شبلی فراز کی نشست پر سینیٹ الیکشن، اے این پی نے حصہ نہ بننے کا اعلان کردیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے خیبرپختونخوا میں کل ہونے والے سینیٹ انتخابات سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
اے این پی کے ترجمان انجینیئر احسان اللّٰہ نے پشاور سے جاری بیان میں کہاکہ پارٹی کے اراکینِ اسمبلی کل ووٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔
ان کے مطابق اے این پی نہ کسی سیاسی جماعت کو ووٹ دے گی اور نہ ہی ہارس ٹریڈنگ جیسے عمل کا حصہ بنے گی۔
انجینیئر احسان اللّٰہ نے مؤقف اختیار کیاکہ جس جماعت کی اسمبلی میں واضح اکثریت ہے، سینیٹر بھی اسی جماعت کا ہونا چاہیے، لہٰذا دیگر جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے امیدوار واپس لے لیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ ہارس ٹریڈنگ مسلم لیگ (ن) کی پرانی روایت ہے جو جمہوری سیاست کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ خیبرپختونخوا سے سینیٹ کی خالی نشست جو تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز کے استعفے کے بعد خالی ہوئی تھی، پر انتخابات کل منعقد ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق ووٹنگ صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک خیبرپختونخوا اسمبلی میں ہوگی، جہاں ایک نشست کے لیے 5 امیدوار میدان میں ہیں۔ اور تحریک انصاف نے اس نشست کے لیے خرم ذیشان کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اے این پی سینیٹ الیکشن شبلی فراز عوامی نیشنل پارٹی وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے این پی سینیٹ الیکشن شبلی فراز عوامی نیشنل پارٹی وی نیوز اے این پی کے لیے
پڑھیں:
سینٹ کو انتشار اور محاذ آرائی کا میدان نہیں بننے دیا جائے گا: ڈپٹی چیئرمین
اسلام آباد (خبرنگار) ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان نے کہا ہے کہ سینیٹ کو سیاسی محاذ آرائی، انتشار یا کسی بھی قسم کی ہنگامہ آرائی کا مرکز نہیں بننے دیا جائے گا۔پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا نمائندگان سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سینیٹ چاروں صوبوں کی مساوی نمائندگی پر مشتمل واحد وفاقی ایوان ہے اور اس کے تقدس، قواعد وضوابط اور آئینی دائرہ کار کا تحفظ تمام اراکین کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔سیدال خان نے بتایا کہ قائم مقام چیئرمین سینیٹ کی جانب سے جاری کردہ رولنگ پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے پی ٹی آئی سمیت تمام پارلیمانی لیڈرز کو باضابطہ خطوط ارسال کر دیے گئے ہیں جبکہ اس رولنگ کی کاپی قائد ایوان، وزارتِ قانون اور چیف وہپ کو بھی بھجوا دی گئی ہے تاکہ کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے والے ارکان کی معطلی سے متعلق رولنگ 4 دسمبر کو جاری کی گئی تھی جس پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔ ڈپٹی چیئرمین نے کہا کہ ایوان میں قومی ہیروزخواہ وہ عسکری شعبے، سیاست، عدلیہ یا کسی بھی قومی ادارے سے تعلق رکھتے ہوں، کے خلاف توہین آمیز یا منفی گفتگو کی اجازت نہیں دی جا سکتی،ہر رکن کو اظہارِ رائے کا حق حاصل ہے، مگر یہ حق آئین، قواعد اور پارلیمانی روایات کے دائرے میں رہتے ہوئے استعمال ہونا چاہیے۔انہوں نے واضح کیا کہ جمعہ کے اجلاس میں پیش آنے والے واقعات کے بعد دی گئی رولنگ میں یہ بات کھل کر بتا دی گئی ہے کہ سینیٹ کے اندر بینرز، تصاویر یا ایسا کوئی مواد لانا جو پارلیمانی ڈیکورم کو مجروح کرے ، ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی ساکھ اور وقار کا تحفظ ہم سب پر فرض ہے۔سیدال خان نے موجودہ ملکی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت علاقائی تناؤ، دہشت گردی کے خدشات اور معاشی چیلنجز جیسے اہم مسائل سے دوچار ہے، ایسے میں سیاسی کشیدگی یا انتشار کو فروغ دینا قومی مفاد کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز ملک کی سلامتی اور امن کے لیے عظیم قربانیاں دے رہی ہیں، لہٰذا کسی بھی فورم پر غیر ذمہ دارانہ بیانات سے اجتناب ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ ایوان میں کوئی بھی رکن آئینی دائرے میں رہتے ہوئے بات کرے گا تو اس کے حقِ اظہار کی مکمل ضمانت دی جائے گی، تاہم پارلیمنٹ کو دباؤ، دھمکی یا اشتعال انگیزی کا مرکز نہیں بننے دیا جائیگا۔ ’’رولنگ کسی جماعت، فرد یا گروہ کے خلاف نہیں بلکہ سینیٹ کے قواعد و قانون کے مطابق ہے۔ مقصد صرف ایوان کی حرمت اور پارلیمانی اقدار کا تسلسل ہے۔ڈپٹی چیئرمین نے کہا کہ زیادہ تر پارلیمانی لیڈر سنجیدہ اور ذمہ دار ہیں اور امید ہے کہ تمام سیاسی قوتیں پارلیمنٹ کے تقدس کے لیے اپنا کردار ادا کریں گی،آج ہم ان نشستوں پر بیٹھے ہیں، کل کوئی اور ہوگا، مگر آئین، ادارے اور پارلیمانی روایات ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔سیدال خان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ملک کی ترقی، استحکام اور خوشحالی کا راستہ جمہوری اصولوں، قانون کی بالادستی اور ذمہ دار پارلیمانی کردار سے ہو کر گزرتا ہے۔ ’’جب میں ایوان میں بیٹھتا ہوں تو میرے سامنے کوئی خاص یا عام نہیں ہوتا، میرے سامنے صرف پاکستان، آئین پاکستان اور پارلیمنٹ کی بالادستی ہوتی ہے۔