یاسین ملک کو سزا دلانے کے لئے ثبوت گھڑنے اور گواہ پیدا کرنے کی شدید مذمت
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
ذرائع کے مطابق بھارت کے بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے جموں کی ایک ٹاڈا عدالت میں دو خودساختہ عینی شاہدین پیش کئے جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے 1990ء میں سرینگر میں بھارتی فضائیہ کے چار اہلکاروں کے قتل میں یاسین ملک کی مرکزی ملزم کے طور پر شناخت کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں حریت رہنمائوں اور قانونی ماہرین نے سینئر کشمیری رہنمائوں بالخصوص جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کے خلاف سیاسی بنیادوں پر قائم کئے گئے مقدمات میں ثبوت گھڑنے اور خودساختہ گواہ پیدا کرنے پر بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارت کے بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے جموں کی ایک ٹاڈا عدالت میں دو خودساختہ عینی شاہدین پیش کئے جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے 1990ء میں سرینگر میں بھارتی فضائیہ کے چار اہلکاروں کے قتل میں یاسین ملک کی مرکزی ملزم کے طور پر شناخت کی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان افراد میں سے ایک نے پہلے بھی ایسا بیان دیا تھا جس سے شہادتوں کی ساکھ، وقت اور ترتیب کے بارے میں سنگین شکوک پیدا ہوئے تھے۔ سرینگر میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اس سازش کا حصہ ہے جس کے تحت ایجنسیاں بھارتی قبضے کو چیلنج کرنے والی کشمیری سیاسی شخصیات کے خلاف پہلے سے طے شدہ سزائیں حاصل کرنے کے لیے گواہوں کو تخلیق اور جوڑ توڑ کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عینی شاہد اس واقعے کے 35 سال اور کیس بند ہونے کے طویل عرصے بعد اور اس وقت سامنے آئے ہیں جب مودی حکومت اختلاف رائے کو کچلنے پر تلی ہوئی ہے۔ حریت رہنمائوں نے کہا کہ تازہ ترین اقدام کا مقصد یاسین ملک کو مجرم قرار دلانا ہے تاکہ تنازعہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد سے بھارت کے انکار سے عالمی توجہ ہٹائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ جو کئی دہائیوں بعد دوبارہ کھولا گیا، سیاسی انتقام پر مبنی ہے جس کا واحد مقصد یاسین ملک اور حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے والے دیگر نظربند رہنمائوں کو خاموش کرانا ہے۔ یاسین ملک نے جو دہلی کی تہاڑ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے، ان الزامات کو مسترد کر دیا۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ان مقدمات کو یاسین ملک کی مستقل قید کو یقینی بنانے اور کشمیریوں کی تمام پرامن سیاسی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے دوبارہ کھولا گیا۔
حریت رہنمائوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے زیر اثر کام کرنے والی عدالتوں کو بھارتی مظالم کا جواز پیش کرنے اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسرت عالم بٹ اور شبیر احمد شاہ سے لے کر آسیہ اندرابی تک پوری مزاحمتی قیادت کو ختم کرنے کے لیے نئے بیانیے، تخلیق شدہ گواہان اور کالے قوانین کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ حریت رہنمائوں نے اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں اور عالمی قانونی اداروں پر زور دیا کہ وہ بھارت کے عدالتی جوڑ توڑ کا فوری نوٹس لیں اور یاسین ملک سمیت تمام سیاسی نظر بندوں کی رہائی کا مطالبہ کریں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کی جدوجہد کو جرم بنانے اور مظلوم عوام کی سیاسی آواز کو دبانے کے لیے عدالتوں کو ہتھیار بنانے پر بھارت کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حریت رہنمائوں کا کہنا ہے کہ یاسین ملک بھارت کے انہوں نے ہے کہ ان کے لیے
پڑھیں:
قابض حکام مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں سیاسی قیدیوں کو ہراساں کر رہے ہیں
مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی کارکنوں سمیت کشمیری قیدیوں کے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی جاری ہے جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اجتماعی سزا کی قابض حکام کی وسیع تر پالیسی کی عکاسی ہوتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض حکام نے بنیاد پرستی کو روکنے کی آڑ میں جیلوں میں ظالمانہ اقدامات اور کشمیری نظربندوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے اور ان کی نگرانی مزید سخت کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات سیاسی اختلاف کو دبانے اور مزاحمت کو جرم قرار دینے کی وسیع تر بھارتی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ قابض حکام نے کشمیری اور غیر ملکی قیدیوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا شروع کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے کشمیری سیاسی قیدیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارتی ایجنسیوں نے جیلوں کے اندر اچانک چھاپوں اور تلاشی کارروائیوں، گشت اور نگرانی کا سلسلہ تیز کر دیا ہے جبکہ اشیائے ضروریہ فراہم کرنے والے دکانداروں کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔ کشمیری سول سوسائٹی نے نئے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جیلوں کو طویل عرصے سے ہراساں کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات کشمیریوں کی سیاسی آواز دبانے کے لیے بھارت کی نئی حکمت عملی کی نشاندہی کرتے ہیں اور اختلاف رائے کو بین الاقوامی برادری کے سامنے دہشت گردی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے قیدیوں اور ان کے اہل خانہ میں خوف و دہشت پھیل رہا ہے اور انصاف کی راہیں مزید مسدود ہو رہی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی کارکنوں سمیت کشمیری قیدیوں کے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی جاری ہے جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اجتماعی سزا کی قابض حکام کی وسیع تر پالیسی کی عکاسی ہوتی ہے۔