پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما قمرزمان کائرہ نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں نیا وزیراعظم پیپلز پارٹی کے 3 سینئر رہنماؤں میں سے ہوگا اور حتمی فیصلہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کریں گے۔

نجی ٹی وی سے گفتگو میں قمرزمان کائرہ سے پوچھا گیا کہ پیپلز پارٹی آزاد کشمیر میں آخری دنوں میں حکومت کیوں لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں حکومت لینا کوئی شوق نہیں ہے، الیکشن نزدیک ہیں اور الیکشن کے قریب حکومت لینا ایک چیلنج ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آزاد کشمیر میں حکومت سازی: پیپلزپارٹی نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کے لیے نمبر پورے کرلیے

قمرزمان کائرہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی اس وقت آزاد کشمیر اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہے اور حالیہ دنوں میں جو صورتحال پیدا ہوئی، وہ مذاکرات کے بعد بھی کنٹرول نہیں ہو پارہی۔ نئے الیکشن کو ابھی 8 سے 9 مہینے باقی ہیں، اس لیے ہم نے اس عرصے کے لیے حکومت لی ہے کہ وہاں کم از کم کسی کا انتظام تو ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت مسائل کی وجہ بنی رہی اور مسائل حل نہیں کر پائی، یہی وجہ ہے کہ ہم حکومت لے رہے ہیں، ورنہ الیکشن کے قریب آ کر حکومت لینا دانشمندی نہیں ہوتی۔

ایکشن کمیٹی کے مطالبات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایکشن کمیٹی کے مطالبات حل کرنے کی وجہ سے ہی یہ حکومت تبدیل ہو رہی ہے اور ایکشن کمیٹی کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے بارے میں ہم عوامی خواہشات کے عین مطابق مخلص ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آزاد کشمیر عدم اعتماد: بیرسٹر سلطان گروپ کے 6 ارکان اسمبلی کا پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا اعلان

وزیراعظم شہباز شریف کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے واضح کہا ہے کہ ایکشن کمیٹی کے ساتھ جو وعدے ہیں، وہ پورے کیے جائیں۔ مہاجرین کی نشستوں کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ ہوا تھا، جس میں وفاقی حکومت 2 نام دے، آزاد کشمیر حکومت 2 نام دے اور ایکشن کمیٹی کے ممبران شامل ہوں گے؛ یہ کمیٹی ابھی تک بن جانی چاہیے تھی جو وہاں کی سابق حکومت کا کام تھا مگر وہ یہ کام نہیں کر سکی۔

تحریک عدم اعتماد میں مسلم لیگ ن کے ووٹ دینے کے سوال پر قمرزمان کائرہ نے کہا کہ سمجھ لیجیے کہ ہاں، اگرچہ مسلم لیگ ن نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن کشمیر کو موجودہ بحرانی صورتحال سے نکالنے میں مسلم لیگ ن بھی پیچھے نہیں رہے گی۔ ان کے بقول انہیں امید ہے کہ مسلم لیگ ن حکومت سازی کے لیے پیپلز پارٹی کو ووٹ دے گی کیونکہ وہ بھی نہیں چاہتی کہ حالات بگڑیں۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کا آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کا اعلان، نیا وزیراعظم کون ہوگا؟

حالات کی خرابی میں وزیراعظم آزاد کشمیر کے کردار کے بارے میں قمرزمان کائرہ نے کہا کہ عوام کی صحت، مہنگائی اور دیگر مطالبات کو وقت پر ہینڈل نہ کرنا ان کی ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے تو بنا لی لیکن 6 ماہ تک کسی کو پورٹ فولیو ہی نہیں دیا، سب کچھ مرکزی کر لیا جو پارلیمانی نظام میں درست نہیں۔

اگلے وزیراعظم کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مشاورت جاری ہے اور پارٹی کے سینئر ناموں میں سے ہی کوئی وزیراعظم ہوگا۔ ان میں چوہدری یسین اور چوہدری لطیف اکبر کے نام شامل ہیں جبکہ سابق وزیراعظم سردار یعقوب کے بارے میں بھی غور کیا جا رہا ہے۔ حتمی فیصلہ بلاول بھٹو زرداری کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news آزاد کشمیر پیپلز پارٹی تحریک عدم اعتماد قمرزمان کائرہ مسلم لیگ ن نیا وزیراعظم.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی تحریک عدم اعتماد قمرزمان کائرہ مسلم لیگ ن نیا وزیراعظم قمرزمان کائرہ نے کہا انہوں نے کہا کہ ایکشن کمیٹی کے نیا وزیراعظم پیپلز پارٹی کے بارے میں مسلم لیگ ن میں حکومت کے لیے

پڑھیں:

خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانا میرا یا میری پارٹی کا مطالبہ نہیں ہے: بلاول بھٹو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ میں کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کے حامی نہیں ہوں۔

لاہور میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے موجودہ ملکی فضا کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک بار پھر سنگین خطرات سے دوچار ہے، افغانستان سے درپیش خدشات درست ثابت ہورہے ہیں لیکن پاکستانی فوج بہادری سے ان چیلنجز کا مقابلہ کر رہی ہے۔

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ سیاست اپنی جگہ مگر ملکی سلامتی اولین ترجیح ہے، اس موقع پر سب کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے، خیبر پختونخوامیں گورنر راج لگانا میرا یا میری پارٹی کا مطالبہ نہیں ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے مریم نواز کے سندھ سے الیکشن لڑنے کے امکان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات لازمی ہیں، تاکہ کسی وزیرِاعظم یا وزیرِاعلیٰ پر ’سلیکٹڈ‘ یا ’فارم 47‘ جیسے تنازعات دوبارہ جنم نہ لیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بعض سیاسی عناصر اپنے رویے سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں اور ایک جماعت تو ایسا کردار ادا کر رہی ہے جو عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان فاصلہ بڑھانے کی کوشش کے مترادف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاست کو سیاسی دائرے تک محدود رکھنا چاہیے، کیونکہ غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل ملک کے لیے نقصان دہ ہے، اگر صوبے میں کوئی قوت دہشت گردوں کی مددگار ثابت ہوئی تو پھر ایسے سخت اقدام پر غور ناگزیر ہوجائے گا۔

انہوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ پیپلز پارٹی نے کے پی میں گورنر راج کا مطالبہ نہیں کیا، نہ ہی میں کسی پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے حق میں ہوں، مگر اگر کسی گروہ کی پشت پناہی سے دہشت گردی نے سر اٹھایا تو ریاست کو فیصلہ کن اقدام پر مجبور ہونا پڑے گا۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • فیض حمید طاقت کے نشے میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے رہے، بلاول بھٹو
  • خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانا میرا یا میری پارٹی کا مطالبہ نہیں ہے: بلاول بھٹو
  • انسانی حقوق کو تعلیم، صحت اور انصاف تک حقیقی رسائی میں تبدیل کرنا ہو گا: بلاول بھٹو
  •  عملی زندگی میں تعلیم، روزگار  اور انصاف تک حقیقی رسائی میں تبدیل کرنا ہو گا: بلاول بھٹو
  •  خورشید شاہ نے پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی پیشکش کی تھی، مصدق ملک کا دعویٰ
  • الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی نے بذریعہ خورشید شاہ و ندیم چن پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی آفر کی تھی: مصدق ملک
  • پیپلز پارٹی نے خورشید شاہ اور ندیم افضل چن کے ذریعے پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی پیشکش کی، مصدق ملک
  • معیشت کو ڈنڈے سے نہیں چلایا جا سکتا، ضلعی اکانومی ناگزیر ہے، بلاول
  • وزیراعظم سینٹرلائزیشن، پیپلز پارٹی ڈی سینٹرلائزیشن پر یقین رکھتی ہے، بلاول بھٹو
  • سندھ حکومت نے تمام کاموں کی ای ٹینڈرنگ کا فیصلہ کیا ہے، شرجیل میمن