Express News:
2025-10-26@23:38:55 GMT

مرید کے کا سبق

اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT

کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں آنے کے راستے تو بہت سے ہیں، البتہ واپسی کا راستہ کوئی نہیں۔ اس بار لاہور جا کر اسی قسم کا تجربہ ہوا۔ اس شہرِ خوبی میں ہماری آمد بدھ کی شام ہوئی تھی۔ جمعے کی شب اور ہفتے کی صبح واپسی کا ارادہ باندھا، لیکن معلوم ہوا کہ راستے بند ہیں، لہٰذا واپسی ناممکن ہے۔ اب کیا کریں؟ ساری رات اور اگلا دن امید و بیم میں گزر گیا۔ایک زمانے میں کراچی بھی ایسے تجربوں سے گزر چکا ہے۔

خدا خدا کر کے کراچی نے ان عذابوں سے نجات پائی، لیکن لاہور اس عفریت کی گرفت میں آ گیا۔ کوئی گروہ جب جی چاہے، سڑکوں پر نکل کر دند مچا دیتا ہے۔ قومی زندگی میں 2011 ء سے 2015 ء کا زمانہ کئی وجوہ سے یاد رکھا جائے گا۔ اس کی ایک وجہ میثاقِ جمہوریت کے تاریخی اتفاقِ رائے کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایک وسیع البنیاد بندوبست کیا جانا تھا۔ اسی زمانے میں ملک میں شدت پسندی کی نئی قسم متعارف کرائی گئی۔

یہ اسی عہدِ کم ظرف کی دین ہے کہ جب بھی کوئی شدت پسند گروہ حرکت میں آتا ہے تو اس کی زبان اور ہاتھ سے کوئی محفوظ نہیں رہتا۔ وطنِ عزیز کے اعصابی نظام، یعنی شاہراہوں پر قبضہ کر کے نظامِ زندگی کو معطل کر دیتا ہے۔ کوئی بھی گروہ اگر قانون کو ہاتھ میں لے کر عوام کے جان و مال کے لیے خطرہ بن جائے تو اس سے نمٹنے کے لیے قانون موجود ہے۔

لیکن اگر کسی گروہ کو اس کی تمام تر قانون شکنی کے باوجود سیاسی اور مذہبی عصبیت بھی حاصل ہو جائے تو مشکل بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے عہد کا مسئلہ بھی یہی ہے، جس کی مثالیں سیاست سے لے کر مذہب تک دیکھی جا سکتی ہیں۔ قانون شکنی کے ذریعے ریاست کو غیر مستحکم کرنے والے یہ تمام عوامل ہمارے لیے تشویش کا باعث ہیں، اور حکمت کا دامن تھام کر ان سے نمٹنے کی تدبیر ہمیں کرنی چاہیے۔

کیا سبب ہے کہ بعض مذہبی گروہ یا سیاسی عناصر اپنی سرگرمیوں میں تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور قانون کو ہاتھ میں لے کر انارکی پیدا کر دیتے ہیں؟ ہمارے عہد کا یہ سب سے بڑا سوال ہے۔

ہماری سیاسی تاریخ قابلِ رشک نہیں رہی، لیکن اس کے باوجود سیاسی عمل میں رکھ رکھاؤ موجود تھا۔ علمائے کرام اور سیاسی قائدین مخالفین کا ذکر احترام سے کیا کرتے تھے۔ کسی اختلافی مسئلے پر اگر کوئی چل کر کسی کے پاس چلا جاتا تو اس کا احترام کیا جاتا، تنازع ختم ہو جاتا اور ایک دوسرے پر گولہ باری کرتی ہوئی مخالفین کی توپیں خاموش ہو جاتیں۔ لیکن 2014 ء میں صورتِ حال بدل گئی۔

علی الاعلان ایسی تکلیف دہ باتیں کہی گئیں جنھیں شرفا زبان پر لانا پسند نہیں کرتے۔ بانی پی ٹی آئی کے دھرنے نے چین کے صدر کا دورہ منسوخ کرا دیا۔ انھوں نے حکومت کی تو ایک نہ سنی، خود حکومتِ چین کا ہاتھ بھی جھٹک دیا۔ بعد میں صدر شی جن پنگ کا دورہ پاکستان ممکن ہوا اور انھوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تو عمران خان اور ان کی جماعت نے اس کا بھی بائیکاٹ کیا۔

قاعدہ یہ ہے کہ ایسے موقع پر سیاسی مخالفین اپنے اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر کچھ دیر کے لیے ملتوی کر کے قومی یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے، لیکن چینی صدر کے دورے کے موقع پر جس کٹھور پن کا مظاہرہ ہوا، دنیا نے پہلی بار اسے حیرت کے ساتھ دیکھا۔ کچھ اسی قسم کی روایات اس زمانے میں منظم ہونے والے گروہ نے بھی ڈالیں۔

ہمارے یہاں مختلف نوعیتوں کی شدت پسندی کی روایت دم توڑتی ہوئی سرد جنگ کے ساتھ مضبوط ہوئی، جس میں کشیدگی اور تصادم دونوں شامل تھے۔ اس تقسیم نے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، لیکن اکیسویں صدی کی دوسری دہائی سے شروع ہونے والی کشیدگی نے تمام حدیں پار کر دیں۔

ماضی کی کشیدگی اور حالیہ کشیدگی میں ایک جوہری فرق تھا۔ سرد جنگ والی کشیدگی مختلف فریقوں کے درمیان تھی جب کہ حالیہ کشیدگی نے ریاست کو نشانہ بنایا، جس سے ریاست کمزور ہوئی۔ لاہورمریدکے کا حالیہ شو ڈان بھی اسی طرزِ عمل کی تکرار تھی۔

جب بھی اس قسم کی قانون شکنی کا راستہ روکنے کے لیے حکومت نے انتظامی اقدام کیا۔ اس حکمتِ عملی پر مختلف حلقوں کی طرف سے تنقید کی گئی، لیکن حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی گروہ کو ریاست کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے ماضی میں ایک شدت پسند گروہ کے خلاف کارروائی کی تھی تو اس موقع پر بھی سمجھ دار حلقوں نے اس کارروائی کی حمایت کی تھی۔ اس موقع پر بھی سوشل میڈیا پر اٹھنے والی آوازوں کے باوجود عوامی سطح پر ریاستی کارروائی کی حمایت کی گئی ہے۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ کسی قانون شکن گروہ کو اگر کچھ عصبیت حاصل بھی ہو تو بھی عوامی شعور اسے اہمیت نہیں دیتا۔ ہر قانون شکن گروہ کو عوام نے مسترد کیا ہے۔ یہ اطمینان کی بات ہے، لیکن اس کے باوجود کرنے کا ایک کام ہے۔

یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مذہب ہو یا سیاست، لوگوں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد ایسے افراد کے گرد جمع کیسے ہو جاتی ہے جو نہ دین کا درست فہم رکھتے ہیں، نہ سیاست کا، اور نہ قومی مقاصد و مفاد کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ اس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے کم علمی اور سیاسی آداب سے ناواقفیت۔ ہمارے یہاں سیاسی تربیت کی نرسریاں نہیں رہیں یا دم توڑ رہی ہیں، جیسے اسٹوڈنٹس یونین، محنت کشوں کی سرگرمیاں اور بلدیاتی ادارے۔ یہ حکومت بلکہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ان اداروں کو قانون اور ضابطوں کے مطابق بحال کرے تاکہ سیاسی کارکن لٹھ مار اور بے تہذیب بننے کے بجائے مفید اور مہذب انسان بن سکے۔ اسی طرح سماج اور سنجیدہ فکر علمائے کرام اور دینی اداروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ کوئی ایسی حکمت اختیار کریں کہ ناخواندہ اور غیر ذمے دار عناصر کوئی جتھہ بنا کر نہ دین کو نقصان پہنچا سکیں، نہ ملک کو کمزور کریں۔

اس معاملے کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے: یہ کہ طاقت ور طبقات اپنے مقاصد کے لیے جائز سیاسی سرگرمی کو پٹڑی سے اتارنے سے گریز کریں۔ آثار بتاتے ہیں کہ اس زمانے کے ناکام تجربے کے بعد یہ سبق تو سیکھ لیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ خوش آیند ہے۔ لیکن معاشرے کے مختلف اداروں پر جو ذمے داری عائد ہوتی ہے، وہ بہرصورت ادا کرنی ہے۔ اس کے بغیر ہم اپنے سماج اور ریاست کو درست راہ پر گامزن نہیں کر سکیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے باوجود ریاست کو گروہ کو کے لیے

پڑھیں:

پنجاب میں اسپیشلسٹ عملے کی عارضی بھرتی کیلئے نیا قانون منظور

پنجاب اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن نے “لوکَم ہائرنگ ایکٹ 2025 کی متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے، جس کے بعد پنجاب میں اسپیشلسٹ عملے کی عارضی بنیادوں پر بھرتی کا نیا قانون نافذ ہوگا۔
اس قانون کے تحت ڈاکٹروں، نرسوں، اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی اسپتالوں میں نئی بھرتیاں کی جائیں گی۔ اس مقصد کیلئے “لوکَم” (عارضی یا قلیل مدتی بھرتی) کی تعریف کی گئی ہے تاکہ اسپتالوں میں صحت کی خدمات کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے۔
ایکٹ کے تحت “لوکَم پالیسی کمیٹی” تشکیل دی جائے گی، جس کی سربراہی صوبائی وزیرِ اسپیشلائزڈ ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کریں گے۔ کمیٹی میں سیکریٹری صحت اور تین نامور ماہرین بھی شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی تین سال کے لئے تشکیل دی جائے گی، جس میں مزید تین سال کی توسیع بھی کی جا سکے گی۔
کمیٹی کا کام عملے کی کمی والے شعبوں کی نشاندہی، نئی بھرتیوں کی شرائط کی منظوری اور معاوضے، مدت، انشورنس اور ذمہ داریوں کی وضاحت کرنا ہوگا۔
بل کے مطابق اسپیشل پرپز وہیکل (SPV) کو بھرتی کا ذمہ دار ادارہ مقرر کیا جائے گا، جس میں پنجاب ہیلتھ انیشی ایٹو مینجمنٹ کمپنی یا یو ایچ ایس بھرتی کا مجاز ادارہ ہوگا۔ بھرتی کا عمل شفاف اور میرٹ پر مبنی ہوگا اور امیدواروں کے لئے انٹرویو یا تحریری امتحان کی شرط رکھی جا سکتی ہے۔
بل میں واضح کیا گیا ہے کہ لوکَم عملہ اسپتالوں کے اصولوں کا پابند ہوگا اور غفلت یا غیرپیشہ ورانہ رویے کی صورت میں حکومت کو فوری طور پر برطرفی کا اختیار حاصل ہوگا۔ لوکَم عملے کو ریگولرائزیشن یا مستقل تقرری کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا، اور نہ ہی انہیں سرکاری ملازمین کی مراعات دی جائیں گی۔
عملے کی شکایات کی سماعت ادارے کے سربراہ کے پاس ہوگی، جس کا فیصلہ 30 دن کے اندر کرنا لازمی ہوگا۔ اگر شکایت کا ازالہ نہ ہو تو اپیل کا حق سیکرٹری صحت کے پاس ہوگا، جو 30 دن کے اندر فیصلہ دیں گے۔
حکومت کو اس ایکٹ کے نفاذ کے لئے قواعد و ضوابط بنانے کا اختیار حاصل ہوگا، اور بل کی دفعات دیگر تمام قوانین پر بالادست ہوں گی۔ اس کے علاوہ، حکومت کو بل کے نفاذ میں مشکلات کو دور کرنے کے لئے خصوصی اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔
یہ نیا قانون پنجاب میں اسپیشلسٹ عملے کی عارضی بھرتیوں کے لئے ایک اہم قدم ہے جس سے اسپتالوں میں صحت کی خدمات کی فراہمی میں تسلسل آئے گا۔

 

متعلقہ مضامین

  • سندھ ویلفیئر بورڈ کو خیال آہی گیا
  • کراچی: سچل گوٹھ سے 3 رکنی ڈکیت گروہ گرفتار
  • پنجاب میں اسپیشلسٹ عملے کی عارضی بھرتی کیلئے نیا قانون منظور
  • وائیڈ بال سے متعلق آئی سی سی کا نئے قانون کا تجربہ
  • اسرائیلی وزارتِ جنگ کی ایک نہایت خفیہ کمپنی کو ہیک کر لیا گیا
  • آئی سی سی کا وائیڈ بال سے متعلق نیا قانون، پچ پر نئی لکیروں کا مقصد کیا؟
  • ٹیررسٹ آؤٹ فِٹ ٹی ایل پی قانوناً کالعدم ہو گئی
  • ایف آئی اے کمپوزٹ سرکل میرپور خاص کی بڑی کارروائی، بی آئی ایس پی فنڈز میں خردبرد کرنے والا گروہ گرفتار
  • سیاسی بنیاد پر کسی جماعت پر پابندی کی قانون آئین و اجازت نہیں دیتا: راناثناء اللہ