پنجاب میں بلدیاتی الیکشن نہ ہونے پر چیف سیکریٹری اور سیکریٹری بلدیات الیکشن کمیشن میں طلب
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
الیکشن کمیشن نے بلدیاتی الیکشن نہ کرانے پر پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چیف سیکریٹری پنجاب اور سیکریٹری بلدیات کو طلب کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب میں بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کردیا گیا۔
نوٹس کے مطابق الیکشن کمیشن کی طرف سے کئی بار میٹنگز کرنے، خطوط لکھنے اور یاددہانی کے باوجود الیکشن کمیشن کے علم میں ایسا کوئی اقدام نہیں آیا کہ پنجاب حکومت نے اس ضمن میں کوئی اقدام اٹھایا ہوا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اسی لیے اس کیس کو الیکشن کمیشن میں سماعت کے لیے مورخہ 26 فروری 2025ء کو مقرر کردیا گیا ہے، چیف سیکریٹری پنجاب اور سیکریٹری بلدیات پنجاب ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن
پڑھیں:
کے پی حکومت کی بلدیاتی اداروں سے عدم دلچسپی
پی ٹی آئی کی کے پی حکومت کی بلدیاتی اداروں سے عدم دلچسپی اور بلدیاتی منتخب عہدیداروں کو نظرانداز کیے جانے سے تنگ آ کر لوکل کونسلز ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا نے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔
پختون خوا کے بلدیاتی نمایندوں کی ایسوسی ایشن کے مطابق کے پی حکومت اپنے ہر بجٹ میں ترقیاتی فنڈز بلدیاتی اداروں کے لیے مختص ضرور کرتی ہے مگر تین برس سے کے پی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا جس پر ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے کہا کہ صوبائی بجٹ میں قانونی طور پر 20 فی صد حصہ مختص کرنا اور بعد میں کے پی کے منتخب اداروں کو فراہم کرنا لازمی ہے، مگر کے پی حکومت قانون پرکوئی عمل کر رہی ہے نہ صوبے کے بلدیاتی معاملات میں دلچسپی لے رہی ہے اور یہ غیر قانونی سلسلہ تین برس سے جاری ہے جس کی وجہ سے کے پی ادارے صوبائی حکومت کی طرف سے فنڈز فراہم نہ کیے جانے پر سخت پریشان ہیں اور بار بار بلدیاتی اداروں کی بدترین مالی حالت پر توجہ دلانے پر بھی کے پی حکومت توجہ نہیں دے رہی اور مسلسل عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
لوکل کونسلز ایسوسی ایشن کے پی کے مطابق صوبے کے بلدیاتی اداروں سے عدم توجہی پر ایسوسی ایشن مسلسل احتجاج کرتی آ رہی ہے جس پر کے پی حکومت نے عوام کے منتخب بلدیاتی نمایندوں پر بدترین لاٹھی چارج اور شیلنگ بھی کرائی مگر اب مجبور ہو کر لوکل کونسلز ایسوسی ایشن دوبارہ احتجاج اور احتجاجی دھرنے پر مجبورکی جا رہی ہے، اور اگر کے پی حکومت نے اب بھی کے پی کے بلدیاتی اداروں کی حالت زار پر توجہ نہ دی تو ہمیں ایک بار پھر سڑکوں پر آنا پڑے گا کیونکہ تین سالوں سے کے پی کے کی حکومت نے صوبے کے منتخب بلدیاتی اداروں کو ترقیاتی اور غیر ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کیے جس سے بلدیاتی ادارے مالی بحران کا شکار ہیں اور ترقیاتی کام بھی نہیں ہو رہے۔
واضح رہے کہ باقی صوبوں کی طرح 2009 میں جب ملک کے چاروں صوبوں میں جنرل پرویز مشرف کے بہترین ضلعی حکومتوں کے بااختیار نظام کا آئینی تحفظ ختم ہوا تھا تو 2008 میں وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی تو سندھ میں پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور کے پی میں پی پی اور اے این پی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی نے ماضی کی طرح اپنا اتحادی وزیر اعلیٰ منتخب کرایا تھا اور کے پی میں پی پی نے اے این پی کا وزیر اعلیٰ منتخب کرایا تھا اور چاروں حکومتوں نے سب سے پہلے جنرل پرویز مشرف کے بااختیار ضلعی حکومتوں کے بہترین نظام پر وار کرکے وہ ختم کیا تھا اور جنرل پرویز کے 2001 کے بااختیار بلدیاتی نظام کی جگہ جنرل ضیا الحق کا 1979 کا بے اختیار بلدیاتی نظام بحال کرکے اپنی صوبائی اسمبلیوں سے الگ الگ بے اختیار، کمزور اور محکمہ بلدیات کے مکمل ماتحت بلدیاتی نظام کے قوانین منظور کرائے تھے اور کمشنری نظام بحال کرکے بلدیاتی اداروں کو ماضی کی طرح ان کے کنٹرول میں دے دیا تھا۔
2001 میں جنرل پرویز مشرف نے ملک سے کمشنری نظام ختم کرکے ملک میں جو بااختیار ضلعی حکومتوں کا نظام نافذ کیا تھا اس میں ناظمین مالی اور انتظامی طور پر مکمل بااختیار تھے جن کے ماتحت کمشنری نظام کے تمام بڑے افسروں کو کردیا تھا۔ بااختیار ضلعی حکومتوں کا محکمہ بلدیات سے برائے نام تعلق تھا مگر محکمہ بلدیات ضلعی حکومتوں کے معاملات میں مداخلت کر سکتا تھا اور نہ ہی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بااختیار ناظمین کے کاموں میں مداخلت کر سکتے تھے۔
جنرل پرویز نے قومی تعمیر نو کا محکمہ بنا کر ضلعی حکومتوں کی نگرانی اور فنڈز کی فراہمی کا اختیار دیا تھا۔ ملک کی ہر یوسی کو دو لاکھ روپے ترقیاتی کاموں کے لیے اور تنخواہوں کی رقم وفاقی حکومت فراہم کرتی تھی مگر یہ بااختیار ضلعی نظام ارکان اسمبلی اور بیورو کریسی کو سخت ناپسند تھا جسے جنرل مشرف نے آئینی تحفظ دلایا تھا۔
جنرل پرویز نے ملک میں دو بار ضلعی حکومتوں کے انتخابات کرائے تھے جن میں ضلعی ناظمین کے اختیارات دیکھ کر 2005 کے ضلعی حکومتوں کے نظام کے تحت جب دوسرے انتخابات ہوئے تو متعدد ارکان اسمبلی نے اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر ناظمین کے عہدوں کا الیکشن لڑا تھا کیونکہ ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز ملنا بند ہو گئے تھے اور وہ ضلعی حکومتوں کو ملتے تھے جنھوں نے اپنے اضلاع میں زبردست ترقیاتی کام کرائے تھے اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو ضلعی حکومت میں بہترین کارکردگی پر دنیا کے 13 بہترین شہروں میں شامل کیے جانے کا اعزاز حاصل ہوا تھا جو اب سولہ سال بعد دنیا کے ایسے شہروں میں شامل کیا گیا ہے جو دنیا کے بدترین شہروں میں شامل ناقابل رہائش شہر عالمی طور پر قرار پایا ہے جس کی وجہ موجودہ سندھ کا بلدیاتی نظام ہے۔
2013ء میں کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور ملک میں کوئی صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کرانا نہیں چاہتی تھی جس پر سپریم کورٹ کے حکم پر چاروں صوبوں میں پارٹی سطح پر بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے، کے پی میں پی ٹی آئی نے بھی کمزور اور بے اختیار بلدیاتی نظام نافذ کیا تھا جو اب بھی نافذ ہے۔
کے پی حکومتوں میں پی ٹی آئی نے ضلعی حکومتوں جیسا نظام نہیں دیا اور پہلی بار کے پی میں میئروں کا انتخاب برائے راست ہوا جس میں پشاور سمیت جے یو آئی کے زیادہ میئر منتخب ہوگئے تھے جس پر اس وقت کے وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی نے دوسرے مرحلے کی انتخابی مہم خود چلا کر پی ٹی آئی کو کامیابی تو دلائی مگر پی ٹی آئی مخالف زیادہ بلدیاتی عہدیدار منتخب ہو جانے پر بعد میں پی ٹی آئی حکومت نے ان کے اختیارات کم اور فنڈز تک روک رکھے ہیں اور کے پی کے بلدیاتی نمایندوں کو مکمل نظرانداز کر رکھا ہے جس سے کے پی کے بلدیاتی ادارے بے کار اور حکومت کے مکمل محتاج بنے ہوئے ہیں جنھیں 3 سالوں سے ترقیاتی فنڈز بھی نہیں دیا جا رہا جب کہ کے پی کے وزیر اعلیٰ کا بھائی خود ڈیرہ اسمٰعیل خان کا میئر ہے۔ پی ٹی آئی بھی بااختیار بلدیاتی نظام پر یقین نہیں رکھتی اسی لیے صوبے کے منتخب بلدیاتی نمایندے دوبارہ سڑکوں پر احتجاج پر مجبور کیے جا رہے ہیں۔