اسلام آباد:

قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 منظور کر لیا تاہم پاکستان تحریک انصاف نے بل کی مخالفت کی۔

وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس ہوا جس میں حکومت کے مجوزہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 کا ایجنڈا زیرِ غور رہا۔

اجلاس میں وزیر مملکت شزہ فاطمہ نے کہا کہ بل میں کچھ ترامیم لائی گئی ہیں، ترمیم شدہ بل تمام ارکان کو فراہم کر دیا گیا ہے۔

کمیٹی ممبر عمر ایوب نے کہا کہ شارک مچھلیوں نے کاٹ کاٹ کر انٹرنیٹ کیبل کا ستیاناس کر دیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کا جب جلسہ ہوتا ہے تو انٹرنیٹ کی اسپیڈ سست کر دی جاتی ہے لہٰذا پی ٹی آئی اس ڈیجیٹل نیشن بل کی مخالفت کرتی ہے۔

کمیٹی ممبر عمیر نیازی نے کہا کہ ملک کی ڈیجیٹل اکانومی تباہی کے دہانے پر ہے، پاکستان میں ٹولز ہی دستیاب نہیں ہیں، اتنی جلد بازی نہ کریں اور تحفظات ہمارے دور کریں۔ کمیٹی ممبر بیرسٹر گوہر نے سوال اٹھایا کہ آخر ڈیجیٹل کمیشن بنانے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے؟

وزیر مملکت شزہ فاطمہ نے بتایا کہ یہ ڈیٹا پول ایک جگہ اکٹھا نہیں ہو رہا ہے، یہ غلط تاثر دیا جا رہا کہ ڈیٹا ایک جگہ جمع ہوگا بلکہ ادارے ڈیجیٹلائز ہو رہے ہیں، ڈیجیٹل شناخت سے بہت ساری چیزیں آسانی سے دستیاب ہو جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ماسٹر پلان کا مطلب ڈیجیٹل ماسٹر پلان ہے، اس کے تحت ادارے ڈیجیٹلائز ہوں گے، ہم ڈیجیٹل سیکیورٹی پر کام کر رہے ہیں اور اس قانون کے بعد ڈیجیٹل شناخت چوری کا تحفظ ہوگا۔ اس وقت سائبر سیکیورٹی کے واقعات بڑھ رہے ہیں لیکن ڈیجیٹل ماسٹر پلان پر عمل درآمد کے بعد فول پروف سائبر سیکیورٹی ہوگی۔

وزیر مملکت نے کہا کہ اس وقت نادرا سمیت کسی ادارے کے پاس سینٹر لائزڈ ڈیٹا نہیں ہے، پاسپورٹ آفس اور ایچ ای سی سمیت ہر جگہ لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہیں۔ ڈیجیٹل پاکستان بل سے ہر کام موبائل سے ہوگا، رشوت ختم ہوگی اور شفافیت بڑھے گی، اس وقت حکومتی ادارے ڈیجیٹلائزیشن میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔

شزہ فاطمہ نے کہا کہ چاہتے ہیں ملک میں ڈیجیٹل مالی ٹرانزیکشنز بڑھیں، پالیسی بنانے کا انحصار ڈیٹا پر ہے یہ بل سرویلنس نہیں عوام کو بااختیار بنائے گا، جب تک گِرے اکانومی رہے گی رشوت ختم نہیں ہوگی۔

پی ٹی آٗئی کے شیر علی ارباب نے کہا کہ اس وقت ملک میں انٹرنیٹ نہیں چل رہا، ہم نے واٹس ایپ استعمال چھوڑ دیا ہے، بغیر ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ کے بل کی منظوری بڑی غلطی ہوگی۔

چیئرمین کمیٹی نے بل پاس کرانے کا عمل شروع کیا تو پی ٹی آئی ارکین عمر ایوب اور بیرسٹر گوہر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بل کو بلڈوز نہ کیا جائے بلکہ ہماری رائے لی جائے۔

کمیٹی ممبر شیر ارباب نے کہا کہ اسلام آباد میں آپ پہلے انٹرنیٹ کی اسپیڈ کو چیک کریں، ایک طرف ڈیجیٹل کی باتیں کر رہے ہیں، دوسری طرف انٹرنیٹ کا حال چیک کریں، جب پیکا آیا تو اس کا نقصان ان کو ہوا جو اسے لائے تھے، بین الاقوامی سطح پر خراب ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ ناقص پالیسی سازی ہے، اربوں روپے کا نقصان انٹرنیٹ کی سست روی اور فائر وال سے ہو رہا ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جمہوری رویے کے ساتھ کمیٹی کو لے کر چلا رہے ہیں، بل کے تحت ڈیجیٹل سوسائٹی اور ڈیجیٹل معیشت کو بڑھانا چاہتے ہیں، بطور کمیٹی چیئرمین ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل کو سب کے سامنے رکھتا ہوں۔

کمیٹی ممبر عمر ایوب نے کہا کہ ہم اس بل کے سیکشن آف لاء کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں، بل کو بلڈوز نہیں ہونے دیں گے، پی ٹی اے کے چیئرمین پہلے سے ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں، نادرا اور پی ٹی اے میں ریٹائرڈ فوجی جرنیل بیٹھے ہیں، آپ کے پروفیشنل کہاں ہیں؟ مجھے خدشہ ہے کہ ڈیٹا کیسے محفوظ رہے گا، اس کا غلط استعمال کیسے روکا جائے گا

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی کو فکس کریں، آپ اس اتھارٹی کے 5 ممبر بنا لیں، ایک چیئرپرسن اور 4 ممبر صوبوں سے لیں، تعلیمی قابلیت بھی بیچلرز سے ختم کرکے ماسٹر کر لیں، ہماری دو چار گزارشات پر وزیر  صاحبہ نظر ثانی کریں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ تمام لوگوں کی باتیں سن لی ہیں اور خواہش ہوگی کہ بل متفقہ طور پر منظور ہو جائے۔ بل منظور کرنے کے حق میں 10 ارکان اور 6 نے مخالفت میں ووٹ دیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل کمیٹی ممبر انٹرنیٹ کی نے کہا کہ رہے ہیں پی ٹی ا

پڑھیں:

افغان طالبان سے بات چیت کا نیا دور، پاکستان نے ثالث کی درخواست منظور کر لی

پاکستان ثالث کی درخواست پر افغان طالبان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامند ہوگیا. مذاکراتی عمل کو جاری رکھ کر امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس کے بعد پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔نجی نیوز کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات استنبول میں ثالثوں کی موجودگی میں ہو رہے ہیں. استبول میں گزشتہ مذاکرات 4 روز جاری رہے۔ تاہم طالبان کے غیر لچکدار رویے کے باعث مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے۔

اس سے قبل پاکستان نے ثالث کی درخواست پر افغان طالبان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرکے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا تھا اور پاکستان وفد نے استنبول میں اپنے قیام کی مدت میں توسیع کردی تھی۔ذرائع کے مطابق افغانستان نے کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو ملک بدر کرنے کی تجویز دی ہے جس پر پاکستان نے ٹی ٹی پی کو افغانستان میں دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ افغان طالبان, کالعدم ٹی ٹی پی کو افغانستان میں دہشت گرد تنظیم اور اس کی کارروائیوں کو غیر شرعی قرار دیں، پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کے خلاف قابلِ تصدیق اور مؤثر کارروائی کرے، ذرائع کے مطابق پاکستان کی تجویز پر افغان طالبان کی مشاورت کا عمل جاری ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے پہلے دور کے بعد عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔ جس کے بعد ترکیہ کے شہر استنبول میں مذاکرات کے 4 ادوار ہوئے تھے۔ تاہم گزشتہ روز وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔وزیر اطلاعات نے بدھ کی صبح سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کہا تھا کہ گزشتہ 4 روز مذاکرات میں افغان طالبان کے وفد نے پاکستان کے معقول و جائز مطالبے (قابلِ اعتبار اور فیصلہ کن کارروائی) سے کئی بار اتفاق کیا، پاکستان کی طرف سے کافی اور ناقابلِ تردید شواہد فراہم کیے گئے جو افغان طالبان اور میزبانوں نے تسلیم کیے۔مگر افسوسناک طور پر افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کروائی۔انہوں نے مزید کہا کہ افغان فریق بنیادی مسئلے سے ہٹتا رہا اور گفتگو کے آغاز کی اصل وجہ سے رخ موڑتا رہا۔کسی ذمہ داری کو قبول کرنے کے بجائے افغان طالبان نے الزام تراشی، توجہ ہٹانے اور بہانے بازی کا سہارا لیا، لہٰذا مذاکرات کسی قابلِ عمل حل تک پہنچنے میں ناکام رہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ کابل کے ساتھ ایک معاہدہ طے ہونے والا تھا۔مگر مذاکرات کے دوران افغان نمائندے کابل سے رابطے کے بعد پیچھے ہٹ گئے۔نجی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ دفاع نے کہا تھا کہ کابل سے ہدایات موصول ہونے کے بعد مذاکرات کار 4 یا 5 بار معاہدے سے اتفاق کرکے پیچھے ہٹ گئے۔انہوں نے کہا کہ جب بھی ہم کسی معاہدے کے قریب پہنچے (خواہ پچھلے 4 دنوں میں یا پچھلے ہفتے) اور مذاکرات کاروں نے کابل کو رپورٹ کیا تو مداخلت ہوئی اور معاہدہ واپس لے لیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے مذاکرات سبوتاژ کیے گئے۔ ہمارے پاس ایک معاہدہ تھا۔ مگر پھر انہوں نے کابل کو فون کیا اور ڈیل سے پیچھے ہٹ گئے۔

متعلقہ مضامین

  • قومی ایئرلائن نے ایف بی آر کے نام پر جمع 28 ارب روپےکا ٹیکس خود استعمال کیا، سیکریٹری نجکاری کمیشن کا انکشاف
  • وزیراعظم سے ممبر قومی اسمبلی میاں خان بگٹی کی ملاقات،حلقے کے امور پر گفتگو
  • افغان طالبان سے بات چیت کا نیا دور، پاکستان نے ثالث کی درخواست منظور کر لی
  • پی ٹی آئی وفد کی فضل الرحمن سے ملاقات: تحریک انصاف، جے یو آئی محمود اچکزئی کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنانے پر متفق
  • پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا محمود اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی بنانے پر اتفاق
  • اگر  خوبرو ’دیئیلا‘ پاکستان میں آ جائے تو؟
  • اسلام آباد:اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے پارلیمنٹ ہاؤس میں سی ڈی اے افسران ملاقات کررہے ہیں
  • یورپی پارلیمانی کمیٹی کے وفد کی پارلیمنٹ ہاؤس آ مد ‘اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات
  • پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ذوالفقار علی کے گھر ڈاکوئوں نے صفایا کر دیا۔
  • فلائٹ میں دیا جانے والا کتنا خطرناک ہوتا ہے؟ کیبن کریو ممبر نے حیران کن انکشافات کردیے