قومی علما و مشائخ کانفرنس سے خطاب میں علما کرام کا کہنا تھا کہ مدارس کے 30 لاکھ طالبعلم ایک حکم کے منتظر ہیں، مئی میں پاکستان کو فتح اللہ تعالیٰ کی مدد سے حاصل ہوئی، پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے امن کو اپنے امن کے مترادف سمجھا ہے اور کبھی بھی پاکستان سے افغانستان میں دہشتگردی کی سرگرمی نہیں کی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں جاری حملے کسی سے مخفی نہیں۔ کنونشن سینٹر اسلام آباد میں قومی علماء و مشائخ کانفرنس کا انعقاد ہوا، جس میں مختلف مکتبہ فکر کے علماء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مفتی عبدالرحیم نے کہا کہ ہمارا ملک جنگی حالات سے گزر رہا ہے، سیاسی و عسکری قیادت اکٹھے ہو کر چل رہے ہیں، ہماری فوج حرمین شریفین کی محافظ بھی ہے۔ سربراہ جامعہ رشید مفتی عبدالرحیم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری فوج کو غزوہ ہند کی توفیق عطا فرمائی ہے، اس لیے ہمیں اپنی فوج کو ہر صورت میں سپورٹ کرنا چاہیے، فتنہ الخوارج کو ختم کرنے کیلئے علما کرام کی مدد کی بہت ضرورت ہے۔

انہوں نے کہاکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں خارجی مذہب کی بنیاد پر دہشتگردی کرتے ہیں، علما افغانستان کو تنبیہ کریں کہ اسلام کے نام پر پاکستانیوں کا خون نہ بہائے، افغانستان میں فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کو بھارت اور اسرائیل کی پشت پناہی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ علمائے کرام کو یک زبان ہو کر افوج کیساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ طاہر اشرفی نے کہا کہ مدارس کے 30 لاکھ طالبعلم ایک حکم کے منتظر ہیں، مئی میں پاکستان کو فتح اللہ تعالیٰ کی مدد سے حاصل ہوئی، پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے امن کو اپنے امن کے مترادف سمجھا ہے اور کبھی بھی پاکستان سے افغانستان میں دہشتگردی کی سرگرمی نہیں کی گئی، اس کے برعکس افغانستان سے پاکستان میں جاری حملے کسی سے مخفی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اعلامیے کے ذریعے امن کے پیغام کو واضح کریں اور اس پر عملی طور پر عملدرآمد کروائیں۔ مرکزی جنرل سیکرٹری شیعہ علماء کونسل علامہ شبیر حسن میثمی نے کہا کہ بنیان المرصوص دنیا میں ہماری عزت اور شرف کا باعث بنا ہے، پاک فوج کے شہداء نے ملک کی خاطر جانیں قربان کیں، پاک فوج کیخلاف پروپیگنڈا کرنیوالوں کی مذمت کرتے ہیں۔ علامہ ضیاء اللہ شاہ نے کہا کہ فیلڈ مارشل کی قیادت میں افواج نے معرکہ حق میں فتح حاصل کی، کسی نام نہاد سیاست دان کو پاک فوج کے کسی سپاہی کیخلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پیر حسن حسیب الرحمان نے کہا کہ پاکستان کے پاسپورٹ کو عزت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نے کہا کہ

پڑھیں:

افغان علما کا فتویٰ: ایک خوشگوار اور اہم پیشرفت

گزشتہ روز ایک افغان صحافی کا ٹیکسٹ میسج آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بڑی ڈیولپمنٹ ہوئی ہے اور افغان علما نے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروپوں کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے۔

کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ افغان میڈیا کے مطابق 34 صوبوں سے ایک ہزار علما کابل میں اکٹھے ہوئے ہیں اور انہوں نے ایک اعلامیہ/فتویٰ جاری کیا ہے جس کی شق نمبر 3 اور 4 کے مطابق افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشتگرد حملوں کے لیے استعمال نہیں کی جا سکتی اور ایسا کرنے والوں کے خلاف امارت اسلامیہ (افغان طالبان حکومت) کارروائی کرے گی جبکہ چونکہ امیر شرعی (یعنی مولانا ہبت اللہ) نے کسی افغان کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ کسی بیرونی ملک میں فوجی سرگرمی کے لیے جائے، اس لیے جو افغان ایسا کرے گا اس کے خلاف امارت اسلامیہ کو اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے۔

افغان میڈیا طلوع نیوز نے یہ خبر چلائی اور پھر رفتہ رفتہ سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے خبریں آنے لگیں۔ حتیٰ کہ افغان وزیر خارجہ ملا متقی نے اسے باقاعدہ بیان کے ذریعے کنفرم کردیا۔ مختلف واٹس ایپ گروپس، خاص کر جہاں پاکستانی، افغان صحافی، تجزیہ کار اکٹھے موجود ہیں، اس پر بات شروع ہوگئی، خوشی اور امید کا اظہار بھی کیا گیا کہ اس سے خیر برآمد ہو وغیرہ وغیرہ۔

اس فتوے میں کیا چیزیں اہم ہیں؟

خاکسار نے اس سٹوری پر کام شروع کیا، افغان امور کو جاننے، سمجھنے والے پاکستانی تجزیہ کاروں سے بات کی، بعض افغان سورسز سے بات ہوئی، خاص کر قندھار اور کابل میں ایک دو ذمہ دار جاننے والوں سے اصل حقیقت جاننا چاہی تو دلچسپ صورتحال سامنے آئی۔

3 باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ افغان طالبان کے سیٹ اپ میں اگر علما کا اجتماع ہوا ہو، حکومتی ذمہ داران اس میں شامل ہوں اور کوئی اعلامیہ جاری ہوا ہو تو وہ اہم تصور ہوتا ہے۔

افغان پس منظر میں یہ اہم بات ہے کیونکہ ماضی میں بھی اہم پالیسی بیانات یا غیر معمولی اہمیت کے فتوے جات کے لیے علما کا اجتماع ہی بلایا جاتا رہا اور انہی کے ذریعے وہ اسٹیٹمنٹ آتی ہے جسے بعد میں اسٹیٹ پالیسی بنا لیا جاتا ہے۔

قارئین میں سے بعض کو شاید یاد ہو کہ 9/11 کے بعد اسامہ بن لادن کی امریکا کو حوالگی کے مطالبہ پر بھی افغان علما کا بڑا اجتماع منعقد ہوا اور اس کنونشن نے اپنی اسٹیٹمنٹ دی کہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے نہ کیا جائے، تاہم وہ اپنے طور پر افغانستان چھوڑ کر چلے جائیں۔ بعد میں طالبان امیر ملا عمر نے یہی بات اسٹیٹ پالیسی کے طور پر کہی اور اگرچہ اس کی قیمت ادا کی مگر علما کے اجتماع کے فیصلے کی پابندی کی۔

کابل کے حالیہ اجتماع میں علما، مشائخ کے علاوہ چیف جسٹس ملا عبدالحکیم حقانی بھی شریک ہوئے۔ یہ ایک طرح سے افغان طالبان کی نظریاتی پالیسی میں اہم ترین آدمی ہیں، ان کی افغان مذہبی اور علما طبقے میں عزت اور احترام ہے اور ان کی آرا کو توقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ افغان سیٹ اپ میں امیر ملا ہبت اللہ سے نیچے جو 3، 4 مختلف ستون یا پلرز ہیں، ان میں نظریاتی، فکری اور مذہبی ستون دراصل چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی ہیں۔

علما کنونشن میں افغان وزیراعظم ملا حسن اخوند بھی شریک ہوئے۔ یہ بھی اہم شخصیت ہیں، حکومت سازی میں اور سیاسی طور پر بھی اپنی قوت رکھتے ہیں، عملیت پسند سمجھے جاتے ہیں اور بہت سے معاملات میں سخت گیر اور معتدل عناصر کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ علما کنونش میں مجلس کی سربراہی 2 علما نے کی، ان میں سے ایک بزرگ عالم دین شیخ حبیب اللہ سمنگانی ہیں۔ ان کا تعلق شمالی صوبے سمنگان سے ہے۔

یہ بھی پتہ چلا کہ علما کا یہ اجتماع درحقیقت امیر ہیبت اللہ کی ہدایت پر ہوا اور اس کے لیے خاصی کوشش کی گئی اور ظاہر ہے دور دراز علاقوں سے مختلف علما دین کو اکٹھا کیا گیا۔ اس مجلس میں کابینہ کے کئی وزرا بھی شریک ہوئے۔

ایک اور دلچسپ بات یہ پتہ چلی کہ دانستہ طور پر اس اجتماع کی میڈیا کوریج نہیں کرائی گئی تاکہ خواہ مخواہ کی غیر ضروری منفی ہائپ نہ ہو اور میڈیا سنسنی نہ پھیلائے۔ علما کا اجتماع کئی گھنٹے جاری رہا اور پھر اس کا اعلامیہ تشکیل دیا گیا جسے سب نے منظور کیا اور اس اعلامیہ کے بھی کئی گھنٹوں بعد اسے بتدریج میڈیا اور پھر سوشل میڈیا پر لیک کیا گیا۔ رفتہ رفتہ اس کی جذئیات سامنے لائی گئیں۔ پھر باقاعدہ اور آفیشل سطح پر وزیرخارجہ امیر خان متقی کے ذریعے اس کی تصدیق کی گئی۔

کابل اور قندھار کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق ’اس وقت ایسا مؤقف سامنے آنا خود بڑی پیشرفت ہے۔ امارت اسلامیہ میں علما کا مؤقف درحقیقت حکومت ہی کا موقف ہوتا ہے‘۔

افغان علما کے اس غیر معمولی اجتماع نے اگرچہ یہ بات کہی کہ اگر افغانستان پر کوئی بیرونی قوت حملہ کرے تو تمام افغانوں پر لازم اور فرضِ عین ہے کہ اپنے نظام، اپنی سرزمین اور اپنی اقدار کا دفاع کریں اور یہ دفاع ’جہادِ مقدس‘ شمار ہوگا۔ بعض پاکستان مخالف افغان چینلز اور سوشل میڈیا ہینڈلز نے اس نکتہ کو زیادہ اہمیت دی اور اسے پاکستان کے خلاف بیان قرار دیا۔ ذرائع اس کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تو انڈرسٹڈ بات ہے، ظاہر ہے کسی بھی ملک پر حملے کے جواب میں وہاں کےعوام دفاع کریں گے ہی، یہ بات کہنا تو فطری اور منطقی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ  اس اعلامیہ میں زور دے کر، بڑی وضاحت کے ساتھ یہ کہا گیا، ’چونکہ امارتِ اسلامیہ نے یہ عہد کیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، اس لیے تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کریں، اور اس عہد پر عمل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ جو شخص اس عہد کی پابندی نہیں کرتا، وہ نافرمان اور خلاف ورزی کرنے والا سمجھا جائے گا اور امارتِ اسلامیہ کو حق حاصل ہے کہ ایسے شخص کے خلاف ضروری اقدامات کرے‘۔

یہاں پر غور کریں کہ لفظ ’تمام مسلمانوں‘ استعمال کیا گیا یعنی ضروری نہیں کہ وہ مسلمان افغان ہو، وہ غیر افغان بھی ہوسکتا ہے، مگر اسے بھی اس کی پابندی کرنا پڑے گی۔

اگلے اور آخری نکتے میں یہ بات کہی گئی: ’چونکہ امیرِ شرعی نے کسی افغان کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ کسی بیرونی ملک میں فوجی سرگرمی کے لیے جائے، لہٰذا اگر کوئی شخص اس حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا جانا جائز نہیں۔ امارتِ اسلامیہ کو حق حاصل ہے کہ وہ ایسے افراد کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرے‘۔

آپ غور کریں تو تیسرے نکتے میں ’تمام مسلمانوں‘ کی بات کہی گئی، چوتھے نکتے میں افغان شہری کی بات کہی گئی۔ یعنی ان دونوں نکات میں افغانستان میں رہنے والے ہر غیر افغان مسلمان اور ہر افغان شہری پر یہ لازم قرار دیا گیا کہ وہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں کرسکتا اور جو ایسا کرے گا اس کے خلاف افغان حکومت (امارت اسلامیہ) کارروائی کرے گی۔

اس طرح سے بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ افغان علما کا اعلامیہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروہوں کے خلاف فتویٰ ہے۔ ایک واضح اعلان ہے کہ وہ اپنی سرگرمیاں بند کردیں، ورنہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔

فتوے کے حوالے سے مزید کیا ہوسکتا تھا؟

میرے خیال میں 2، 3 چیزیں ہونی چاہییں تھیں، تب شاید اس فتوے کا امپیکٹ بڑھ جاتا۔ پہلا یہ کہ اجتماع قندھار میں منعقد ہوتا کیونکہ افغان طالبان کے سیٹ اپ میں قندھار طاقت کا اصل مرکز ہے اور نظریاتی، مذہبی رہنمائی خاص طور سے قندھار سے جنم لیتی ہے۔ ملا عمر کے دور میں بھی قندھار کی اصل اہمیت تھی اور موجودہ طالبان رجیم میں بھی قندھار ہی فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ ممکن ہے کسی تکنیکی یا لاجسٹک وجوہات کی بنا پر کابل کا انتخاب کیا گیا ہو، ورنہ قندھار کا انتخاب بہتر رہتا۔

دوسرا بہتر ہوتا کہ اگر ایک ہزار علما شریک ہوئے تو اعلامیہ میں بھی ایک ہزار علما کے الفاظ شامل کیے جاتے، اس کا نفسیاتی اثر ہوتا ہے۔ اس کے بجائے یہ لکھا گیا، ’ہم علمائے دین، مفتیان و مشایخ، افغانستان کے طول و عرض سے یہاں جمع ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔‘ یہاں ایک ہزار کا عدد آنا چاہیے تھا۔

تیسرا یہ کہ بے شک میڈیا کو کوریج سے باہر رکھا جاتا، مگر ان ایک ہزار علما کے اس اجتماع کی ویڈیو بنالی جاتی، جو بعد میں ریلیز کردی جاتی۔ اس سے تمام شکوک دور ہوجاتے اور پتہ چل جاتا کہ افغانستان کے طول وعرض سے تمام اہم، نمایاں اور بڑے علما کرام، مفتیان عظام شریک ہوئے ہیں۔ ویڈیو سے بڑا ثبوت اور کیا ہوتا ہے؟ افغان طالبان نے میڈیا کے حوالے سے کئی چیزیں سیکھ لی ہیں۔ اب وہ حکومت سازی اور اعلانات کے حوالے سے کیمرے، ویڈیوز وغیرہ کے مخالف بھی نہیں۔ انہیں آئندہ ایسے اہم اور بڑے اعلانات ویڈیوز پر ریکارڈ کرکے افغان میڈیا اور سوشل میڈیا پر ریلیز کرنے چاہییں۔

فتوے کے بعد کیا کرنا چاہیے؟

اکا دکا اعتراض یا تحفظات کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب تک جو ہوا، وہ مثبت اور دل خوش کن ہے۔ اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ اگرچہ زیادہ بہتر ہوتا کہ یہ فتویٰ امیر ملا ہبت اللہ کی طرف سے آجاتا لیکن ٹھیک ہے علما کی ایک بڑی تعداد نے پورے ملک سے اکٹھے ہوکر چیف جسٹس ملا عبدالحکیم حقانی اور وزیراعظم سمیت کئی کابینہ وزرا کی موجودگی میں یہ اعلامیہ یا فتویٰ تحریر کیا۔ پھر اسے وزیر خارجہ نے باقاعدہ طور پر سب کے سامنے بیان کرکے ایک طرح سے آفیشل مہر ثبت کردی۔ اس سب کی اہمیت ہے اور اب افغان حکومت پر ایک بڑی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوگئی ہے۔

اگلا مرحلہ اب یہ ہونا چاہیے کہ اس فتوے پر عمل بھی کیا جائے۔ سختی سے اس کی پابندی کرائی جائے۔ افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروہوں کو نہ صرف روکا جائے بلکہ کسی بھی اچانک قسم کے پریشان کن واقعے سے بچنے کے لیے پاک افغان سرحد کے قریب مقیم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجووں کو سرحد سے تین چار سو کلومیٹر دور منتقل کر دیا جائے۔ یہ تجویز پہلے بھی زیرغور رہی ہے اور شائد کچھ گھرانوں کو شفٹ بھی کیا گیا۔

 فتویٰ جاری کرنا صرف اہم نہیں اس پر عملدرآمد بھی نہایت ضروری ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین خوشگوار تعلقات اور تجارت، معیشت وغیرہ کا انحصار صرف اسی ایک نکتہ پر ہے۔ کیا افغانستان ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروپوں کی حمایت سے دستبردار ہو کر انہیں مکمل طور پر روک دیتا ہے یا صرف زبانی دعوے ہی کئے جاتے رہیں گے؟ اس کا جواب ہی مستقبل کے پاک افغان تعلق کو طے کرے گا۔

 پاکستانی حکومت، ادارے اور فورسز اور عوام اس نکتہ پر متفق ہیں، سب ایک ہی پیج پر ہیں۔ یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ افغانستان کے سامنے رکھی جا چکی ہے کہ وہ پاکستان کو قبول کریں یا ٹی ٹی پی کو؟ ان دونوں میں سے کسی ایک ہی سے اب تعلق رکھا جا سکتا ہے۔ اب انتخاب کرنا ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ افغانستان کو ٹی ٹی پی سے فاصلہ کرنا چاہیے، اسے روکنا چاہیے۔ ماضی میں ایک غلطی ان سے ہوئی جس کے نتیجے میں افغان حکومت ختم ہوئی، بیس سال تک انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ مشکلات پاکستان کی مدد ہی سے ختم ہو پائیں۔

  اب افغان طالبان کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ خوشگوارپڑوسیوں والے تعلقات رکھے۔ افغانستان اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی سفارتی، معاشی، اقتصادی پالیسی بنائے، جس مرضی تجارتی روٹ کو ترقی دے۔ پاکستان کو کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمارا مسئلہ صرف یہ ہے کہ افغانستان سے پاکستان پر دہشتگرد حملے نہ ہوں۔ بس یہی ایک مسئلہ حل ہوجائے تو پھر پاک افغان تعلقات کا بحران فوری حل ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب، اس کی کنجی افغان طالبان کے ہاتھ میں ہے کیونکہ انہوں نے ہی فیصلہ کرنا اور اس پر عملدرآمد کرنا ہے۔

 اللہ کرے کہ افغان علما کے اس اعلامیہ یا فتوے سے خیر برآمد ہو۔ پاک افغان سرحد پر دہشتگردی ختم ہو۔ خطے میں سکون ہو اوردونوں ممالک میں خوشحالی آئے، آمین۔

دو جملوں میں اگر اس پیش رفت کا نچوڑ نکالا جائے تو وہ یہ بنے گا، ” اچھا اقدام ہے، خیر مقدم کرنا چاہیے، مگر اب اس فتوے پر پوری قوت کے ساتھ عملدرآمد کرانا ہی اصل چیلنج ہے۔ اس پر عمل کیا جائے تو مسئلے کا پرامن، حقیقی حل نکل آئے گا۔ “

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سے باہر دہشتگردانہ سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے سے متعلق افغان علما کے اعلامیے کا مولانا طاہر اشرفی کی جانب سے خیر مقدم
  • افغانستان سے باہر عسکری سرگرمیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی: امیر متقی
  • افغان علما کا فتویٰ: ایک خوشگوار اور اہم پیشرفت
  • افغان علما اور طالبان حکومت کا بیرون ملک کارروائی کرنے والوں کو سخت پیغام، مضمحل فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا
  • افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو، افغان علما کا دوٹوک مطالبہ
  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، فغان علما کا اعلان
  • افغان علماء، مشائخ کا مشترکہ اعلامیہ، بیرون ملک فوجی سرگرمیاں ممنوع قرار
  • افغانستان: پنج شیر میں این آر ایف کا بڑا آپریشن، طالبان کے 17 جنگجو ہلاک
  • فرقہ واریت کا خاتمہ ہونا چاہیے، مگر کچھ علماء آج بھی تفریق کی بات کرتے ہیں، وزیراعظم