے۔

اخلاقی توازن کی ضرورت
اصولاً، کسی بھی سماج میں اگر ہم کسی حکومت یا پالیسی پر تنقید کرتے ہیں، تو اس کے لیے اخلاقی حدود کا احترام لازمی ہے۔ جنگ ہو، سیاست ہو یا میڈیا کی کشمکش، کسی کی نجی زندگی کو ہتھیار بنانا ایک خطرناک رویہ ہے۔ جو لوگ آزادیِ اظہار یا خواتین کے حقوق کے نام پر کسی عورت کی نجی تقریب کی ویڈیو عام کرتے ہیں، وہ دراصل انہی اقدار کو مجروح کر رہے ہیں جن کا وہ دفاع کرتے ہیں۔ ایران کی پالیسیوں پر تنقید کی جا سکتی ہے، لیکن کسی کی بیٹی کی نجی شادی، وہ بھی خواتین کی مخصوص تقریب، کو سیاسی طنز یا پروپیگنڈا بنانا غیر اخلاقی اور غیر پیشہ ورانہ عمل ہے۔ یہ معاملہ ’’دوغلی پالیسی‘‘ سے زیادہ ’’اخلاقی دوغلے پن‘‘ کی نشاندہی کرتا ہے اور یہی بات سب سے زیادہ خطرناک ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کم کارڈیشیئن کونسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں؟ ماڈل کا انکشاف
  • سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات میں ایک دہائی بعد نمایاں کمی
  • خیبرپختونخوا کمیشن نسواں کا خیبر امن جرگہ میں خواتین کی شمولیت کا مطالبہ
  • راولپنڈی پولیس نے موبائل پولیس اسٹیشن لانچ کر دیا
  • ایوارڈ شوز میں مغربی لباس؛ فیشن ڈیزائنر کی پاکستانی اداکاراؤں پر تنقید
  • ایران کی دوغلی پالیسی یا امریکہ کی؟
  • شمخانی ویڈیو: لباس نہیں، اخلاقی حدود کی پامالی کا سوال
  • خیبر پی کے : گورنر بلٹ پروف گاڑیوں ک واپسی پررپورٹ طلب کرلی 
  • اجتماع عام ملکی تاریخ میں نیا باب رقم کرے گا ٗجاوداں فہیم