UrduPoint:
2025-11-03@08:15:57 GMT

پاکستان میں توہین مذہب کے جعلی کیسز کا سلسلہ بدستور جاری

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

پاکستان میں توہین مذہب کے جعلی کیسز کا سلسلہ بدستور جاری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 جنوری 2025ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے کچھ دن پہلے حکومت پر اس وجہ سے برہمی کا اظہار کیا کہ وہ توہین مذہب کے جعلی مقدمات اور الزامات جیسے انتہائی سنگین معاملے پر ایک تحقیقاتی کمیشن بنانے پر ابھی تک ناکام ہے، جس کی وجہ سے سیکڑوں لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔

گزشتہ برس ستمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو توہین مذہب کے جعلی مقدمات میں پھنسا کر بلیک میل کرنے کے معاملے پر عدالتی کارروائی شروع کی تھی۔

پٹیشنر کے وکیل عثمان وڑائچ نے کیس داخل کرتے ہوئے سپیشل برانچ کی ایک رپورٹ کا بھی حوالہ دیا تھا جس کے مطابق ایک 'آرگنائزڈ گینگ‘ بلیک میل کرنے کے لیے نوجوانوں پرجعلی بنائی گئی شہادتوں کے ذریعے جھوٹے بلاسفیمی کے کیس بنا رہا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان: آن لائن توہین مذہب کے بڑھتے واقعات اور خود ساختہ ’چوکس گروپ‘

پاکستان میں توہین مذہب کے ملزم کی ہلاکت میں ملوث پولیس اہلکار معطل

ہائیکورٹ نے حکومت اور ایف آئی اے سے اس سلسے میں جواب طلب کیا تھا اور اس معاملے کی باقاعدہ اعلیٰ سطحی تحقیقات کا کہا تھا۔

لیکن حکومت اور تحقیقاتی ایجنسی دونوں ہی عدالت میں کوئی تسلی بخش جواب داخل کرانے میں ناکام رہے۔ بلاسیفی کے جعلی کیسز کا کیا معاملہ ہے؟

تفصیلات کے مطابق، ملک بھر میں 400 سے زیادہ افراد، جن میں زیادہ تر نوجوان ہیں، ایک ایسے گروہ کے ہاتھوں جھوٹے توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنس چکے ہیں جو خود کو سماجی میڈیا پر گستاخانہ مواد کی نگرانی کرنے والا ایک خود ساختہ 'نگران‘ گروہ ظاہر کرتا ہے۔

بعض متاثرین کے مطابق یہ گروپ لوگوں کو خود گرفتار بھی کرتا ہے، ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور بعد میں پیسے نہ ملنے کی صورت میں انہیں ایف آئی اے کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو نے اس معاملے پر ملکی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے میں کام کرنے والے بعض افسران سے بات کی۔ اس ایجنسی کے ایک ڈائریکٹر نے ناظ ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ''یہ کام خود ساختہ نگرانی سے شروع ہوا، اور ابتدا میں شاید کچھ ایسے لوگوں کو رپورٹ کیا گیا ہو جنہوں نے ایسا مواد تو شیئر نہیں کیا کہ جس کی بنیاد پر سزائے موت دی جا سکے، لیکن کچھ قابل اعتراض مواد شیئر کیا ہو۔

لیکن وقت کے ساتھ مالی فائدے کا عنصر نظر آنے کے بعد اس گروہ نے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور خود لوگوں کو پھنسانا شروع کر دیا ہے۔‘‘ سپیشل برانچ کی رپورٹ کیا ہے؟

جنوری 2024 میں اڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس (سپیشل برانچ) کی سربراہی میں ایک رپورٹ تیار کی گئی جس میں ایسے گینگ کی موجودگی کا بتایا گیا جو لوگوں کو بلیک میل کر کے رقم بٹورنے کے لیے ان کو بلاسفیمی کے کیسز میں پھنسا رہا ہے اور ان کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق، ''ایک منظم گروہ سوشل میڈیا پر واٹس ایپ اور فیس بک گروپس کے ذریعے نوجوانوں کو پھنسانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ حساس اور متنازعہ مواد شیئر کرتا ہے اور ناتجربہ کار یا غیر محتاط نوجوانوں کو غیر ذمہ دارانہ تبصرے کرنے پر اکساتا ہے۔ بعد میں ان تبصروں کو ذاتی طور پر حاصل کر کے محفوظ کیا جاتا ہے اورایف آئی کے بعض عناصر کی ملی بھگت سے ایف آئی اے میں مقدمات درج کرائے جاتے ہیں۔

‘‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ''یہ گروہ مذاکرات کے لیے ایک لڑکی کے ذریعے رابطہ کرتا ہے، اور عدم معاہدے کی صورت میں کیس کو آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ گروہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں گستاخی کے خلاف پمفلٹ تقسیم کرنے اور سیمینار منعقد کرنے میں بھی سرگرم ہے، اور لوگوں کو پھنسانے کے لیے منظم انداز میں کام کر رہا ہے۔‘‘

متاثرین کے ورثا کیا کہتے ہیں؟

ڈی ڈبلیو نے کم از کم چھ ایسے افراد کے ورثا سے بات کی جو اس گروہ کی کارروائیوں کا نشانہ بنے ہیں۔

ان ورثا نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخوست کی اور کہا کہ معاشرے میں لوگ صرف الزام کو دیکھتے ہیں اور تحقیق پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔

ایسے ہی ایک مقدمے کا نشانہ بننے والے ایک نوجوان کے والد کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو سوشل میڈیا کے ذریعے پھنسایا گیا ہے اور اسے اغوا کرنے کے بعد اغوا کرنے والوں نے خود اس کے فون سے قابل اعتراض مواد شیئر کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد ان سے ایک کروڑ روپے کا مطالبہ کیا گیا جس کے ادا نہ کرنے پر ان کے بیٹے پر کیس بنا دیا گیا۔

جب کہ ایسے ہی ایک اور نوجوان کی والدہ کا کہنا تھا، ’’میرے پاس تو صرف تین لاکھ روپے تھے اور وہ میں نے انہیں دے دیے لیکن اتنے پیسوں میں وہ نہیں چھوڑتے۔ بس اتنی امید ہے کہ شاید اس پر تشدد میں کچھ کمی کر دیں۔‘‘

اسلام آباد کی ایک عدالت میں ایسے ہی ایک مقدمے کا سامنا کرنے والے ایک نوجوان کی والدہ کے مطابق، ''ہمارے بچوں کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہیں اور عدالتیں مانتی بھی ہیں لیکن ضمانت دینے سے گریزاں ہیں۔

‘‘ وکلاہ کا کیا کہنا ہے؟

پھنسائے گئے لوگوں کے ایک وکیل ھادی علی چٹھہ کے مطابق عدالتوں میں پیش کی جانے والی زیادہ تر شہادتیں جعلی ہو تی ہیں: ''اگر قانون کے مطابق پیش کی گئی شہادتوں کا ڈیجیٹل فرانزک کروایا جائے تو یہ آسانی سے ثابت ہو سکتا ہے، لیکن ایف آئی اے نے فرانزک نہیں کروایا اور یہ بات اب ہائیکورٹ اور اور دوسری کورٹس بھی مانتی ہیں لیکن بے گناہ لوگوں کو ضمانت دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

‘‘

ھادی علی نے یہ بھی بتایا کہ پانچ ایسے لوگ جن پر بلاسفیمی کے کیسز بنائے گئے تھے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ان میں سے تین کی اموات اڈیالہ جیل میں اور دو کی لاہور جیل میں ہوئی ہیں اور اموات کی وجہ بے تحاشہ تشدد بنی۔

ان کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کا الزام ہی بہت خطرناک ہے،پاکستان میں لوگ تحقیق نہیں کرتے بس یقین کر لیا جاتا ہے اس لیے جیل میں قید نوجوان محفوظ تصور نہیں کیے جا سکتے۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے کا باقاعدہ مؤقف جاننے کے لیے متعدد مرتبہ سپوکس پرسن سے رابطہ کرنے کی کو شش کی گئی لیکن ان کی طرف نہ تو کسی کال کا جواب دیا گیا اور نہ ہی لکھے ہوئے میسجز کا کوئی جواب موصول ہوا۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے توہین مذہب کے ایف آئی اے کے مطابق لوگوں کو کے ذریعے کرتا ہے جاتا ہے کے جعلی ہیں اور کیا کہ ہے اور کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

1947 میں گلگت کے لوگوں نے خود آزادی لیکر پاکستان کیساتھ الحاق کیا، صدر مملکت

گلگت بلتستان (جی بی) کے 78ویں یوم آزادی پر تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے، جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے پریڈ کا معائنہ کیا۔

صدر آصف زرداری کو گورنر گلگت بلتستان نے جشن آزادی کی تقریب میں روایتی ٹوپی پہنائی، صدر تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے ہیں۔

صدر مملکت کی تقریب میں آمد پر بگل بجایا گیا، صدرمملکت کا گورنر اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے استقبال کیا۔

صدر آصف علی زرداری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1947 میں گلگت بلتستان کے لوگوں نے خود آزادی لیکر پاکستان کیساتھ الحاق کیا، حالاں کہ اس جنگ میں آپ کے ایک ہزار 700 جوان شہید اور 30 ہزار زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں آپ سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے مذہب کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ شمولیت اختیار کی، آج میرا دل آپ کا پیار دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے، یہ میرا گھر ہے، اور آپ سب میرے پڑوسی ہیں

آصف علی زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کے پہلے دور میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایف سی آر کو ختم کرکے بادشاہت کا خاتمہ کیا، اور سول انتظامیہ کا نظام دیا، شہید بینظیر بھٹو نے یہاں سول حکومت کا ڈھانچہ بنایا، جب کہ 2008 میں بننے والی ہماری حکومت نے آپ کو قانون ساز اسمبلی کا تحفہ دیا۔

صدر نے کہا کہ گلگت بلتستان میں بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، یہاں کے پانی سے بجلی بنائی جاسکتی ہے، اور جس طرح کے جہاز میں یہاں آج میں آیا ہوں، وہ زیادہ مہنگے نہیں، اگر یہاں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے گلگت بلتستان کی اپنی ایئرلائن بن جائے تو کیا ہرج ہے؟

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کے بے پناہ مواقع ہیں، جن کے لیے کام کیا جانا چاہئے، یہاں کے پہاڑ ہمارا سرمایہ ہیں، یہ کوئی دیوار نہیں ہے۔

صدر زرداری نے کہا کہ بھارت میں آج مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، اسی لئے آج احساس ہوتا ہے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال نے ہمارے لیے جو کام کیا، اس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

صدر زرداری نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

تقریب میں آمد پر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے صدر مملکت کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل وقت کی ضرورت ہے، 72 ہزار مربع میل کا گلگت بلتستان کا علاقہ ڈوگروں سے بغیر کسی بیرونی مدد کے آزاد کروایا، اور کلمے کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کو شہدا کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے، جس کے سپوتوں نے پاک فورسز میں ملک کے لیے خدمات انجام دیتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی ہیں، گلگت بلتستان دفاعی اہمیت کا حامل ہونے کے علاوہ قدرتی وسائل کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے، تاہم یہاں کے لوگوں کو مختلف چینلجز کا سامنا ہے۔

انہوں نے صدر زرداری کی جانب سے 2009 میں علاقے کو خودمختاری دینے کے فیصلے کو یاد کیا اور کہا کہ گلگت بلتستان کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے سے یہاں کے عوام کا دیرینہ خواب پورا ہوگا، اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کی سازشیں بھی خاک میں مل جائیں گی۔

قبل ازیں سرکاری ’پی ٹی وی نیوز‘ کے مطابق وزیرِاعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے یکم نومبر یومِ آزادی گلگت بلتستان کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں گلگت بلتستان کے عوام کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یکم نومبر 1947 کو ہمارے آباؤ اجداد نے بغیر کسی بیرونی امداد کے، دفاعی اور جغرافیائی اہمیت کے حامل اس خطے کو ڈوگروں سے آزاد کرایا اور کلمے کی بنیاد پر وجود میں آنے والے ملک پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔

انہوں نے کہا کہ ڈوگروں سے آزادی حاصل کرنا آسان نہیں تھا، مگر ایک قوم بن کر اتحاد و اتفاق اور غیرتِ ایمانی کے جذبے سے سرشار ہوکر ہمارے بزرگوں نے دشمن کو اس خطے سے بھاگنے پر مجبور کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہمیں بھی اسی جذبے کے ساتھ اپنے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔

وزیرِاعلیٰ حاجی گلبر خان نے کہا کہ آج گلگت بلتستان کو تعمیر و ترقی کے جس مرحلے سے گزرنا ہے، وہ آزادی کے وقت درپیش چیلنجز سے کم نہیں، ہمیں اپنے آباؤ اجداد کے خواب کو عملی تعبیر دینے کے لیے زیادہ اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، تاکہ ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور معاشی طور پر خودمختار گلگت بلتستان کی بنیاد رکھ سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے قلیل مدت میں آزادی کے حقیقی معنوں کے مطابق پسماندہ علاقوں کی ترقی، محروم طبقے کی فلاح اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر خصوصی توجہ دی ہے۔

وزیرِاعلیٰ نے کہا کہ زندہ قومیں اپنے شہداء اور غازیوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں، آج کے اس تاریخی دن پر ہم اپنے شہدا اور غازیوں کو سلام پیش کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ ان کی قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جائیں گی۔

متعلقہ مضامین

  • راولپنڈی میں بدلتے موسم کے باوجود ڈینگی کے وار کا سلسلہ جاری
  • راولپنڈی میں بدلتے موسم کے باوجود ڈینگی کے وار کا سلسلہ جاری 
  • روس میں فیکٹری ملازم کو تمام ملازمین کی تنخواہیں غلطی سے وصول، واپس کرنے سے انکار
  • بیرون ممالک کا ایجنڈا ہمارے خلاف کام کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان
  • افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری، اب تک کتنے پناہ گزین واپس جا چکے؟
  • 1947 میں گلگت کے لوگوں نے خود آزادی لیکر پاکستان کیساتھ الحاق کیا، صدر مملکت
  • ہماری کوشش ہے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے کا کردار ادا کیا جائے، محمود مولوی
  • پنجاب بدستور سموگ کی لپیٹ میں، گوجرانوالہ آلودہ شہروں میں پہلے نمبر پر آگیا
  • پشاور: پولیس وردی میں ڈکیتیاں کرنے والے افغان 4 شہری ہلاک
  • توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ