Jasarat News:
2025-10-27@00:38:25 GMT

جب ہاتھ خالی رہ جائیں گے

اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ستمبر 2025 کی ٹیکسٹائل رپورٹ دراصل ایک زخمی معیشت کی کراہ ہے۔ فیصل آباد سے کراچی تک مشینیں خاموش ہیں، بھٹیاں بجھ چکی ہیں، اور مزدوروں کے چہرے پسینے کے بجائے مایوسی سے تر ہیں۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق ستمبر میں برآمدات 11.

71 فیصد کم ہوئیں، لیکن یہ کمی صرف ایک عدد نہیں — یہ لاکھوں گھروں کی روٹی، بچوں کی کتابیں اور مزدوروں کے خوابوں کا زوال ہے۔
جو صنعت کبھی اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی تھی، آج قرضوں، ریفنڈز کی تاخیر اور خام مال کی بڑھتی قیمتوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ توانائی کے بحران نے پیداواری لاگت کو آسمان پر پہنچا دیا، اور حکومتی پالیسیوں کی بے ربطی نے عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی مسابقت کو ختم کر دیا۔
پچھلے سال انہی مہینوں میں جب برآمدات میں 17.9 فیصد اضافہ ہوا تھا، ویلیو ایڈیڈ مصنوعات نے قوم کو امید دی تھی، مگر آج حالات الٹ چکے ہیں ۔ اب ہر سمت مایوسی، خوف اور زوال کا سایہ ہے۔
یہ گراوٹ محض نجی شعبے کا زوال نہیں، یہ پورے نظام کی کمزوری کا عکاس ہے۔ وہ حکومتیں جو روزگار دینے کی دعوے دار تھیں، آج نوکریاں چھیننے پر تلی ہیں۔ محکمہ انہار کے مکینیکل سرکل، مغلپورہ اریگیشن ورکشاپ لاہور اور شیخوپورہ ورکشاپ کے سینکڑوں ملازمین پر نوکریوں کے در بند کیے جا رہے ہیں۔

انہیں سول سرونٹ سے ‘‘ورک مین’’ قرار دے کر ان کے بنیادی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ تنخواہیں روکنے، نوکریاں ختم کرنے اور مراسلے بھیجنے کا سلسلہ روز کا معمول بن چکا ہے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب اسکول آؤٹ سورس کیے جا رہے ہیں، ہسپتال نجکاری کی نذر ہیں، یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن بند ہو چکی ہے، اور ہزاروں ملازمین کو دربدر کر دیا گیا ہے۔ رولز 17-اے کے تحت بھرتیاں معطل، نئی تقرری پالیسی منجمد، اور اپ گریڈیشن کی فائلیں سالہا سال سے دفاتر کی الماریوں میں گرد جمع کر رہی ہیں۔ گویا حکومت سرکاری اداروں کی صف لپیٹنے پر اٹل ہے، اور بیوروکریسی اس پورے کھیل میں خاموش شراکت دار ہے۔
میں نے دورانِ ملاقات ایک سپرنٹنڈنگ انجینئر سے یہی کہا تھا کہ’’جناب! ڈریں اس دن سے جب آپ کے ہاتھوں بے دخل کیے گئے یہ ورکرز نہیں ہوں گے۔ تب آپ کے دروازے پر کوئی چوکیدار نہ ہوگا، آپ کی گاڑی کے لیے ڈرائیور نہیں ہوگا، دفتر میں چائے بنانے والا کوئی نہ ہوگا، اور فائلیں خود بخود رک جائیں گی۔ آپ کی شان و شوکت بھی ختم ہو جائے گی، کیونکہ نظام کو چلانے والے یہی لوگ ہیں جنہیں آپ آج کم تر سمجھ رہے ہیں‘‘۔

مگر افسوس، ہماری بیوروکریسی کو یہ احساس نہیں کہ یہ سیلاب جو آج مزدوروں کو بہا رہا ہے، کل انہیں خود بہا لے جائے گا۔
یہ وہ لمحہ ہے جب نجی و سرکاری دونوں محاذوں پر ایک ہی درد نمایاں ہے۔ بے روزگار نوجوانوں کی خاموش چیخ۔ صنعتیں بند، کارخانے ویران، اور سرکاری دفتروں کے دروازے بند۔ ایک طرف بجلی، گیس اور خام مال کی قیمتیں بڑھنے سے برآمدات سکڑ رہی ہیں، تو دوسری طرف سرکاری ادارے خود سکڑتے جا رہے ہیں۔
یہ کیسی حکمرانی ہے جو روزگار کے بجائے بیروزگاری بانٹ رہی ہے؟
آج ملک میں دو پاکستان بن چکے ہیں۔ ایک وہ جہاں اقتدار کے ایوان ہیں، گاڑیوں کے قافلے ہیں، پروٹوکول ہے، اور ہر سہولت دستیاب ہے۔
دوسرا پاکستان وہ ہے جہاں غریب اپنی عزت بیچ کر زندہ ہے، مزدور روزگار کے لیے سڑکوں پر ہے، اور نوجوان مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب رہا ہے۔
یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا، نہ وہ جس کے لیے قائد اعظم نے اپنی زندگی وقف کی تھی۔ وہ پاکستان تو غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور مزدوروں کا پاکستان تھا۔ مگر آج اشرافیہ نے ان کے خوابوں پر محل تعمیر کر لیے ہیں۔

حکومتی پالیسیوں کی ناانصافی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایک ہی اسکیل میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں مختلف ہیں، ڈیوٹی کے اوقات جدا ہیں، اور سہولتیں امتیاز کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔
یہی عدم مساوات اس قوم کو کھوکھلا کر رہی ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ آدھی قوم بھوکی سوئے اور باقی آدھی عیش میں رہے؟
کیا یہ ممکن ہے کہ مزدور کے گھر اندھیرا ہو اور افسر شاہی کے دفاتر روشنیوں سے جگمگاتے رہیں؟
وقت آگیا ہے کہ حکمران طبقہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے۔
ملک کی بقا انہی پالیسیوں میں نہیں جو ادارے بیچتی ہیں، بلکہ ان فیصلوں میں ہے جو روزگار پیدا کرتے ہیں۔
سرکاری ادارے اگر کمزور ہیں تو انہیں بند نہیں بلکہ مضبوط کیا جائے، میرٹ قائم کیا جائے، کرپشن ختم کی جائے، گڈ گورننس کو اصول بنایا جائے۔
دنیا میں کوئی حکومت صدا نہیں رہتی۔

تخت بدل جاتے ہیں، چہرے بدل جاتے ہیں، مگر قومیں تب ہی بدلتی ہیں جب حکمرانی کا نظریہ بدل جائے۔
آج ہمیں ایک ایسے طرزِ حکمرانی کی ضرورت ہے جو عوام کے لیے ہو، مزدور کے لیے ہو، اور ملک کی معیشت کو استحکام دے — نہ کہ ایسی پالیسیوں کی جو روزگار چھین کر فاقے بانٹتی ہیں۔
اگر آج ہم نے راستہ نہ بدلا تو کل یہی خالی ہاتھ اس نظام کو بدل ڈالیں گے۔
یہ تحریر کسی اخبار کا صفحہ نہیں، ایک قوم کا ضمیر ہے ۔
ایک صدا جو کہتی ہے:
’’اٹھو، سوچو، بدل دو ۔ اس سے پہلے کہ سب کچھ ختم ہو جائے۔‘‘
یہ تحریر قوم کے بے آواز طبقات، مزدوروں، اور بے روزگار نوجوانوں کے نام جو اب بھی امید کا چراغ جلائے بیٹھے ہیں۔

رانا محمد اقرار گلزار

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جا رہے ہیں جو روزگار کے لیے

پڑھیں:

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے عوام سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی

کرک: خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے پروٹوکول کی وجہ سے سڑک بند ہونے پر عوام سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی۔

کرک میں پی ٹی آئی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سہیل آفریدی نے کہا کہ میں نے اپنے سیکیورٹی چیف کو ہدایت کی تھی کہ کوئی روٹ نہیں لگے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے یہاں آتے ہوئے راستے میں گاڑیاں کھڑی ہوئی دیکھیں تو سیکیورٹی چیف سے روٹ لگانے کا پوچھا جس پر انہوں نے بتایا کہ صرف ایک منٹ روٹ لگایا ہے تاکہ مشکل نہ ہو۔

سہیل آفریدی کا کہنا تھا کہ میں نے سیکیورٹی چیف کو ایک منٹ کا بھی روٹ لگانے سے منع کیا تو انہوں نے جواب میں مجھے استعفیٰ دینے کا کہا اور بتایا کہ یہ سب آپ کی سیکیورٹی کیلیے ضروری ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’میں نے اپنے سیکیورٹی چیف کو استعفیٰ دینے سے روک دیا اور انہیں کہا کہ میں اپنے عوام کے سامنے ایک منٹ سڑک بند ہونے پر معافی مانگوں گا‘۔

سہیل آفریدی نے اپنے راستے پر ایک منٹ کا روٹ لگانے کے لیے عوام سے معافی مانگ لی pic.twitter.com/XxsRaoU5ki

— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) October 26, 2025

سہیل آفریدی نے کہا کہ میں عوام کو پہنچنے والی تکلیف پر معذرت خواہ ہوں، اسی کے ساتھ انہوں نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ مستقبل میں بھی پروٹوکول کی وجہ سے شہریوں کو پروٹوکول کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

متعلقہ مضامین

  • محنت اور صرف محنت!
  • وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے عوام سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے عوام سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی
  • مچھروںکی افزائش روکنے کیلیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں، ڈپٹی کمشنر حیدرآباد
  • ناظم علاقہ جماعت اسلامی لانڈھی غربی محمد کاشف کی والدہ کے انتقال پر شعبہ روزگار کے ناظم شکیل احمد اور این ایل ایف کے سیکرٹری قاسم جمال تعزیت کے موقع پر مرحومہ کے ایصال کے لئے دعا کر رہے ہیں
  • جن کی دشمنیاں ہیں وہ صلح کرلیں یا دبئی شفٹ ہو جائیں، ایڈیشنل آئی جی سی سی ڈی
  • جن کی دشمنیاں ہیں وہ صلح کرلیں یا دبئی چلے جائیں،ایڈیشنل آئی جی سی سی ڈی
  • پی ایس ڈی پی کے فیصلے بند کمروں میں کیے جائیں تو غلط ہے، شازیہ مری