پاک افغان مذاکرات ناکام، خواجہ آصف نے طالبان کو وارننگ دے دی
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews پاک افغان مذاکرات ناکام خواجہ آصف طالبان وارننگ وزیر دفاع وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک افغان مذاکرات ناکام خواجہ ا صف طالبان وارننگ وزیر دفاع وی نیوز
پڑھیں:
اقوام متحدہ کے اجلاس میں عالمی برادری کا افغان طالبان رجیم کو دو ٹوک انتباہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251214-01-21
جنیوا (مانیٹرنگ ڈیسک) انسدادِ دہشتگردی اقدامات کی عدم تکمیل پر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں عالمی برادری افغان طالبان پر برس پڑی، جہاں عالمی برادری نے افغان طالبان رجیم کو دوٹوک انتباہ دے دیا۔ افغانستان میں طالبان رجیم کی جانب دہشت گردوں کی سرپرستی کے باعث پاکستان سمیت پورے خطہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں متعدد ممالک کے مندوبین اور نمائندگان نے افغانستان کو دہشت گروں کی آماجگاہ قرار دیتے ہوئے عالمی فورم پر متفقہ تاثرات کا اظہار کیا ہے۔اقوام متحدہ میں چین
کے مستقل نمائندے فو کانگ نے خبردار کیا ہے کہ افغان سر زمین میں ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد گروہ فعال اور پڑوسی ممالک پر حملوں میں ملوث ہیں۔ ڈنمارک کی نمائندہ کرسٹینا مارکس لاسِن کے مطابق طالبان کو القاعدہ، ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستانی مندوب عاصم افتخار نے بھی افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں میں شدید اضافے کی وجہ طالبان کے غیر مؤثر اقدامات کو قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان سرزمین سے طالبان رجیم کی نگرانی ، منصوبہ بندی اور مالی معاونت میں پاکستان پر حملہ کیا جاتا ہے۔ امریکی نمائندہ نے سیکورٹی کونسل کو انسدادِ دہشت گردی سے متعلق کیے گئے وعدوں میں پیش رفت نہ ہونے پر طالبان کو تنبیہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاناما کے نمائندہ “ایلوی الفارو ڈی البا” نے افغانستان میں ٹی ٹی پی، داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے باعث مسلح واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ایرانی مندوب سعید ایراوانی نے بھی طالبان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ افغان سرزمین کسی بھی پڑوسی ملک کے خلاف دہشت گردی یا تشدد کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔