چاہت فتح علی خان نے انڈے پھینکنے کے واقعے پر خاموشی توڑ دی
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
معروف انٹرنیٹ سنسیشن اور گلوکار چاہت فتح علی خان نے بیرونِ ملک اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک ناخوشگوار واقعے پر بات کی ہے۔
چاہت فتح علی خان اپنے وائرل گانے ’بدو بدی‘ اور مزاحیہ انداز کی وجہ سے دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں، اِنہیں گزشتہ ماہ ایک ریستوران کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے دوران نامعلوم افراد کی جانب سے انڈوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
چاہت فتح علی خان تقریب میں شرکت کے بعد ریستوران سے باہر نکل رہے تھے تو سیکیورٹی گارڈز نے اِن سے تصاویر لینے کی خواہش ظاہر کی۔
اسی دوران چند افراد نے اچانک اِن پر انڈے پھینک دیے، یہ واقعہ گلوکار کے لیے دردناک اور توہین آمیز تھا اور وہ اس وقت حیران اور افسردہ رہ گئے۔
حالیہ دنوں میں ایک شو میں شرکت کے دوران چاہت فتح علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ ریستوران انتظامیہ نے واقعے کے بعد کوئی تعاون نہیں کیا اور سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا، بعد ازاں معلوم ہوا کہ ریستوران کے مالک کا تعلق بھارت سے ہے جس کے بعد میں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ممکنہ طور پر مجھے نشانہ بنایا گیا ہے۔
چاہت فتح علی خان نے مزید کہا کہ میں اس واقعے پر قانونی کارروائی کر رہا ہوں تاکہ ملزمان کو سزا مل سکے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: چاہت فتح علی خان نے
پڑھیں:
سپریم کورٹ: زیادتی کیس کے ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی گئی
—فائل فوٹوسپریم کورٹ آف پاکستان نے زیادتی کیس میں ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی۔
عدالتِ عظمیٰ نے ملزم حسن خان کو دفعہ 496 بی کے تحت مجرم قرار دیا۔
جسٹس شہزاد احمد نے اکثریتی فیصلے میں لکھا کہ واقعے کا مقدمہ 7 ماہ کی تاخیر سے درج کیا گیا تھا، متاثرہ خاتون نے واقعے کے وقت مزاحمت نہیں کی، طبی معائنے میں تشدد یا مزاحمت کے نشانات سامنے نہیں آئے، کیس زبردستی زیادتی کا نہیں بنتا۔
جسٹس صلاح الدین نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس صلاح الدین نے لکھا کہ متاثرہ لڑکی کی عمر تقریباً 24 سال تھی، واقعے کے نتیجے میں بچہ پیدا ہوا، جس کی تصدیق ڈی این اے رپورٹ سے ہوتی ہے، جنسی جرائم کے مقدمات میں تاخیر غیر معمولی بات نہیں، معاشرتی دباؤ اور خوف کے باعث متاثرہ خاتون رپورٹ درج کروانے میں تاخیر کر سکتی ہے، اسلحے کی موجودگی میں مزاحمت نہ ہونا فطری عمل ہو سکتا ہے، 7 ماہ بعد طبی معائنہ مزاحمت کے نشانات ظاہر نہیں کر سکتا، زیادتی ثابت نہ ہونے سےخود بخود رضا مندی ثابت نہیں ہوتی، صرف سزا کم کرنے کے لیے جرم کی دفعہ تبدیل نہیں کی جا سکتی۔
خیال رہے کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو 20 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی تھی، جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔