Express News:
2025-10-25@01:36:18 GMT

سیاسی استحکام

اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT

ملک میں سیاسی استحکام کی ذمے دار وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ملک کا اندرونی انتشار ختم کرنے کی زیادہ ذمے داری وفاقی حکومت کی ہے۔ ملک کے داخلی استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک صفحے پر آنا چاہیے جس کے لیے حکومت حکمت عملی بنائے۔

یہ درست ہے کہ ملک کے داخلی اور سیاسی استحکام کے لیے حکومت کے سوا کوئی بھی سیاسی جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ بٹھانے میں کامیاب ہو سکے یہ کام واقعی حکومت کا ہونا چاہیے جیساکہ اے پی ایس اسکول پشاور پر دہشت گردی کے بعد ہوا تھا اور وزیر اعظم نواز شریف نے آل پاکستان کانفرنس منعقد کی تھی جس میں خود چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی شرکت کی تھی اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔

سانحہ اے پی ایس کے بعد سے کوئی حکومت ملک کو درپیش کسی بھی اہم مسئلے پر کوئی ایسی اے پی سی منعقد کرنے میں کامیاب تو کیا ہوتی کسی حکومت نے ایسی کوشش تک نہیں کی۔ 2018 میں ایک منصوبے کے تحت پی ٹی آئی کو وفاق اور پنجاب میں برسر اقتدار لایا گیا تھا جب کہ 2013 سے کے پی میں پی ٹی آئی اور 2008 سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت چلی آ رہی تھی۔

2018 میں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں سب سے زیادہ نشستیں لی تھیں مگر (ن) لیگ کو نظرانداز اور دیگر پارٹیوں و آزاد ممبران کو ملوا کر پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت بانی پی ٹی آئی کی خواہش پر بنوائی گئی تھی جس کے بعد ملک میں داخلی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا تھا جو ختم کرانا اس وقت کے وزیر اعظم کی ترجیح تھی ہی نہیں جس کی وجہ سے انھوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اپنے سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا شروع کیا تھا اور ان کے عتاب سے صرف حکومتی حلیف پارٹیاں کسی حد تک محفوظ تو تھیں مگر حکومت میں ان کی بھی نہیں سنی جاتی تھی نہ ان سے کیے گئے وعدوں پر توجہ دی جاتی تھی۔

پی ٹی آئی حکومت نے سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیر اعظم نواز شریف، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف (ن) لیگ و پی پی کے سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف سمیت دونوں سابق حکمرانوں کے اہم رہنماؤں پر نیب سے مقدمات بنوائے اور انھیں گرفتار کرایا تھا صرف جے یو آئی محفوظ تھی مگر کسی حکومتی حلیف میں جرأت نہیں تھی کہ وہ وزیر اعظم کو سیاسی انتقام سے روکتے کہ وہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا نہ کریں جو اس وقت عروج پر تھا۔

آج کی طرح سیاسی تجزیہ کار بھی خاموش تھے وہ بھی حکومت کو سیاسی عدم استحکام کا ذمے دار قرار نہیں دیتے تھے اور زیادہ تر حکومت کے سیاسی انتقام پر خاموش رہتے تھے مگر آج ایسا نہیں ہے۔ شہباز شریف میں اتنا سیاسی انتقام نہیں ہے نہ ہی نیب کو اتنا فری ہینڈ ملا ہوا ہے جتنا پی ٹی آئی کے دور میں تھا۔

سابقہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی خوش ہے کہ بالاتروں کی اسے مکمل حمایت حاصل ہے اور یہی خوشی سابق وزیر اعظم کو تھی اور انھوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے راولپنڈی تک لانگ مارچ بھی کیا تھا جب کہ اس سے قبل ملک میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی سیاسی رہنما نے اپنے مفادات پورے نہ ہونے پر ریاستی اداروں کی بلاجواز مخالفت اتنی انتہا تک کی ہو۔ پی ٹی آئی نے مخالفت کا جو سلسلہ تین سال پہلے شروع کیا تھا اسے اب تک برقرار رکھا گیا ہے جب کہ دس مئی کی فتح کے بعد امریکی صدر سمیت دنیا پاکستان کے آرمی چیف کی گرویدہ ہو چکی ہے۔

موجودہ اسٹیبلشمنٹ صرف اپنے کام سے کام رکھے ہوئے ہے اور سیاسی معاملات سے دور ہے۔ ملک میں آج جو سیاسی تناؤ ہے اس کے خاتمے کی وزیر اعظم نے کوشش کی تھی جس پر کچھ مذاکرات بھی ہوئے پھر پی ٹی آئی نے خود انکار کر دیا کہ وہ حکومت سے مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتی بلکہ صرف اور صرف فوج سے مذاکرات کرے گی مگر فوج کی طرف سے انکار کر دیا گیا کہ وہ سیاسی معاملات میں فریق نہیں جس نے بھی مذاکرات کرنے ہیں حکومت کے ساتھ بیٹھ کر کرے۔ حکومت نے کبھی پی ٹی آئی سے مذاکرات سے انکار نہیں کیا نہ یہ کہا گیا کہ سیاسی استحکام ہماری ذمے داری نہیں ہے تو پھر پی ٹی آئی کی حمایت میں یہ کہا جاتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی ذمے دار حکومت ہے۔

حکومت تو کوشش کر چکی کہ اس کے اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی مذاکرات ہوں مگر بانی پی ٹی آئی موجودہ حکومت کو مانتے ہیں نہ مذاکرات چاہتے ہیں تو عدم استحکام کی ذمے داری صرف حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی، ہاں تجزیہ کاروں کا یہ موقف درست ہے کہ داخلی استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک صفحے پر ہونا چاہیے۔ حکومت اس سلسلے میں سیاسی پارٹیوں کو ایک صفحے پر لانے کی کوشش بھی کرے تو پی ٹی آئی کبھی راضی نہیں ہوگی کیونکہ انھیں سیاسی استحکام سے نہیں اپنے بانی کی رہائی سے دلچسپی ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ داخلی سیاسی استحکام کے لیے اے پی سی بھارت اور افغانستان کے اہم مسئلے پر ہی منعقد کرکے دیکھ لے تو پتا چل جائے گا کہ پی ٹی آئی اس میں شریک ہوتی ہے یا نہیں۔ پی ٹی آئی شریک ہوئی تو ملک میں سیاسی استحکام کی خواہش پوری ہو سکتی ہے اور یہ بھی پتا چل جائے گا کہ کون ملک میں سیاسی استحکام چاہتا ہے کون نہیں چاہتا اور عدم سیاسی استحکام کی ذمے داری کس پر عائد ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی عدم استحکام استحکام کے لیے استحکام کی ذمے سیاسی استحکام ملک میں سیاسی سیاسی انتقام پی ٹی آئی کی نہیں ہے کو ایک کے بعد

پڑھیں:

بلٹ پروف گاڑیاں: خیبرپختونخوا نے واپس کیں بلوچستان نے مانگ لیں دہشتگردی کے محاذ پر سیاسی گرما گرمی

بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر خیبرپختونخوا حکومت بلٹ پروف گاڑیاں لینے سے انکار کر رہی ہے تو انہیں بلوچستان حکومت کے حوالے کر دیا جائے تاکہ دہشتگردی کے خلاف مؤثر کارروائی کی جا سکے۔

سرفراز بگٹی نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں کہا کہ خیبر پختونخوا کی طرح بلوچستان بھی دہشتگردی سے متاثر ہے، اگر وہاں یہ گاڑیاں استعمال نہیں ہو رہیں تو ہمیں دی جائیں تاکہ ہم اپنے اہلکاروں کو بہتر تحفظ فراہم کر سکیں۔

مزید پڑھیں: ‘اپنی گاڑیاں واپس لے لو’، وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے وفاق کو یہ پیغام کیوں دیا؟

واضح رہے کہ خیبرپختونخوا کے نو منتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے فراہم کی گئی بلٹ پروف گاڑیوں کو ’ناقص‘ قرار دیتے ہوئے انہیں واپس کرنے کی ہدایت دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ گاڑیاں خیبرپختونخوا پولیس کی ’تضحیک‘ ہیں، انہیں واپس کیا جائے۔

خیبرپختونخواہ کی طرح بلوچستان بھی دہشت گردی سے متاثر ہے۔ وزیر داخلہ @MohsinNaqvi42 سے درخواست ہے کہ اگر خیبرپختونخواہ حکومت بلٹ پروف گاڑیاں لینے سے انکار کر رہی ہے تو انہیں حکومت بلوچستان کو منتقل کر دیا جائے تاکہ دہشت گردی کا مؤثر مقابلہ کیا جاسکے ۔

— Sarfraz Bugti (@PakSarfrazbugti) October 21, 2025

دوسری جانب وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے خیبر پختونخوا حکومت کے فیصلے کو ’غیرسنجیدہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلٹ پروف گاڑیاں وزیراعظم کی ہدایت پر دی گئیں، مگر صوبائی حکومت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: طلال چوہدری نے کے پی حکومت کی جانب سے بلٹ پروف گاڑیاں واپس کرنے کا فیصلہ بچکانہ قرار دیدیا

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بدلنے سے دہشتگردی کے خلاف آپریشن نہیں رکے گا۔ خیبرپختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ کو سمجھنا چاہیے کہ یہ جنگ پورے ملک کی ہے، سیاست نہیں ہونی چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلٹ پروف گاڑیاں بلوچستان خیبرپختونخوا سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ سہیل آفریدی وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری

متعلقہ مضامین

  • عالمی معیشت کا نیا موڑ: نمو کی رفتار، سیاست کے دباؤ میں
  • وفاقی حکومت نے تحفظات دور کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے، رہنما پی پی پی
  • حکومت کا رمضان المبارک کے لیے جامع قیمت استحکام پلان تیار کرنے کا فیصلہ
  • سیاسی بنیاد پر کسی جماعت پر پابندی کی قانون آئین و اجازت نہیں دیتا: راناثناء اللہ
  • کسی سیاسی جماعت پر پابندی کا طریقہ کار کیا ہے؟
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے قیدیوں کی سیاسی گفتگو پر پابندی بحال کر دی
  • سیاسی دباؤ یا دکھاوا
  • سیاسی اختلافات کی آڑ میں پنجاب حکومت عوام کے بنیادی حقوق سلب کر رہی ہے، وزیراعلیٰ کے پی کے سہیل آفریدی
  • بلٹ پروف گاڑیاں: خیبرپختونخوا نے واپس کیں بلوچستان نے مانگ لیں دہشتگردی کے محاذ پر سیاسی گرما گرمی