data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جدہ (سید مسرت خلیل پھلواری) میمن ویلفیئر سوسائٹی سعودی عرب (ماسا) کی 13ویں سالانہ تعلیمی تقریب تقسیم ایوارڈزجدہ کے مقامی ہال میں منعقد ہوئی۔ تقریب کے مہمان خصوصی عزت ماٰب خالد مجید قونصل جنرل پاکستان جدہ تھے۔ جنہوں نے میمن برادری کے ان طلبا و طالبات کی تعلیمی میدان میں لگن اورمحنت کو تسلیم کرتے ہوئے ایوارڈز اور سرٹیفکیٹس سے نوازا۔ تقریب کی نظامت عمران مسقطیہ نے کی ۔ تقریب کی کاروائی کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کی سعادت مریم فرحان نے حاصل کی۔ زرمین احمد نے ترجمہ پیش کیا۔ نعت رسول مقبولﷺ علی خالد نے پیش کیا۔ ماسا کےصدر وسیم عبدالرزاق تائی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ کامیاب طلبہ و طالبات کو مبارکباد دی اور ان کی تعلیمی کامیابیوں کو سراہا۔ جنرل سکریٹری صادق سوراتھیا نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ علم کے بغیرعمل بے معنی ہے اورتعلیم کے بغیر شخصی ترقی ادھوری ہے۔ مہمان خصوصی قونصل جنرل پاکستان خالد مجید نے پُروقارتقریب کے انعقاد پرخوشی کا اظہارکرتے ہوئے ماسا کے عہداداران اور اراکین کو مبارکباد دی۔ کامیاب طالب علموں کی حوصلہ افزائی اور مستقبل میں ان کی ترقی کے لئے دعا کی۔ انھوں نے تالیوں کی گونج میں ماسا کے سرگرم رضا کار خالد اسکندر کو ان کی سماجی اور فلاحی خدمات پر2025 کا عبدالستارایدھی ایوارڈ پیش کیا۔ قونصل جنرل نے اپنے خطاب میں قونصلیٹ اورجانب سے بھرپورتعاون کا اعادہ بھی کیا۔ اس موقع پرقونصلیت افسران ، پریس قونصلرمحمد عرفان اور عملہ کے دیگر ممبران بھی موجود تھے۔ تقریب میں ورلڈ میمن آرگنائزیشن کے بانی لیجنڈری عبدالرزاق یعقوب (اے آر وائی) کی صاحبزادی شبانہ عبدالرزاق اورکامران غنی نے دبئی سے بطور مہمانِ خاص شرکت کی۔ تقریب کے اختتام پر صدر، نائب صدر، اور جنرل سکریٹری نے تمام اسپانسرز اور میڈیا کے نمائندوں کے تعاون کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اختتام پر تمام مہمانوں کو ڈنر پیش کیا گیا۔

سید مسرت خلیل گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پیش کیا

پڑھیں:

''داخلہ لیجیے'' …ایک تعلیمی مرثیہ

محمد آصف

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے ، مگر بدقسمتی سے پاکستان کا تعلیمی نظام کئی دہائیوں سے زوال کا شکار ہے ۔ یہ زوال کسی اتفاق یا وقتی بحران کا نتیجہ نہیں بلکہ پالیسی کی مسلسل ناکامیوں، بجٹ میں کٹوتیوں، سیاسی مداخلت اور سماجی بے حسی کا حاصل ہے ۔ آج ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں تعلیم کو قومی ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ کاروبار بنا دیا گیا ہے ۔
تعلیم کو کبھی ترجیح نہ دینا :پاکستان کی قومی پالیسی میں تعلیم کو کبھی حقیقی ترجیح حاصل نہیں رہی۔ تعلیمی بجٹ ہمیشہ دوسرے شعبوں کے مقابلے میں کم رکھا گیا۔ یونیسف کے مطابق پاکستان اپنی مجموعی قومی پیداوار (GDP)کا صرف 2 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے ، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے ۔ جب سرمایہ کاری ناکافی ہو تو نظام ترقی نہیں کر سکتا، نتیجتاً تعلیمی ڈھانچے کی تباہی، پرانے نصاب، اور غیرمتوجہ اساتذہ سامنے آتے ہیں۔
نجکاری اور طبقاتی خلیج میں اضافہ:تعلیم اب ایک منافع بخش جنس (commodity) بن چکی ہے ۔ مہنگے نجی اسکول اور یونیورسٹیاں صرف امیر طبقے کے لیے دستیاب ہیں، جبکہ غریب اور متوسط طبقہ کمزور سرکاری اداروں میں پسماندگی کا شکار ہے ۔ اس دوہری تعلیمی ساخت نے معاشرتی طبقاتی خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے ایک تعلیم امیروں کے لیے جدید اور مہنگی، اور دوسری باقی قوم کے لیے فرسودہ اور ناکافی۔ اس نظام نے سماجی ترقی اور برابری کے امکانات کو ختم کر دیا ہے ۔
استحصال کا شکار معلم :جو پیشہ کبھی معمارِ قوم کہلاتا تھا، آج بدترین معاشی حالات میں ہے ۔ سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں اساتذہ کم تنخواہوں، غیر یقینی معاہدوں، اور بغیر سہولیات کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اساتذہ کے وقار کے ساتھ ساتھ تعلیم کے معیار میں بھی شدید کمی آئی ہے ۔ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے اساتذہ عزت اور تحفظ کے ساتھ زندگی نہ گزاریں۔ عوامی ذمہ داری کا تجارتی استحصال : نجکاری کو عموماً کارکردگی بہتر بنانے کے نام پر پیش کیا جاتا ہے ، مگر پاکستان میں یہ دراصل ریاست کی آئینی ذمہ داری سے فرار کا ذریعہ بن چکی ہے ۔ مفت اور معیاری تعلیم فراہم کرنا ریاست کا فرض تھا، مگر نجی اداروں کو کنٹرول سونپ کر حکومت نے تعلیم کو منافع بخش کاروبار بنا دیا ہے ۔ تعلیم اب خدمت نہیں، تجارت ہے ۔
نجی تعلیم کا فریب :نجی ادارے بظاہر جدید عمارات، یونیفارم اور انگریزی تعلیم کے ذریعے اپنی برتری ظاہر کرتے ہیں، مگر اکثر میں علمی معیار کا شدید فقدان ہے ۔ والدین ظاہری چمک دمک سے متاثر ہوتے ہیں، جبکہ طلبہ کو محض رٹّے اور امتحان کے نمبروں تک محدود کر دیا گیا ہے ۔ نتیجتاً ڈگریاں تو چمکتی ہیں، مگر مستقبل اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے ۔ تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت :سرکاری اداروں میں میرٹ کی جگہ سیاست نے لے لی ہے ۔ یونیورسٹیوں میں تعیناتیاں، تبادلے ، اور انتظامی فیصلے اکثر سیاسی وفاداری کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ وائس چانسلر سے لے کر استاد تک، قابلیت کے بجائے تعلقات کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ یہ رجحان علمی اداروں کی خودمختاری اور ساکھ دونوں کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے ۔
پرانا نصاب اور غیر متعلقہ تعلیم:پاکستان کا نصاب جدید دنیا کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ حفظ اور رٹّے پر مبنی ہے ، تخلیق اور عملی مہارتوں سے خالی۔ ٹیکنالوجی، اختراع اور عملی تربیت پر توجہ نہ ہونے کے باعث طلبہ عالمی معیار کی مسابقت تو کیا، مقامی منڈی میں بھی مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ نوجوان نسل کی بے سمتی اور بدلتے نمونے : آج کے نوجوان تعلیم کے بجائے فری لانسنگ، سوشل میڈیا، یوٹیوب اور ٹک ٹاک جیسے غیر رسمی ذرائع آمدن کی طرف مائل ہیں۔ جب ایک یوٹیوبر کسی پروفیسر سے بیس گنا زیادہ کماتا ہے تو نوجوان کیوں تعلیم حاصل کرے ؟ نتیجتاً تعلیمی اداروں سے دلچسپی کم ہو رہی ہے اور معاشرتی سطح پر ”بغیر ڈگری کے کامیابی” ایک نیا معیار بن چکا ہے ۔
”داخلہ لیجیے” … ایک تعلیمی مرثیہ: داخلہ لیجیے … آدھی فیس میں، قسطوں پر، اسکالرشپ کے ساتھ… بہترین عمارتیں، پی ایچ ڈی فیکلٹی، کشادہ کیمپس… یہ نعرے آج سوشل میڈیا پر گونجتے ہیں۔ مگر یہ اشتہارات نہیں، ایک زوال پذیر نظام کی آہ و بکا ہیں۔ وہ نظام جس میں کبھی عزت یافتہ اساتذہ آج سیلز مین بن کر داخلوں کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ تدریس کا مقدس پیشہ اب معاشی شکست خوردہ طبقے کا آخری سہارا بن چکا ہے ۔ یہ آوازیں تاجروں کی نہیں، اساتذہ کی ہیں انبیاء کے وارث، جو اب عزت بچانے کے لیے غربت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ کبھی حکومتی کالجز کو خودمختاری دینے کے وعدے ہوئے ، یونیورسٹیاں تیزی سے قائم کی گئیں، فنڈز بھی آئے ، مگر جلد ہی وہ رُک گئے ۔ اب یونیورسٹیاں مکمل طور پر فیسوں پر چل رہی ہیں، جو عام عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکی ہیں۔ دوسری طرف، وہ کالجز جو کم فیس والے BS پروگرام چلا رہے ہیں، یونیورسٹیوں کے دباؤ کا شکار ہیں۔ ایک خاموش”تعلیمی جنگ”جاری ہے جہاں ادارے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
خاموش ریاست: اس تمام تباہی میں ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ تعلیم جو قوموں کو عروج دیتی ہے حکمرانوں کی نظر میں بوجھ بن چکی ہے ۔ فلاحی ریاست کا خواب اشرافیہ کے شاہانہ اخراجات میں دفن ہو چکا ہے ۔ روم جل رہا ہے ، اور نیرو بانسری بجا رہا ہے ۔ یوں اساتذہ ۔۔۔ جو نبیوں کے وارث ہیں ۔۔۔ بے بسی سے پکار رہے ہیں:”;داخلہ لیجیے … داخلہ لیجیے …
نتیجہ:تعلیم کو قومی بقا کی حکمتِ عملی بنانا ہوگا پاکستان کا تعلیمی بحران دراصل نظام کے مکمل انہدام کی علامت ہے ۔ جب تک میرٹ، اساتذہ کا احترام، نصاب کی جدیدیت، اور حقیقی عوامی سرمایہ کاری بحال نہیں ہوتی، ہم جہالت اور ناانصافی پر مبنی مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں مزید نجکاری نہیں چاہیے ۔ ہمیں مقصد میں انقلاب چاہیے ۔تعلیم کو کاروبار یا بوجھ نہیں بلکہ قومی بقا کی حکمت ِعملی کے طور پر اپنانا ہوگا۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • سعید غنی محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کریں‘ خالد خان
  • ریاض میں بازوں کی سالانہ نیلامی، 2 باز 5 لاکھ 78 ہزار ریال میں فروخت
  • کراچی سمیت ملک بھر میں بجلی مہنگی کرنے کی درخواست، نیپرا 6 نومبر کو سماعت کرے گا
  • ''داخلہ لیجیے'' …ایک تعلیمی مرثیہ
  • سلیم میمن ایف بی آر سیلز جنرل آرڈر کی تاجر نمائندوں کی فہرست میں شامل
  • جامعہ کراچی میں سیرت مصطفی ﷺ سوشل ویلفیئر کے تحت رحمت اللعالمین ﷺ کانفرنس سے شیخ الجامہ پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی خطاب کررہے ہیں
  • گورنر کاٹیج پاراچنار میں تقریب کا انعقاد
  • پاراچنار، گورنر کاٹیج تقریب کا انعقادا، طلبہ اور اساتذہ میں انعامات تقسیم
  • عاجز دھامرا اور فلاحی تنظیموں کے تعاون سے معذور افراد میں وہیل چیئرز تقسیم