فٹبال کی تاریخ کا نیا سنگِ میل، کرسٹیانو رونالڈو کے 950 گول مکمل
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
پرتگال کے عظیم فٹبالر اور النصر کے کپتان کرسٹیانو رونالڈو نے ہفتہ 25 اکتوبر کو فٹبال کی تاریخ میں ایک اور ریکارڈ قائم کرتے ہوئے اپنے کیریئر کا 950واں گول اسکور کیا۔
رونالڈو نے یہ تاریخی گول سعودی پرو لیگ کے میچ میں النصر کی جانب سے الحزم کے خلاف کنگ عبداللہ اسپورٹس سٹی اسٹیڈیم، بوریدہ میں کیا۔
میچ کے 25ویں منٹ میں جواو فیلکس نے النصر کو برتری دلائی، تاہم آخری لمحات میں رونالڈو نے 88ویں منٹ میں گیند کو جال میں پہنچا کر ٹیم کو 2 صفر کی برتری دلائی۔ یہ گول رونالڈو کا النصر کے لیے اس سیزن کا چھٹا اور کلب کے لیے مجموعی طور پر 106واں گول تھا۔
مزید پڑھیں: کرِسٹیانو رونالڈو کا بیٹا بھی پرتگال کی ٹیم میں شامل
رونالڈو کیریئر کا سفر17 سال کی عمر میں اپنے پیشہ ورانہ سفر کا آغاز کرنے والے رونالڈو نے 14 اگست 2002 کو انٹر میلان کے خلاف اپنا پہلا گول کیا۔ اس کے بعد رونالڈو نے 20 سے زائد سالوں پر محیط اپنے کیریئر میں دنیا کی بڑی ٹیموں کی نمائندگی کرتے ہوئے ریکارڈ پر ریکارڈ توڑ دیے۔
30 سال: 58 گول
31 سال: 54 گول
32 سال: 53 گول
33 سال: 49 گول
34 سال: 45 گول
35 سال: 40 گول
36 سال: 41 گول
37 سال: 17 گول
38 سال: 53 گول
39 سال: 50 گول
40 سال: 27 گول (جاری)
مزید پڑھیں: کرسٹیانو رونالڈو ایک بار پھر دنیا کے سب سے زیادہ کمانے والے فٹبالر قرار
کلب کے لحاظ سے رونالڈو کے گولرئیل میڈرڈ — 450
مانچسٹر یونائیٹڈ — 145
پرتگال (قومی ٹیم) — 143
النصر (سعودی عرب) — 106
یووینٹس — 101
اسپورٹنگ لزبن — 5
100واں گول: جنوری 2008
500واں گول: ستمبر 2015
700واں گول: اکتوبر 2019
800واں گول: دسمبر 2021
900واں گول: ستمبر 2024
950واں گول: اکتوبر 2025
مزید پڑھیں: رونالڈو کے انداز نے اڑایا بھارتی رافیل کا مذاق؟ محسن نقوی کی پوسٹ پر دلچسپ تبصرے
کریسٹیانو رونالڈو کے اہم ریکارڈز4 مختلف کلبوں کے لیے 100 سے زائد گول کرنے والے دنیا کے واحد کھلاڑی۔
بین الاقوامی فٹبال میں سب سے زیادہ گول اسکورر۔
فٹبال کی تاریخ میں پہلا کھلاڑی جس کی مجموعی دولت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
انگلش، اسپینش اور اطالوی لیگ میں 50 سے زائد گول کرنے والے پہلے فٹبالر۔
رونالڈو نے 1,293 میچز میں 950 گول اور 259 اسسٹس کیے ہیں۔ انہوں نے 854 میچ جیتے، 240 ڈرا ہوئے اور 199 میں شکست ہوئی۔ اب 40 سالہ رونالڈو کی نظریں ایک ہزار گولز کے سنگ میل پر ہیں۔ ایک ایسا ریکارڈ جس تک آج تک کوئی فٹبالر نہیں پہنچ سکا۔
مزید پڑھیں: کیا رونالڈو 1000 واں گول کرنے کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے؟
رونالڈو نے اپنی ریٹائرمنٹ کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے النصر کے ساتھ اپنا معاہدہ جون 2027 تک بڑھا دیا ہے، اور وہ اب بھی پرتگال کی قومی ٹیم کے کپتان کے طور پر فیفا ورلڈ کپ 2026 کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
النصر پرتگال رئیل میڈرڈ کرسٹیانو رونالڈو مانچسٹر یونائیٹڈ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: النصر پرتگال رئیل میڈرڈ کرسٹیانو رونالڈو مانچسٹر یونائیٹڈ کرسٹیانو رونالڈو رونالڈو نے مزید پڑھیں رونالڈو کے کے لیے
پڑھیں:
دسمبر کی تلخ گواہی
دسمبر کا مہینہ جب بھی آتا ہے پاکستان کی اجتماعی یادداشت کے اوراق خونچکاں ہو جاتے ہیں۔ یہ مہینہ تاریخ کے اُس باب کو تازہ کر دیتا ہے جسے ہم چاہ کر بھی بھلا نہیں پاتے۔ 1971 ہماری وہ کڑی آزمائش تھی جس میں ہم ناکام ہوئے۔ مشرقی پاکستان کے زخم نہ صرف ہمارے سیاسی رویوں کی کمزوریوں کا آئینہ ہیں بلکہ قوموں کے مستقبل پر ماضی کی غلطیوں کے اثرات کی بھی واضح مثال ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد مرکز میں طاقت اور معاشی وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، اردو کو واحد قومی زبان قرار دینے کا فیصلہ اور مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کی سیاسی و مالی بالادستی نے دونوں حصوں کے درمیان بے اعتمادی کو بڑھایا۔ مگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا۔ بنگالی مسلمانوں کو شکوہ تھا کہ اُن کی اکثریت ہونے کے باوجود طاقت کے مراکز میں ان کی نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
1954 ہو یا 1965 یا پھر 1970 کے انتخابات ہر بار انھوں نے واضح طور پر یہ باور کرایا کہ انھیں اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔ مگر 1970 کے انتخابات کے بعد جس طرح اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کی گئی اس نے مغربی پاکستان کی قیادت پر سوالات کھڑے کیے۔
یہ وہی وقت تھا جب تاریخ نے اختلافات کو سلجھانے کا ایک آخری موقع ہمارے ہاتھوں میں رکھا مگر ہم اسے نہ سمجھ سکے اور نہ سنبھال سکے۔1971 کی جنگ میں بھارت نے یقیناً انھی عوامل فائدہ اٹھایاجو آگ ہمارے اندر کی ناانصافیاں بھڑکا رہی تھیں۔ اگر ہم اس حقیقت کا اعتراف کرنے کی ہمت رکھیں تو آج بھی اس زخم سے سیکھ سکتے ہیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان فکری، عوامی، سیاسی اور انتظامی شکست تھی۔
بنگلادیش کئی حوالوں سے مسلسل ترقی کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔ برآمدات، صنعت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری ،بنگلادیش نے ان تمام شعبوں میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام، معاشی بحرانوں اور پالیسیوں کے تسلسل کی کمی کا شکار ہے۔ آج پاکستان اور بنگلادیش سیاسی، معاشی اور سفارتی تعلقات کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ دونوں ممالک تجارت بڑھانے کے خواہشمند ہیں ۔ بنگلادیش کے عوام آج بھی پاکستان کے عوام سے محبت رکھتے ہیں۔ پاکستان نے بھی گزشتہ برسوں میں اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ سفارتی تعلقات کو مزید بہتر بنانا علاقائی تعاون کے لیے ضروری ہے۔
مستقبل کی نسلیں ماضی کی تلخیوں کے ساتھ نہیں جی سکتیں،انھیں امید، تعاون اور ترقی کے نئے راستے چاہئیں۔اس تناظر میں دسمبر کا تقویمی درد صرف ماضی کا ماتم نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے اُس سانحے سے کیا سیکھا اور آج اپنے ملک میں کون سی وہ چیزیں ہیں جنھیں درست کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ لسانی اختلافات آج بھی موجود ہیں، صوبائی خدشات آج بھی اپنی جگہ ہیں، معاشی عدم مساوات آج بھی ہمارے قومی ڈھانچے کو کمزور کر رہاہے اور سیاسی قیادت آج بھی تقسیم میںا ہے ۔
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ قومیں تب ہی مضبوط ہوتی ہیں جب ان میں انصاف غالب ہو، جب وسائل کی تقسیم شفاف ہو، جب ریاست اپنے ہر شہری کو برابر کا درجہ دے اور جب سیاسی فیصلے عوامی خواہشات اور قومی مفاد کو سامنے رکھ کر کیے جائیں۔ اگر ہم آج بھی ان بنیادی اصولوں کو نظرانداز کریں گے تو ماضی پھر دروازہ کھٹکھٹانے آئے گا اور تاریخ ایک بار پھر سوال اٹھائے گی کہ ہم نے آخر کیا سیکھا؟ تاریخ کا بوجھ صرف یاد رکھنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس سے سیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ 1971 ہمارا سب سے بڑا قومی زخم تھا مگر یہ زخم قوم کی تعمیرِنو کا ایک اہم سنگِ میل بھی بن سکتا تھا۔ بدقسمتی سے ہم نے اس موقع سے وہ فائدہ نہیں اٹھایا جو ہمیں اٹھانا چاہیے تھا مگر آج بھی دیر نہیں ہوئی۔آج کا پاکستان اگر خود احتسابی، شفافیت ، قومی اتحاد، معاشی انصاف اور سیاسی بلوغت اپنانے کا فیصلہ کر لے تو ماضی کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے۔
اور آج کا بنگلادیش اگر پاکستان کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری اور عوامی روابط بڑھا کرتعلقات کو نئی سمت دے تو یقیناً دونوں ممالک خطے میں ایک نئے دور کے آغاز کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔دسمبر کا پیغام محض سوگ نہیںیہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ماضی کو دفن نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے زخم مستقبل کی روشنی میں بھلے ضرور ہو سکتے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تاریخ کے تلخ اوراق سے گریز نہ کریں بلکہ ان سے سیکھ کر ایسا پاکستان اور ایسا خطہ تعمیر کریں جہاں تقسیم نہیں، اتحاد اور تعاون غالب ہو۔ خدا کرے کہ ہماری قیادت اس ضمن میں مثبت فیصلوں کی بنیاد رکھیں۔