جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی میں تاخیر سے مایوسی بڑھ رہی ہے، عمر عبداللہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
وزیراعلٰی نے کہا کہ نیشنل کانفرنس حکومت کو اقتدار میں آئے صرف ایک برس ہوا ہے اور وہ اب بھی پُرامید ہے کہ اگر ریاستی درجہ انکی حکومت کے دور میں بحال ہوا تو یہ ایک خوش آئند پیشرفت ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ ریاستی درجہ کی بحالی میں مسلسل تاخیر سے لوگوں کی امیدیں مدھم پڑتی جا رہی ہیں اور اگر یہ عمل مزید موخر ہوا تو مایوسی مزید گہری ہوگی۔ اسمبلی کے احاطے میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ریاستی درجے کی بحالی کے بارے میں میری امید پہلے دن سے قائم تھی لیکن اب وہ کچھ کم ضرور ہوئی ہے، اگر یہ عمل مزید تاخیر کا شکار ہوا تو ہم میں ناامیدی بڑھ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس حکومت کو اقتدار میں آئے صرف ایک برس ہوا ہے اور وہ اب بھی پرامید ہے کہ اگر ریاستی درجہ ان کی حکومت کے دور میں بحال ہوا تو یہ ایک خوش آئند پیشرفت ہوگی۔ تاہم عمر عبداللہ نے واضح کیا کہ یونین ٹیریٹری کے تحت حکومت چلانا آسان نہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر ریاست ہوتی تو ہم اپنی مرضی سے افسران تعینات کرتے اور کام تیزی سے ہوتا، لیکن یو ٹی میں وزرا اُن افسران کے فیصلوں کے ذمہ دار ہیں جو اُنہیں اعتماد میں لئے بغیر فیصلے کر لیتے ہیں۔ یاد رہے کہ پانچ اگست 2019ء کو جموں و کشمیر کی سابق ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے الگ الگ یونین ٹیریٹریز جموں و کشمیر اور لداخ میں منقسم کیا گیا تھا۔ عمر عبداللہ نے ایک بار پھر واضح کیا کہ نیشنل کانفرنس کا بی جے پی سے کوئی خفیہ یا سیاسی سمجھوتہ نہیں۔ ان کے بقول یہ کہنا غلط ہے کہ ہم پس پردہ بی جے پی کے ساتھ ہیں، اگر ایسا ہوتا تو ہم نے راجیہ سبھا کی چوتھی نشست پر اپنا امیدوار کیوں اتارا ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل کانفرنس وہ واحد جماعت ہے جو بی جے پی کا براہِ راست مقابلہ کر رہی ہے، جب کہ دوسری جماعتیں کانگریس اور پی ڈی پی نے نگروٹہ کے ضمنی انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے نہیں کئے۔ راجیہ سبھا انتخابات کے دوران بعض اراکین کے بی جے پی امیدوار کے حق میں ووٹ دینے پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ کچھ لوگوں نے اپنا ایمان بیچ دیا۔ انہوں نے ایسے اراکین کے نام منظر عام پر لائے جانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطابق بی جے پی کے امیدوار ستیہ پال شرما کو 32 ووٹ ملے جب کہ ان کی پارٹی کے پاس صرف 28 اراکین اسمبلی تھے۔ یہ واضح ہے کہ کچھ اراکین کو راغب کرنے کی کوشش ہوئی، اب اس کا جواب بی جے پی کو دینا ہے۔
ہندوارہ کے رکنِ اسمبلی سجاد لون کی ووٹنگ سے غیر حاضری پر تنقید کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ان کا ووٹ نہ دینا بی جے پی کے حق میں گیا۔ انہون نے کہا کہ اگر وہ واقعی کسی فکسنگ کے خلاف تھے تو انہیں ووٹ ڈالنا چاہیئے تھا۔ اس دوران نیشنل کانفرنس کے ناراض ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی کی انتخابی مہم سے غیر حاضری پر بھی عمر عبداللہ نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا "میں نے پارٹی میں کسی کو مہم کے لئے مجبور نہیں کیا، ہمارے پاس مہم چلانے کے لئے کافی رہنما ہیں"۔ انہوں نے آغا سید روح اللہ مہدی کے ذکر کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مقابلے میں میاں الطاف کا قد کہیں زیادہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہ نیشنل کانفرنس عمر عبداللہ نے ریاستی درجہ کرتے ہوئے نے کہا کہ انہوں نے بی جے پی کہ اگر ہوا تو
پڑھیں:
لاہور آج بھی فضائی آلودگی کی عالمی درجہ بندی میں بدستور پہلے نمبر پر
آج کے روز بھی لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں فضائی آلودگی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ آئی کیو ایئر کے مطابق لاہور فضائی آلودگی کی عالمی درجہ بندی میں بدستور پہلے نمبر پر ہے جہاں اوسط اے کیو آئی 378 ریکارڈ کیا گیا، جبکہ دہلی 288 اور تاشقند 175 اے کیو آئی کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
پنجاب کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق شیخوپورا صوبے کا سب سے زیادہ آلودہ شہر ہے جہاں اے کیو آئی 500 کی انتہائی خطرناک سطح ریکارڈ کی گئی۔ لاہور 372 کے ساتھ دوسرے، گوجرانوالہ 294 پر تیسرے، فیصل آباد 255 پر چوتھے اور ملتان 194 کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔
فضائی آلودگی کے اعتبار سے سرفہرست دس شہروں میں سرگودھا 186، ڈیرہ غازی خان 179، بہاولپور 159، سیالکوٹ 156 اور راولپنڈی 124 اے کیو آئی کے ساتھ شامل ہیں۔
لاہور کے مختلف علاقوں میں بھی صورتحال مزید تشویش ناک ہے۔ شاہدرہ میں اے کیو آئی 500، ملتان روڈ 395، پنجاب یونیورسٹی کے علاقے میں 393، سفاری پارک 367، کہا نو 346، برکی روڈ 340، جی ٹی روڈ 337 اور ڈی ایچ اے فیز 6 میں 320 ریکارڈ کیا گیا، جو عالمی ادارۂ صحت کے تجویز کردہ معیار سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی میں اضافہ بنیادی طور پر بھارتی پنجاب سے داخل ہونے والی آلودہ ہواؤں اور فصلوں کی باقیات جلانے کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے ہے۔ رواں سال بھارتی پنجاب میں پرالی جلانے کے واقعات میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 15 فیصد اضافہ ہوا، جس کے اثرات لاہور، قصور، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ سمیت وسطی پنجاب کے بیشتر اضلاع پر پڑ رہے ہیں۔
محکمہ موسمیات اور ماحولیاتی تجزیاتی نظام کے مطابق رواں ہفتے ہوا کی رفتار 3 تا 5 میل فی گھنٹہ تک محدود اور درجہ حرارت میں نمایاں کمی کے باعث فضا میں آلودہ ذرات کے بکھراؤ کی صلاحیت کمزور ہو چکی ہے۔ رات اور صبح کے اوقات میں فضائی نمی 95 تا 100 فیصد ہونے کے باعث آلودگی زمین کے قریب جمع ہو جاتی ہے، جس سے حدِ نگاہ میں شدید کمی واقع ہو رہی ہے۔
دن کے وقت سورج کی روشنی سے فضا میں معمولی بہتری آتی ہے، لیکن شام ڈھلتے ہی سموگ دوبارہ گہری ہو جاتی ہے۔ محکمہ ماحولیات کا کہنا ہے کہ رواں سال ہوا کے کم دباؤ والے زونز، خشک موسمی حالات اور سرحد پار آلودگی نے صورتحال کو مزید بگاڑا ہے۔
پنجاب حکومت نے انسدادِ سموگ مہم میں تیزی لانے کا اعلان کیا ہے۔ محکمہ زراعت اور ماحولیات کی مشترکہ ٹیمیں لاہور، ننکانہ اور قصور سمیت مختلف اضلاع میں فصلوں کی باقیات جلانے والوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک پانچ ہزار سپرسیڈرز کے استعمال سے چار لاکھ ایکڑ رقبہ جلنے سے محفوظ رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے کسانوں کو چھ لاکھ سپرسیڈرز، ہارویسٹرز، کبوٹا ہارویسٹرز اور بیلرز جیسی جدید ماحول دوست مشینری فراہم کی گئی ہے، جس سے پرالی کو جلانے کے بجائے گٹھوں کی شکل میں محفوظ کر کے چارہ یا توانائی کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب دیہی علاقوں میں فصلوں کی باقیات نہ جلانے کی آگاہی مہم جاری ہے۔ مساجد میں اعلانات، دیہاتوں میں اجتماعات اور لمبرداروں کے ذریعے کسانوں کو سموگ کے نقصانات سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔
شہری علاقوں میں ضلعی انتظامیہ نے سموگ گنز (فوگ کینن) کے ذریعے زیادہ آلودہ علاقوں میں مصنوعی بارش کے چھڑکاؤ کا سلسلہ شروع کیا ہے تاکہ فوری طور پر آلودہ ذرات زمین پر بیٹھ جائیں۔
محکمہ ماحولیات کے ترجمان کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال انسدادِ سموگ مانیٹرنگ سسٹم زیادہ فعال اور مربوط ہے۔ عوام کو گھبرانے کی نہیں بلکہ تعاون کی ضرورت ہے۔
محکمہ موسمیات نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ صبح و شام کے اوقات میں غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور حساس افراد ماسک کا لازمی استعمال کریں۔ ادارے کے مطابق اگر آئندہ 48 گھنٹوں میں ہوا کی رفتار میں معمولی اضافہ ہوا تو فضائی آلودگی کی شدت میں جزوی کمی متوقع ہے۔