Express News:
2025-12-12@14:30:35 GMT

خودکشی کا بڑھتا رجحان …

اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT

آج کل اخبارات کا مطالعہ کرنے، خبریں دیکھنے اور سوشل میڈیا کا جائزہ لینے پر لوگوں کی خودکشی یا معمولی تنازعات و تکرار پر قتل کی خبریں گویا معمول بنتی جا رہی ہیں۔ ہمارے اردگرد تواتر سے رونما ہونے والے یہ سانحات سماج میں بڑھتی شدت پسندی، عدم برداشت اور لوگوں کی خستہ ذہنی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

قابل تشویش بات یہ ہے کہ کوئی اس طرف متوجہ نہیں۔ خودکشی اور کسی دوسرے پر ظلم دو مختلف اعمال ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں ان پر ایک جیسا رد عمل دیکھنے کو ملتا ہے اور وہ ہے لعنت ملامت۔ ظالم سے نفرت اور بیزاری کا اظہار قابل فہم ہے لیکن کسی ایسے شخص پر لعن طعن کرنا جو اپنی ذہنی پراگندگی سے لڑتے لڑتے خودکشی کی صورت اپنا نقصان عظیم کرچکا ہو، کیسی دانش مندی ہے؟ ایسے واقعات سامنے آنے پرکچھ لوگ افسوس کا اظہار کرتے ہیں لیکن اس سلسلے میں خود کو بے بس گردانتے ہوئے دل بہلانے کو کار زندگی میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ باقی نقاد طبیعت لوگ فارغ وقت میں چائے پیتے ہوئے ان خبروں پر تبصرے کرتے ہیں کہ بھلا یہ کوئی وجہ تھی خودکشی کی؟ اتنی معمولی بات پرکون ایسا انتہائی قدم کون اٹھاتا ہے؟ اور وغیرہ وغیرہ۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ذہنی طور پر تندرست اور قلبی طور پر مطمئن شخص کبھی خود کشی نہیں کرتا۔

ہم نہیں جان سکتے کہ خبروں میں مذکور یہ بدقسمت لوگ زندگی کی کتنی ٹھوکریں کھا کر، کتنے بے بس لمحے گزارکر اورکتنی ہی تلخیوں کو سہہ کر دل شکستگی کے اس مقام پر آ کھڑے ہوتے ہیں کہ اپنی تمام ناآسودگیوں سے چھٹکارا پانے کو خودکشی جیسے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔ یہاں مقصد خودکشی کے عمل کا دفاع نہیں بلکہ اس بات کا احساس دلانا ہے کہ جو چلے گئے ہیں، ہم ان کے لیے چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے لیکن جو ان گزرنے والوں کے نقش قدم پر چلنے کو تیار ہیں، بحیثیت انسان ان کی بچاؤ کے لیے کردار ادا کرنا ہمارا انسانی اور اخلاقی فریضہ ہے۔

بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ دماغی صحت کو لے کر شدید قدامت پسند ہے۔ یہاں لوگ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ سردی میں احتیاط نہ کرنے سے نمونیا ہو سکتا ہے، گرمی میں لو لگ سکتی ہے اور مجموعی طور پر صحت کا خیال نہ رکھنے سے مختلف عارضے لاحق ہو سکتے ہیں لیکن اکثریت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسلسل نامساعد حالات میں ذہنی سکون تباہ ہو سکتا ہے، کسی بھی کام میں متواتر ناکامی پر انسان مایوسی کا شکار ہو سکتا ہے اور کڑے حالات میں ذہنی دباؤ اور بے چینی محسوس کرنا بشری کمزوری یا خامی نہیں بلکہ انسانی جسم کا نارمل ردعمل ہے اور جسمانی صحت کی طرح ذہنی صحت خراب ہونے پر بھی ڈاکٹر سے مدد لینے میں کوئی برائی نہیں۔ ہمارے ملک میں اول لوگ سائیکالوجسٹ یا سائکیٹرسٹ کے پاس جاتے نہیں اور اگر چلے جائیں تو اس بات کو کسی برائی کی طرح چھپاتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 35 فی صد افراد بے چینی اور افسردگی کا شکار ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان موضوعات پر آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے جس وجہ سے ہمارے ارد گرد کتنے ہی لوگ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کتنے ہی معصوم لوگ زیست جیسے انمول تحفے سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اسے ان چاہا بوجھ سمجھتے ہیں۔ ایک ڈپریسڈ انسان کی زندگی ہر طرح سے متاثر ہوتی ہے، اگر وہ طالب علم ہو تو تعلیمی کارکردگی پر اثر پڑے گا، کیونکہ ڈپریشن میں نہ صرف یاد داشت سست ہو جاتی ہے بلکہ چیزیں بھول جانا عام بات ہے۔ گھر میں کسی ایک شخص کی جذباتی کیفیت میں مسلسل اتار چڑھاؤ کی وجہ سے گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ منطقی سوال ہے کہ کسی ایسے انسان سے ترقی کی کیا امید رکھی جا سکتی ہے جس کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی اپنے اندر اٹھے طوفانوں سے دامن چھڑا کر بمشکل زندگی کی دوڑ میں شامل ہونا ہو؟ ہمارے ارد گرد کئی قابل لوگ اس لیے قابل فخر کارنامے سر انجام نہیں دے سکتے،کیونکہ ان کی صلاحیتوں کو ذہنی مسائل جیسا دیمک لگ چکا ہوتا ہے۔

ستم بالائے ستم کہ زندگی کے ڈسے یہ لوگ اگر ذہنی مسائل سے نمٹنے کے لیے ناکافی سہولیات اور بنا کسی جذباتی سہارے کے باوجود ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت خود کو اس دلدل سے نکالنا چاہیں تو انھیں اردگرد کے لوگوں، خاندان اور رشتے داروں وغیرہ کی طرف سے عموماً بہت مایوس کن رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اول قسم کے حوصلہ شکن وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود بھی اپنی زندگیوں سے تنگ اور ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں مگر اس بات کا شعور نہ رکھتے ہوئے اپنا خیال رکھنے کے بجائے اپنی محرومیوں اور شکست کی جھنجھلاہٹ ہر میسر شخص پر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید انھیں ادراک نہیں ہوتا مگر دورکہیں اندرکسی دوسرے کو ان مسائل سے نکلتا دیکھنا جن میں بھلے وہ اپنی نااہلی کے باعث پھنسے ہوں، ان کے احساس محرومی اور احساس کمتری کو بڑھا دیتا ہے۔ یہ کچھ اس مزاج کے لوگ ہوتے ہیں جنھیں لگتا ہے اگر ہم آسودہ نہیں ہیں تو کسی دوسرے کو بھی خوش رہنے کا حق حاصل نہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا ڈپریشن، اینگزائٹی یا پینک اٹیک جیسی اذیتوں سے کبھی پالا نہیں پڑا ہوتا۔ وہ صحت اور خوشحالی جیسی نعمتوں کو اپنا کمال گردانتے ہوئے نفسیاتی پیچیدگیوں میں الجھے شخص کو احساس دلاتے ہیں کہ تم کمزور اور نااہل ہو، اس لیے زندگی کی مشکلات کے سامنے ڈھیر ہوکر مدد کی تلاش میں ہوں۔

اسی گروہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے اپنی ذرا سی اداسی کو ذہنی بیماری سے محمول کر رکھا ہوتا ہے، پھر وہ یہ جتاتے نظر آتے ہیں کہ دیکھیں ہم بھی ان کیفیات سے گزرے ہیں لیکن کتنے بہادر ہیں کہ کبھی دوا یا تھیراپی نہیں لی۔ درحقیقت وہ نہیں جانتے کہ کلینیکل ڈپریشن کس طرح انسان کو اپنی ذات کے اندھیرے میں قید کر دیتی ہے، اینگزائٹی انسان کو کیسی کیسی اذیتوں سے دوچارکرتی ہے کہ ایک عام آدمی جن کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ایسے لوگوں سے التماس ہے،اگر آپ اپنے الفاظ سے کسی کو سکون نہیں پہنچا سکتے تو خاموش رہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، ماہر ڈاکٹر کی مدد لینا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے تاکہ خود ایک پرسکون زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لیے بھی کار آمد شخص ثابت ہوا جا سکے۔ اپنے اس سفر میں خود کو چھوٹی سوچ کے لوگوں سے بچا کر رکھیں کہ ایسے لوگوں کی بے حسی سے معمور مایوسانہ اور جاہلانہ باتیں اچھے وقت کی امید کو نا امیدی میں بدل سکتی ہیں۔

دل و دماغ پر بوجھ بڑھ جانے پرگھر اور دوستوں میں کسی سمجھدار اور قابل اعتماد شخص سے بات کریں اور اگر لگے کہ کوئی آپ کے احساسات کو سمجھنے کا اہل نہیں تو خود کو ایسی محفلوں سے بچائیں جو آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہوں۔ اکیلے پن کا احساس تکلیف دہ ہو سکتا ہے مگر خدا پر پختہ یقین رکھتے ہوئے روح کوگھائل کردینے والے ان ذہنی مسائل سے نجات کے سفر کو اس امید پر جاری رکھیں کہ جسمانی بیماریوں کی طرح دماغی بیماریوں کا علاج بھی سو فیصد ممکن ہے۔یہاں ایک اور حقیقت قابل غور ہے کہ پاکستان کی قریباً 60 فیصد آبادی گاؤں میں قیام پذیر ہے۔ اس کے باوجود وہاں سرکاری اور نجی سطح پر ذہنی امراض سے متعلقہ ڈاکٹرز کا مکمل فقدان ہوتا ہے۔ حکومت کو ضلع کی طرح تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر اسپتالوں میں ماہر نفسیات کی موجودگی یقینی بنانے پر غور کرنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہو سکتا ہے ہوتے ہیں کرتے ہیں ہوتا ہے خود کو ہے اور کی طرح کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

ناقابل تسخیر تصورِ پاکستان

چیف آف آرمی اسٹاف اینڈ چیف آف ڈیفنس فورسرز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھارت اور افغانستان کی طالبان رجیم کو دو ٹوک پیغام دیتے ہوئے طالبان پر واضح کیا کہ ان کے پاس خوارج یا پاکستان میں سے کسی ایک کے انتخاب کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے، انھوں نے یہ بھی واضع کیا ہے کہ بھارت کسی خود فریبی یا گمان کا شکار نہ رہے، اگلی بار پاکستان کا جواب اس سے بھی برق رفتار اور شدید ہوگا، تمام یہ جان لیں پاکستان ناقابل تسخیر ہے، ملکی خود مختاری، علاقائی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔

پاکستان کے عسکری ڈھانچے میں ایک تاریخی اور ہمہ گیر تبدیلی کا جو عمل حالیہ دنوں میں سامنے آیا ہے، وہ نہ صرف قومی سلامتی کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے بلکہ یہ ایک اہم اور دور رس اصلاح بھی ہے جس سے مستقبل میں ریاستی دفاع کا مجموعی نظام زیادہ مربوط، ُپختہ اور فیصلہ کن انداز میں کارفرما ہوسکے گا۔

جنرل ہیڈکوارٹرز میں منعقدہ تقریب کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے نہایت دو ٹوک انداز میں داخلی و خارجی سلامتی کے حوالے سے جو پیغام دیا ہے، وہ بیک وقت ریاست کی عزم و استقامت کا اظہار بھی ہے اور خطے میں پایا جانے والا وہ ابہام بھی دورکرتا ہے جو اکثر اوقات پاکستان کی سیاسی و دفاعی پالیسیوں کے بارے میں مصنوعی طور پر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

 فیلڈ مارشل نے بھارت کو مخاطب کرتے ہوئے جو صاف گوئی اختیار کی، وہ سفارتی تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک واضح، سنجیدہ اور مدلل انتباہ ہے۔ بھارت کی جانب سے برسوں سے جاری پراکسی سرگرمیوں، سرحدی اشتعال انگیزیوں اور پاکستان کو دباؤ میں لانے کے بے نتیجہ حربوں نے خطے کو مستقل کشیدگی کی حالت میں رکھا ہوا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے سپہ سالار کا یہ کہنا کہ بھارت کسی خود فریبی یا گمان میں نہ رہے اور اگر اس نے دوبارہ مہم جوئی کی کوشش کی تو پاکستان کا جواب اس سے بھی زیادہ برق رفتار اور مؤثر ہوگا، ایک حقیقت پسندانہ اور ضروری اعلان تھا۔

امن کی خواہش کا اظہارکمزوری نہیں اور طاقت کا استعمال جارحیت نہیں بلکہ ریاستی دفاع کا بنیادی حق ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت کا یہ دوٹوک موقف بھارت سمیت دنیا کو یہ باورکرانے کے لیے کافی ہے کہ پاکستانی قوم اور اس کی مسلح افواج ملکی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ میں کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان نہ تو جنگ کا خواہش مند ہے اور نہ ہی کسی بیرونی مہم جوئی کا محرک، البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ کا ہر باب اس گواہی پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے کہ پاکستانی قوم نے اپنے وطن کے دفاع کے لیے ہمیشہ یکجا ہوکر ناقابل تسخیر قوت ثابت کی ہے۔اسی طرح افغانستان میں موجود طالبان انتظامیہ کو جو واضح پیغام دیا گیا، وہ بھی علاقائی سیکیورٹی کی ضروریات اور زمینی حقائق کی روشنی میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

پاکستان نے بارہا واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ نہ تو کسی مخصوص گروہ کے خلاف ہے اور نہ ہی اسے کسی دوسرے ملک کی داخلی سیاست میں مداخلت کا شوق ہے، لیکن جب سرحد پار سے منظم دہشت گردانہ حملے ہوں، پاکستان دشمن گروہوں کو پناہ گاہیں فراہم کی جائیں اور خوارج جیسی تنظیمیں افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کریں، تو پھر خاموشی نہ تو ممکن ہوتی ہے اور نہ ہی مناسب۔ فیلڈ مارشل نے یہ کہہ کر حقیقت کو اس کے اصل تناظر میں پیش کیا کہ طالبان کے پاس دو ہی راستے ہیں یا وہ خوارج کا ساتھ چھوڑ کر علاقائی امن اور ہمسائیگی کے تقاضوں کا احترام کریں یا پھر ایسے عناصر کے ساتھ کھڑے رہیں جنھوں نے مسلم ممالک کی جڑیں کھوکھلی کرنے اور خطے میں بدامنی پھیلانے کو اپنا ایجنڈا بنایا ہوا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس توقع کا اظہارکیا ہے کہ افغان قیادت خطے کی اجتماعی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے گروہوں سے لاتعلقی اختیار کرے گی، جو امن کے دشمن اور ریاستوں کے لیے ایک مستقل خطرہ ہیں۔

 بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی سیکیورٹی ماحول نے جدید جنگی حکمتِ عملی کو ملٹی ڈومین آپریشنز کے تصور سے جوڑ دیا ہے، جہاں بری، بحری اور فضائی افواج محض اپنی اپنی سطح پر نہیں بلکہ ایک ہم آہنگ، مربوط اور مشترکہ آپریشنل فریم ورک میں کام کرتی ہیں۔ ڈیفنس فورسز ہیڈ کوارٹرز کا قیام اسی اہم تناظر میں کیا گیا ہے۔ دنیا کی جدید افواج پہلے ہی اس ماڈل کی طرف گامزن ہیں، جہاں ادارہ جاتی ہم آہنگی کو طاقت کا بنیادی محرک سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان نے بھی اس جدید ماڈل کو اپناتے ہوئے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ دفاعی امور میں جدیدیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے تقاضوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔

فیلڈ مارشل کا یہ کہنا نہایت اہم تھا کہ نئی تنظیم کے باوجود تینوں افواج اپنی اندرونی خود مختاری اور تنظیمی ڈھانچہ برقرار رکھیں گی۔ اس کا مقصد واضح ہے کہ ڈیفنس فورسز ہیڈ کوارٹرز ایک بالائی مربوط پلیٹ فارم فراہم کرے گا، مگر یہ کسی بھی افواج کے اندرونی نظام میں دخل اندازی نہیں کرے گا۔ یوں ایک طرف مشترکہ کمانڈ کا مؤثر نظام قائم ہوگا، جب کہ دوسری طرف ہر سروس اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور مخصوص آپریشنل ذمے داریوں کے تحت اپنی شناخت اور فعالیت برقرار رکھے گی۔

یہ ماڈل اس لیے بھی ناگزیر تھا کہ نئی نسل کی جنگیں محض روایتی جنگی محاذوں تک محدود نہیں رہ گئیں۔ سائبر حملے، ہائبرڈ وار، معاشی دباؤ، معلوماتی محاذ آرائی اور پراکسی جنگ جیسے نئے خطرات اب عسکری حکمتِ عملی کا بنیادی حصہ ہیں۔ ایسے حالات میںمربوط، جامع اور ہم آہنگ حکمتِ عملی ہی دفاعی کامیابی کی ضمانت بنتی ہے۔

پاکستان کی مسلح افواج نے اندرونی محاذ پر بھی گہرے چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف دو دہائیوں پر محیط جنگ، بے شمار قربانیاں، لاکھوں شہریوں اور ہزاروں جوانوں کی لازوال جدوجہد اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان نے دنیا میں سب سے طویل اور مشکل ترین دہشت گردی کے چیلنج کا مقابلہ اپنے وسائل، اپنے عزم اور اپنے خون سے کیا۔ فیلڈ مارشل نے درست کہا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے، مگر یہ امن کمزوری یا پسپائی سے نہیں بلکہ طاقت، قربانی اور ثابت قدمی سے حاصل کیا گیا ہے۔

اب بھی اگر دہشت گرد عناصر دوبارہ سر اٹھانے کی کوشش کریں یا بیرونی طاقتیں انھیں سہارا دینے لگیں، تو پاکستان ایسی کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔یہ لمحہ بھی قومی تاریخ میں اہمیت رکھتا ہے کہ ڈیفنس فورسز ہیڈ کوارٹرز کے قیام کے موقع پر تینوں مسلح افواج نے جس اتحاد، نظم اور پیشہ ورانہ عزم کا اظہارکیا، وہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ پاکستان کی دفاعی سوچ میں نہ صرف تسلسل ہے بلکہ مستقبل کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک متحرک اور جدید نقطہ نظر بھی شامل کیا جارہا ہے۔ دنیا میں وہی ممالک محفوظ رہتے ہیں جو اپنی اندرونی صف بندی مضبوط رکھتے ہیں اور اپنی حدود کی حفاظت کے لیے واضح حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں۔

اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی معاشرتی اور سیاسی استحکام کا دار و مدار بھی اس بات پر ہے کہ ریاست کے ادارے ہم آہنگی، نظم اور یکسوئی کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں۔ قوم اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ دفاعی محاذ پر مضبوطی، داخلی استحکام سے براہ راست جڑی ہوتی ہے۔ مسلح افواج نے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں میں ہمیشہ سیاست سے بالاتر رہ کر ملک کی سلامتی اور تحفظ کو اولیت دی ہے اور آج بھی ملک کے دفاع کا مرکزی ستون وہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی سیاسی قیادت، سماجی اداروں اور معاشی ڈھانچے کو بھی اپنے اپنے دائرے میں ذمے داری نبھانا ہوگی، تاکہ پاکستان ایک ہمہ جہت مضبوط ریاست کے طور پر ابھر سکے۔

ریاستی سلامتی کے اس وسیع اور پیچیدہ منظرنامے میں پاکستان کی عسکری قیادت کے مضبوط موقف نے اس امرکو یقینی بنایا ہے کہ کوئی بھی قوت پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو چیلنج کرنے کی غلطی نہ کرے۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ضرور ہے، مگر یہ امن دباؤ، خوف یا مصلحت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصول، انصاف اور خود اعتمادی کی بنیاد پر قائم ہے۔

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی تقریر اسی پالیسی کا ایک واضح اور غیر مبہم اظہار تھی۔پاکستان کے دفاعی ارتقا کا یہ نیا مرحلہ جہاں ایک جانب ہمارے ادارہ جاتی استحکام کو مضبوط کرتا ہے، وہیں مستقبل کی دفاعی حکمتِ عملی کو بھی ایک نئے راستے پر ڈال رہا ہے۔ یہ راستہ یکجہتی، جدیدیت، پیشہ ورانہ تربیت، داخلی ہم آہنگی اور خطے میں ذمے دارانہ کردار کا راستہ ہے۔ اسی راستے پر چل کر پاکستان نہ صرف اپنی سرحدوں کا دفاع مضبوط کرے گا بلکہ دنیا میں ایک امن پسند، باوقار اور ذمے دار ریاست کے طور پر اپنی شناخت مزید مستحکم کرے گا۔

یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ پاکستان کو موجودہ دور میں جتنے پیچیدہ، متنوع اور کثیر جہتی خطرات کا سامنا ہے، شاید ہی کبھی پہلے رہا ہو۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی قوم نے ہمیشہ اپنے چیلنجز کو مواقع میں بدل کر دکھایا ہے۔ یہی جذبہ، یہی عزم اور یہی وحدت پاکستان کو ناقابل تسخیر بناتی ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے حالیہ بیانات اسی ناقابل تسخیر تصورِ پاکستان کی توثیق کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چیٹ جی پی ٹی کے اکسانے پر بیٹے کی ماں کو قتل کرکے خودکشی؛ مقدمہ درج
  • چیٹ جی پی ٹی کا کمال، ماں کو قتل کرکےبیٹے کی خودکشی
  • امریکی شخص کی ماں کو قتل کرنے کے بعد خودکشی، چیٹ جی پی ٹی ذمہ دار قرار
  • عمران زیادہ بڑے خود پسند اور ذہنی مریض ہیں یا جرنیل؟
  • ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!
  • اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان غالب، انڈیکس 170,000 کی حد عبورکرگیا
  • افغانستان میں طاقت کی کشمکش اور بھارت کا بڑھتا ہوا کردار
  • کراچی، فیڈرل بی ایریا کے رہائشی شخص نے گلے میں پھندا لگا کر خودکشی کر لی
  • ناقابل تسخیر تصورِ پاکستان
  • اڈیالہ کا قیدی بانی متحدہ پارٹ ٹو بن چکا، ذہنی کیفیت کا معائنہ کیا جائے،عظمیٰ بخاری