Jasarat News:
2025-12-12@15:40:20 GMT

جب ہاتھ خالی رہ جائیں گے

اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ستمبر 2025 کی ٹیکسٹائل رپورٹ دراصل ایک زخمی معیشت کی کراہ ہے۔ فیصل آباد سے کراچی تک مشینیں خاموش ہیں، بھٹیاں بجھ چکی ہیں، اور مزدوروں کے چہرے پسینے کے بجائے مایوسی سے تر ہیں۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق ستمبر میں برآمدات 11.

71 فیصد کم ہوئیں، لیکن یہ کمی صرف ایک عدد نہیں — یہ لاکھوں گھروں کی روٹی، بچوں کی کتابیں اور مزدوروں کے خوابوں کا زوال ہے۔
جو صنعت کبھی اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی تھی، آج قرضوں، ریفنڈز کی تاخیر اور خام مال کی بڑھتی قیمتوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ توانائی کے بحران نے پیداواری لاگت کو آسمان پر پہنچا دیا، اور حکومتی پالیسیوں کی بے ربطی نے عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی مسابقت کو ختم کر دیا۔
پچھلے سال انہی مہینوں میں جب برآمدات میں 17.9 فیصد اضافہ ہوا تھا، ویلیو ایڈیڈ مصنوعات نے قوم کو امید دی تھی، مگر آج حالات الٹ چکے ہیں ۔ اب ہر سمت مایوسی، خوف اور زوال کا سایہ ہے۔
یہ گراوٹ محض نجی شعبے کا زوال نہیں، یہ پورے نظام کی کمزوری کا عکاس ہے۔ وہ حکومتیں جو روزگار دینے کی دعوے دار تھیں، آج نوکریاں چھیننے پر تلی ہیں۔ محکمہ انہار کے مکینیکل سرکل، مغلپورہ اریگیشن ورکشاپ لاہور اور شیخوپورہ ورکشاپ کے سینکڑوں ملازمین پر نوکریوں کے در بند کیے جا رہے ہیں۔

انہیں سول سرونٹ سے ‘‘ورک مین’’ قرار دے کر ان کے بنیادی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ تنخواہیں روکنے، نوکریاں ختم کرنے اور مراسلے بھیجنے کا سلسلہ روز کا معمول بن چکا ہے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب اسکول آؤٹ سورس کیے جا رہے ہیں، ہسپتال نجکاری کی نذر ہیں، یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن بند ہو چکی ہے، اور ہزاروں ملازمین کو دربدر کر دیا گیا ہے۔ رولز 17-اے کے تحت بھرتیاں معطل، نئی تقرری پالیسی منجمد، اور اپ گریڈیشن کی فائلیں سالہا سال سے دفاتر کی الماریوں میں گرد جمع کر رہی ہیں۔ گویا حکومت سرکاری اداروں کی صف لپیٹنے پر اٹل ہے، اور بیوروکریسی اس پورے کھیل میں خاموش شراکت دار ہے۔
میں نے دورانِ ملاقات ایک سپرنٹنڈنگ انجینئر سے یہی کہا تھا کہ’’جناب! ڈریں اس دن سے جب آپ کے ہاتھوں بے دخل کیے گئے یہ ورکرز نہیں ہوں گے۔ تب آپ کے دروازے پر کوئی چوکیدار نہ ہوگا، آپ کی گاڑی کے لیے ڈرائیور نہیں ہوگا، دفتر میں چائے بنانے والا کوئی نہ ہوگا، اور فائلیں خود بخود رک جائیں گی۔ آپ کی شان و شوکت بھی ختم ہو جائے گی، کیونکہ نظام کو چلانے والے یہی لوگ ہیں جنہیں آپ آج کم تر سمجھ رہے ہیں‘‘۔

مگر افسوس، ہماری بیوروکریسی کو یہ احساس نہیں کہ یہ سیلاب جو آج مزدوروں کو بہا رہا ہے، کل انہیں خود بہا لے جائے گا۔
یہ وہ لمحہ ہے جب نجی و سرکاری دونوں محاذوں پر ایک ہی درد نمایاں ہے۔ بے روزگار نوجوانوں کی خاموش چیخ۔ صنعتیں بند، کارخانے ویران، اور سرکاری دفتروں کے دروازے بند۔ ایک طرف بجلی، گیس اور خام مال کی قیمتیں بڑھنے سے برآمدات سکڑ رہی ہیں، تو دوسری طرف سرکاری ادارے خود سکڑتے جا رہے ہیں۔
یہ کیسی حکمرانی ہے جو روزگار کے بجائے بیروزگاری بانٹ رہی ہے؟
آج ملک میں دو پاکستان بن چکے ہیں۔ ایک وہ جہاں اقتدار کے ایوان ہیں، گاڑیوں کے قافلے ہیں، پروٹوکول ہے، اور ہر سہولت دستیاب ہے۔
دوسرا پاکستان وہ ہے جہاں غریب اپنی عزت بیچ کر زندہ ہے، مزدور روزگار کے لیے سڑکوں پر ہے، اور نوجوان مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب رہا ہے۔
یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا، نہ وہ جس کے لیے قائد اعظم نے اپنی زندگی وقف کی تھی۔ وہ پاکستان تو غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور مزدوروں کا پاکستان تھا۔ مگر آج اشرافیہ نے ان کے خوابوں پر محل تعمیر کر لیے ہیں۔

حکومتی پالیسیوں کی ناانصافی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایک ہی اسکیل میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں مختلف ہیں، ڈیوٹی کے اوقات جدا ہیں، اور سہولتیں امتیاز کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔
یہی عدم مساوات اس قوم کو کھوکھلا کر رہی ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ آدھی قوم بھوکی سوئے اور باقی آدھی عیش میں رہے؟
کیا یہ ممکن ہے کہ مزدور کے گھر اندھیرا ہو اور افسر شاہی کے دفاتر روشنیوں سے جگمگاتے رہیں؟
وقت آگیا ہے کہ حکمران طبقہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے۔
ملک کی بقا انہی پالیسیوں میں نہیں جو ادارے بیچتی ہیں، بلکہ ان فیصلوں میں ہے جو روزگار پیدا کرتے ہیں۔
سرکاری ادارے اگر کمزور ہیں تو انہیں بند نہیں بلکہ مضبوط کیا جائے، میرٹ قائم کیا جائے، کرپشن ختم کی جائے، گڈ گورننس کو اصول بنایا جائے۔
دنیا میں کوئی حکومت صدا نہیں رہتی۔

تخت بدل جاتے ہیں، چہرے بدل جاتے ہیں، مگر قومیں تب ہی بدلتی ہیں جب حکمرانی کا نظریہ بدل جائے۔
آج ہمیں ایک ایسے طرزِ حکمرانی کی ضرورت ہے جو عوام کے لیے ہو، مزدور کے لیے ہو، اور ملک کی معیشت کو استحکام دے — نہ کہ ایسی پالیسیوں کی جو روزگار چھین کر فاقے بانٹتی ہیں۔
اگر آج ہم نے راستہ نہ بدلا تو کل یہی خالی ہاتھ اس نظام کو بدل ڈالیں گے۔
یہ تحریر کسی اخبار کا صفحہ نہیں، ایک قوم کا ضمیر ہے ۔
ایک صدا جو کہتی ہے:
’’اٹھو، سوچو، بدل دو ۔ اس سے پہلے کہ سب کچھ ختم ہو جائے۔‘‘
یہ تحریر قوم کے بے آواز طبقات، مزدوروں، اور بے روزگار نوجوانوں کے نام جو اب بھی امید کا چراغ جلائے بیٹھے ہیں۔

رانا محمد اقرار گلزار

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جا رہے ہیں جو روزگار کے لیے

پڑھیں:

اترپردیش میں ہر غیر قانونی سرگرمی میں بی جے پی ممبران کا ہاتھ ہے، اکھلیش یادو

سماج وادی پارٹی کے صدر نے کہا کہ پہلے بی جے پی کے بلڈوزر سے انصاف ملتا تھا تو اب بلڈوزر کیوں نہیں چل رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے گریٹر نوئیڈا کے بسرکھ گاؤں کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے جگت سنگھ بھاٹی دیہی ٹورنامنٹ کے جیتنے والے کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کئے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی پر شدید حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اترپردیش میں ہونے والی تمام غیر قانونی سرگرمیاں بی جے پی کے ارکان انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے کچھ کریں تو بلڈوزر استعمال کیا جاتا ہے۔ اکھلیش یادو نے طنزیہ ریمارک کیا کہ جب سے کف سیرپ کا معاملہ سامنے آیا ہے، بلڈوزر ڈرائیور بلڈوزر کو پیچھے چھوڑ کر فرار ہوگیا ہے۔ اب وزیراعلٰی کے پاس نہ ڈرائیور ہے نہ چابی۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بلڈوزر سے انصاف ملتا تھا تو اب بلڈوزر کیوں نہیں چل رہا، انہوں نے کہا کہ بلڈوزر کام نہیں کر رہا ہے کیونکہ کف سیرپ کیس میں اسی ذات کے لوگ شامل ہیں جو اقتدار کے سب سے اوپر ہیں۔

دراندازی اور بنگلہ دیشیوں کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے اکھلیش یادو نے کہا کہ کوئی درانداز نہیں ہے۔ اگر بی جے پی حکومت 11 سال بعد بھی دراندازوں کو تلاش کر رہی ہے تو حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہیئے۔ انہوں نے ایس آئی آر پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی اے کے ارکان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ ووٹ دینے میں ناکام رہتے ہیں تو ان کا آدھار کارڈ کھو جائے گا اور انہیں ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے، ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے، معیشت تباہ ہو رہی ہے، صنعتیں تباہ ہو رہی ہیں۔ فلم سٹی کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر اکھلیش یادو نے طنزیہ انداز میں کہا کہ بی جے پی حکومت میں بہت سے فنکار ہیں تو انہیں فلم سٹی کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کو بچانے کے لئے ہم اور ملک کے عوام بیلٹ کے ذریعے ووٹ چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ، جرمنی، جاپان اور دیگر سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک بیلٹ پیپر کو اپنا رہے ہیں کیونکہ ان کے ممالک میں بھی ای وی ایم پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اکھلیش یادو نے کہا کہ اپوزیشن کی فعالیت سے بی جے پی کی نیند اڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ یہ الزام لگا رہے ہیں کہ سماج وادی پارٹی کے ارکان نے اپنا ووٹ حاصل کیا ہے، جو غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار والوں کے پاس ہے۔ عوام چوکس ہے اور اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے جس کی وجہ سے عام لوگ اپنے ووٹ کا اندراج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وندے ماترم، انقلاب زندہ باد، اور "جے ہند" جیسے نعرے لگا کر ملک کے عظیم انقلابیوں بشمول بھگت سنگھ، مہاتما گاندھی اور سبھاش چندر بوس نے آزادی حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی ان مسائل کو لے کر ہر جگہ تنازعہ کرتی ہے، یہ قوم پرست جماعت نہیں بلکہ قومی تنازعات کی جماعت ہے۔ اکھلیش یادو نے نریندر مودی پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم دریائے گنگا کو صاف کرنا چاہتے ہیں جبکہ گنگا کی صفائی نہیں ہوئی، انہوں نے گنگا کی صفائی کے لئے بجٹ کو صاف کر دیا۔

متعلقہ مضامین

  •  گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو این ایف سی میں فوری حصہ دیا جائے، نواز شریف کا مطالبہ
  • صدر کی منظوری کے بعد گلگت بلتستان میں انتخابی شیڈول جاری، پولنگ 24 جنوری کو ہو گی
  • کسی میں بھی جرأت نہیں کہ عمران خان کو ہاتھ لگائے‘ علیمہ خان
  • لاہورہائیکورٹ، اغوا کیس کی خالی فائل پر چیف جسٹس کا اظہارِ برہمی
  • کسی میں بھی جرات نہیں کہ بانی پی ٹی آئی کو ہاتھ لگائے، علیمہ خان
  • خالی پیٹ پھل کھانے سے کیا ہوتا ہے؟ ماہرین نے بتا دیا
  • اترپردیش میں ہر غیر قانونی سرگرمی میں بی جے پی ممبران کا ہاتھ ہے، اکھلیش یادو
  • انسانی حقوق کو تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف تک حقیقی رسائی میں تبدیل کیا جائے: بلاول بھٹو   
  • انسانی حقوق کو تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف تک حقیقی رسائی میں تبدیل کیا جائے: بلاول بھٹو
  • میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں