data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251025-03-7
مفتی منیب الرحمن
’’تَجد ِید‘‘ اور ’’تَجَدّْد‘‘ عربی زبان کے لفظ ہیں‘ ان دونوں کا مادّہ ’’ج د د‘‘ ہے۔ بابِ تفعیل سے تجدید کا لفظ معنوی اعتبار سے مْتعدّی استعمال ہوتا ہے‘ اس کے معنی ہیں: کسی شے کو نیا کرنا‘ یعنی کسی موجود چیز کو اْس کی اصل اور حقیقی حالت اور صورت کی طرف لوٹانا‘ اس کا اسم فاعل مْجدِّد ہے۔ اس کے برعکس باب تَفَعّْل سے ’’تَجَدّْد‘‘ کا لفظ معنی لازم میں استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان میں ’’تَجَدَّدَ الضَّرعْ‘‘ اس وقت بولا جاتا ہے کہ جب جانور کا پہلادودھ چلا جائے اور نیا دودھ آ جائے۔ پس تَجَدّْد کا معنی ہے: پہلے سے موجود کسی شے کا غائب ہو جانا اور اس کی جگہ نئی چیز کا آ جانا۔ چنانچہ پہلے والا دودھ دوہنے کے بعد جانور کے تھنوں میں جو نیا دودھ آئے گا وہ نیا تو ہے لیکن پہلے والا نہیں‘ الغرض دین کے سابق اصولوں کو ردّ کر کے تشکیل ِ جدید کا نام تجدّْد ہے۔ پس اسلام کی تجدید سے مراد دین ِ اسلام کی اصل تعلیمات پر پڑ جانے والے پردوں اور حجابات کو اْٹھانا اور دین کا اْجلا‘ بنیادی اور حقیقی تصور واضح کرنا ہے۔ مثلاً: رسول اللہؐ اور خلفائے راشدین کے دور میں دین ِ اسلام اپنی واضح‘ روشن اورحقیقی صورت میں موجود تھا۔ خلیفہ ٔ چہارم سیدنا علیؓ کے عہد ِ خلافت میں خوارج کا ظہور ہوا‘ ان کے عقائد دین ِ اسلام کے عقائد کے خلاف تھے‘ مثلاً: عورت کے ایامِ حیض میں رہ جانے والی نمازوں کی قضا خواتین پر فرض ہے‘ انہوں نے بندوں کو حَکم (ثالث) بنانے پر اکابر صحابہ کی تکفیر کی۔ اسی طرح معتزلہ وہ فرقہ تھا جس نے پہلی بار وحی کے مقابل عقل کو لاکھڑا کیا اورآخرت میں اعمال کے وزن اور عذابِ قبر کا انکار کیا‘ وغیرہ۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ لوگوں کے عقائد میں بگاڑ آنا شروع ہوا اور مْبتد ِع فرقوں اور گروہوں نے بہت سے باطل نظریات اور تصورات کو دین ِ اسلام کے نام پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ ائمہ دین نے ان باطل اَفکار ونظریات کی سختی سے تردید وتغلیط کی اور دین کے اْس حقیقی اور صحیح تصور کو اْجاگر کیا‘ جس پر ان گمراہ فرقوں کی کج بحثیوں کے نتیجے میں حجابات پڑ گئے تھے‘ یہی تجدید واحیائِ دین ہے اور اس کا فریضہ انجام دینے والے مْصلح کو ’’مْجدِّد‘‘ کہتے ہیں۔
ہمارے ہاں ’’تجدید ِ عہد‘‘ کی اصطلاح معروف ہے‘ اس سے مراد کوئی نیا عہد باندھنا نہیں‘ بلکہ پہلے سے موجود عہد کے بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھتے ہوئے اْسے پختہ اور نیا کرنا ہے‘ کیونکہ اگر بنیادی ڈھانچہ ہی بدل دیا جائے تو اسے معاہدہ کی تجدید سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا‘ بلکہ وہ نیا معاہدہ کہلاتا ہے۔ الغرض اسلام اور دین کی تجدید سے مراد کوئی نیا دین اور اسلام پیش کرنا نہیں ہے‘ بلکہ پہلے سے موجود دین پر گمراہ اور بدعتی فرقوں کی طرف سے ڈالے گئے حجابات کو رفع کرتے ہوئے اسلام کو باطل کی تلبیسات‘ ابہامات‘ تحریفات‘ شبہات اور اضافات سے پاک کر کے پیش کرنا ہے۔ اس کے برعکس دین میں تَجَدّْد کا مطلب ہے: ’’اصل دین اور اسلام کے مسلّمہ ومتفقہ علمی اور فقہی اْصول وضوابط کوچھوڑ کر اْس کے احکام وقوانین کی ایسی نئی تعبیر وتشریح کرنا جو دین کی اصل روح کے منافی ہو‘ بلکہ بعض صورتوں میں اس کی ضد ہو‘‘۔ چونکہ تَجَدّْد کے لفظی معنیٰ میں تکلّْف وتصنّْع پایا جاتا ہے‘ سو اس عمل کے لیے یہ لفظ زیادہ موزوں سمجھا گیا ہے کہ اس کی حیثیت ’’بے جا تکلّف‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی اور اس قسم کی جدت پیدا کرنے والے کو ’’مْتَجَدِّد‘‘ کہا جاتا ہے۔
نبوت ورسالت کا سلسلہ نبی کریمؐ کی ذاتِ اطہر پر اختتام کو پہنچ چکا‘ لیکن دین تاقیامت جاری رہے گا۔ لہٰذا دین کی بقا اور تاقیامت اسے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظامات کر دیے گئے ہیں اور نبی کریمؐ نے امت کو اس کی نوید سْناتے ہوئے فرمایا: ’’بیشک اللہ تعالیٰ اس اْمت کے لیے ہر صدی کے سرے پر ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اْس کے لیے اْس کے دین کی تجدید کا فریضہ انجام دے گا‘‘ (ابودائود)۔ تجدید اور مجدِّد کی اصطلاح نبی کریمؐ کے اسی فرمان سے اخذ کی گئی ہے۔ جس طرح کھیت اور باغ میں کچھ خودرو پودے اْگتے رہتے ہیں‘ جن کی کسان یا باغ کا مالی وقفے وقفے سے چھانٹی کرتا رہتا ہے تاکہ زمین سے حاصل ہونے والی توانائی جھاڑ جھنکار پر ضائع نہ ہو بلکہ اصل تنے کو تقویت بخشے۔ اسی طرح زمانے کی تبدیلیوں اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جب دین کی بعض تعلیمات مٹ جاتی ہیں یا اْن میں باطل کی آمیزش کر دی جاتی ہے یا دین کی بعض ہدایات کو اپنی خواہشات کے تابع بنا دیا جاتا ہے‘ بدعات ومْنکَرات اہل ِ دین میں نفوذ کر جاتی ہیں اور دین کا روشن چہرہ دھندلانے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ پردۂ غیب سے توفیق ِ خیر کے حامل ایسے رجالِ کار کو غیر معمولی علمی وفکری صلاحیتوں‘ قوتِ عملی اور جذبۂ صادق سے فیض یاب کر کے ظاہر فرماتا ہے‘ جو دین میں نئی روح پھونکتے ہیں اور اْسے اْس کی اصل روح کے مطابق نکھارنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور دین کی تعلیمات کو باطل کی ہر آمیزش سے پاک وصاف کرکے اس کی اصل پاکیزہ شکل میں دوبارہ پیش کرتے ہیں‘ اسی کو تجدید واِحیائے دین کہتے ہیں۔ وہ اجتہاد جو شریعت کو مطلوب ہے‘ وہ شریعت کی روح اور ابدی اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے عہد کے تقاضوں کو سمجھنے اور صحیح اور فاسد میں تمیز کرنے کا نام ہے۔
مجدد پر کوئی وحی نازل ہوتی ہے اور نہ اس کی بعثت کا باقاعدہ اعلان ہوتا ہے‘ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے اْس کے دل میں کوئی بات ڈال دے‘ اسی کو الہام کہتے ہیں۔ بس وہ اپنے مزاج میں مزاجِ نبوت کے بہت قریب ہوتا ہے‘ انتہائی پاکیزہ دماغ‘ حق گو‘ صاحب ِ بصیرت‘ فکری وعملی کجی سے پاک‘ افراط وتفریط سے دور‘ اعتدال کا مظہر‘ ماحول کے راسخ اور رچے بسے تعصبات سے آزاد‘ جرأت مند‘ بے باک‘ اجتہاد اور تعمیر ِ نو کی اہلیت سے معمور‘ نیز اسلام اور جاہلیت وتجاہل میں کمالِ فرق کا حامل ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے کسی نیک اور عالم بندے کو ایسی صلاحیت‘ فراست اور توفیق سے بہرہ ور کر دیتا ہے جو یہ خدمت انجام دیتا ہے۔ اہل ِ علم اس کی محنت‘ جدوجْہد اور کامیابی کے ثمرات سے پہچان کر اْسے مجدِّد کے لقب سے موسوم کرتے ہیں۔ پس مْجَدِّد اللہ کے نبی کی طرح منصوص نہیں ہوتا کہ اس کی مجددیت کا انکار کفر قرار پائے‘ اْسے ہر دور میں اہل ِ نظر اور اہل ِ علم اس کے تجدیدی کارناموں سے جان لیتے ہیں‘ جیسے ولی بھی مْجَدِّد کی طرح منصوص نہیں ہوتا‘ بلکہ اہل ِ دین اسے اس کے زْہد واتقاء اور راستی ِ فکر وعمل سے پہچان لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کی علامت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’جو ایمان لائے اور تقویٰ پر کاربند رہے‘‘۔ (یونس: 63) (2) ’’اْس (مسجد ِ حرام) کے متولّی تو صرف متقی مسلمان ہی ہوتے ہیں‘ لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘۔ (الانفال: 34) حدیث پاک میں ہے: ’’نبیؐ نے فرمایا: میں تمہیں (امت کے) بہترین افراد کے بارے میں بتا نہ دوں‘ صحابۂ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہؐ! ضرور بتائیے‘ آپؐ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان (کے نورانی چہرے) پر نظر پڑے تو اللہ یاد آ جائے‘‘۔ (مسند احمد) یہی وجہ ہے کہ مطلقاً منصب ِ ولایت کا انکار کفر ہے‘ لیکن کسی غیر منصوص ولی کی ولایت کا انکار کفر نہیں ہے۔
بعض حضرات کے نزدیک مجدِّد ہر صدی میں صرف کوئی ایک ہی شخصیت ہوتی ہے‘ لیکن شارحین حدیث اور اہل ِ علم حضرات کی ایک جماعت کے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ روئے زمین کے مختلف خطوں میں اپنے اپنے زمینی حقائق اور تقاضوں کے اعتبار سے ایک وقت میں کئی مْجدِّد ہو سکتے ہیں‘ نیز ہر شعبے کے مْجدِّد الگ الگ بھی ہو سکتے ہیں۔ علامہ علی القاری کے بقول بعض اوقات علماء وصلحاء کی ایک جماعت مل کر بھی تجدیدی کارنامہ انجام دیتی ہے‘ جیسے عہد ِ صدیقی میں پوری جماعت ِ صحابہ نے اولاً اور اس کے بعد 7 ستمبر 1974ء کو پوری ملت اسلامیہ پاکستان نے اجتماعی طور پر منکرین ختم ِ نبوت اور جعلی نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کو مْرتَد اور خارج از اسلام قرار دیا۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ کوئی شخص خود اپنے مجدِّد ہونے کا دعویٰ کرے‘ بلکہ اہل ِ علم اْن کے تجدیدی کارناموں کے سبب اْنہیں جان لیتے ہیں۔ (جاری)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اللہ تعالی کی تجدید کا انکار اور دین جاتا ہے ہیں اور ہوتا ہے ا نہیں دین کی کے لیے اور اس کی اصل
پڑھیں:
شازیہ مری: وفاق نے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی، مزید مسائل پیدا کرنا ہمارا مقصد نہیں
پاکستان پیپلزپارٹی کی ترجمان شازیہ مری نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے ہمیں تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور ہمارا مقصد ملک میں مزید مسائل پیدا کرنا نہیں ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران شازیہ مری نے کہا کہ پولیو وائرس ہمارے بچوں کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، اور سندھ بھر میں پولیو سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات جاری ہیں، تاہم بدقسمتی سے آج بھی ملک میں پولیو کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔
انہوں نے زراعت کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ کسان مضبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگا، کیونکہ زراعت ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ صدر آصف علی زرداری ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ زراعت کو مضبوط کرنا ضروری ہے، اور اگر کسانوں پر توجہ نہ دی گئی تو نقصان صرف کسی حکومت کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہوگا۔
پیپلزپارٹی کی ترجمان نے کہا کہ کسانوں کو مضبوط بنانے سے ملک کی معیشت مضبوط ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ (ن) لیگ کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا اور پی ایس ڈی پی (قومی ترقیاتی منصوبہ) کو مشترکہ طور پر بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
شازیہ مری نے مزید کہا کہ اگر بند کمروں میں پی ایس ڈی پی تیار کی جائے تو یہ ناانصافی ہوگی۔ وفاقی حکومت نے ہمیں تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ ملک کے مزید مسائل پیدا ہوں۔