Jasarat News:
2025-08-06@10:54:09 GMT

زمین زادوں کا آسمانی رشتہ

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

زمین زادوں کا آسمانی رشتہ

1960ء کی دہائی کی بات ہے۔ ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ ایوب خان مہمانوں کو برن ہال اسکول ایبٹ آباد لے گئے۔ ملکہ تو ایوب خان کے ساتھ بچوں سے ہاتھ ملاتی ہوئی آگے بڑھ گئیں لیکن ان کے شوہر بچوں سے باتوں میں لگ گئے۔ پوچھا ’’بڑے ہوکر کیا بنوگے؟‘‘۔ بچوں نے جواب دیا ’’ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، آرمی افیسر وغیرہ وغیرہ‘‘ وہ خاموش ہوگئے۔ لنچ پر انہوں نے ایوب خان سے کہا کہ ’’آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے‘‘۔ معزز مہمان نے اس کے بعد کیا کہا، ایوب خان نے کیا جواب دیا، ان باتوں کو ذرا دیر کے لیے یہیں چھوڑ کر آئیے معاشرے میں استاد کے کردار اور فضائل پر، زمین زادوں کے آسمانی رشتے پر بات کرتے ہیں۔ پہلے ایک شعر:

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں

رسالت مآبؐ کا فرمان ہے ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا‘‘ ایک اور موقع پر عالی مرتبتؐ نے فرمایا ’’تمہارے تین باپ ہیں۔ ایک وہ جو تمہیں اس دنیا میں لایا۔ دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی اور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم دیا۔ ان سب میں افضل وہ ہے جس نے تمہیں علم دیا‘‘۔ سیدنا علیؓ ؓفرمایا کرتے تھے ’’میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھادے، اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور چاہے آزاد کردے‘‘۔

خلیفہ ہارون رشید نے امام مالکؒ سے حدیث پڑھنے کی درخواست کی۔ امام مالک ؒ نے فرمایا: ’’لوگ علم کے پاس آتے ہیں۔ علم لوگوں کے پاس نہیں جاتا۔ تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میرے درس کے حلقے میں آجائو‘‘ ہارون رشید حلقہ درس میں آئے اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ عظیم معلم نے دیکھا تو سختی سے کہا ’’خدا کی تعظیم میں یہ بھی شامل ہے کہ بوڑھے مسلمان اور اہل علم کا احترام کیا جائے‘‘۔ یہ سننا تھا کہ خلیفہ ہارون رشید استاد کے سامنے با ادب کھڑے ہوگئے۔ خلیفہ ہارون رشید کا یہی طرز عمل تھا کہ ان کے دوصاحبزادے جو امام نسائی کے شاگرد تھے۔ ایک بار اس بات پر جھگڑ پڑے کہ استاد کے پائوں میں جوتا کون پہنائے گا۔ تکرار کے بعد یہ طے پایا کہ دونوں ایک ایک جوتا استاد کے پائوں میں پہنانے کا شرف حاصل کریں گے۔ خلیفہ کو واقعے کی خبر ہوئی تو بصد احترام امام نسائی سے دربار میں آنے کی درخواست کی۔ امام تشریف لائے تو خلیفہ نے امام سے پوچھا ’’استاد محترم فی الوقت سب سے زیادہ عزت واحترام کے لائق کون ہے‘‘ خلیفہ کے سوال پر امام چونکے اور محتاط انداز میں جواب دیا ’’خلیفہ وقت ‘‘ہارون رشید مسکرایا اور کہا کہ ’’ہرگز نہیں سب سے زیادہ عزت کا مستحق وہ استاد ہے جس کے جوتے اٹھانے کے لیے خلیفہ کے بیٹے آپس میں جھگڑا کرتے ہیں‘‘۔

امام ابو حنیفہ ؒفرماتے تھے’’میں ہر نماز کے بعد اپنے استاد اور والد محترم کے لیے دعا کرتا ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنے پائوں استاد محترم کے گھر کی طرف دراز نہیں کیے حالانکہ میرے اور ان کے گھر کے درمیان سات گلیاں واقع ہیں‘‘۔ مولانا روم کا ارشاد ہے ’’مجھے آج بھی وہ جگہ اچھی طرح یاد ہے جہان میری اپنے روحانی استاد شمس تبریز سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ استاد کی دائمی جدائی کا غم شدت اختیار کرلیتا ہے تو میں چلے میں بیٹھ کر استاد کے سکھائے ہوئے محبت کے چالیس اصولوں پر غور و خوص شروع کردیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے استاد محترم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو دنیا کے کسی اور کونے میں کسی اور نام سے ایک اور تبریز نے جنم لیا ہوگا کیونکہ شخصیت تو بدل جاتی ہے لیکن روح وہی رہتی ہے‘‘۔

استاد بادشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ بناتا ہے۔ فاتح عالم سکندر اعظم اپنے استاد ارسطو کے ساتھ تھا۔ راستے میں ایک بپھرا ہوا برساتی نالہ آیا۔ یہاں استاد اور شاگرد کے درمیان بحث شروع ہوگئی کہ پہلے نالے کے پار کون اترے گا۔ ارسطو کو بات ماننا پڑی اور پہلے سکندر نے نالہ پار کیا۔ استاد اور شاگرد دونوں نالے کے پار اترے تو ارسطو نے سختی سے سکندر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’کیا تم نے مجھ سے پہلے نالہ پار کرکے میری توہین نہیں کی ہے؟‘‘۔ سکندر نے خم ہوکر انتہائی ادب سے کہا ’’نہیں استاد محترم! نالہ بپھرا ہوا تھا میں اطمینان کرنا چاہتا تھا نالہ پار کرنے کی صورت میں آپ کو نقصان نہ پہنچے کیونکہ ارسطو موجود ہوگا تو ہزاروں سکندر اعظم وجود میں آجائیں گے لیکن سکندر ایک بھی ارسطو پیدا نہیں کرسکتا‘‘۔

استاد ایک چراغ ہے جو راستوں کو روشن کرتا ہے، پھول ہے جو خوشبو پھیلاتا ہے، رہنما ہے جو منزل کی سمت گامزن کرتا ہے۔ معاشرے استاد کی عزت سے مقام پاتے ہیں، ترقی کرتے ہیں۔ اشفاق احمد زاویہ میں لکھتے ہیں کہ روم میں قیام کے دوران ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مجھ پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ میں مصروفیات کی وجہ سے چالان جمع نہ کراسکا تو مجھے کورٹ میں پیش ہونا پڑا۔ کمرہ عدالت میں جج مجھ سے سوال کرتا رہا کہ آپ نے کیوں چالان جمع نہیں کیا۔ مجھے جج کو جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی بس میں یہی کہتا رہا کہ میں یہاں پردیسی ہوں۔ اس پر جج نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کرتے کیا ہیں، میں نے بڑی شرمندگی سے سر جھکا کر جواب دیا کہ جی میں ٹیچر ہوں۔ یہ سننا تھا کہ جج اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور سب کو حکم دیا ’’اے ٹیچر ان دی کورٹ‘‘ سب احترام میں اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوگئے۔ اشفاق احمد کہتے ہیں پھر جج نے انہیں یوں مخاطب کیا جیسے بڑے ہی شرمندہ ہوں۔ اسی شرمندگی میں جج نے کہا ’’جناب آپ استاد ہیں۔ ہم جو آج جج، ڈاکٹر، انجینئر جو کچھ بھی بنے بیٹھے ہیں وہ آپ اسا تذہ ہی کی بدولت ممکن ہو پایا ہے، مجھے بہت افسوس ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کرآپ کو چالان ادا کرنا ہوگا کیونکہ بہر حال آپ سے غلطی ہوئی ہے مگر میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں‘‘۔

علامہ اقبال کے اسکول کے اساتذہ میں مولوی میر حسن بھی شامل تھے جن سے عقیدت اور احترام کا رشتہ اس قدر مضبوط تھا کہ علامہ اقبال کی علمی خدمات کی بنا پر جب ان کو انگریز حکومت کی جانب سے سر کا خطاب دینے کا اعلان ہوا تو علامہ اقبال نے کہا کہ وہ اس اعزاز کو صرف اور صرف اس شرط پر قبول کریں گے اگر ان کے استادِ محترم کو بھی شمس العلماء کے خطاب سے نوازا جائے گا۔ حکومت برطانیہ کی طرف سے کہا گیا کہ خطاب ملنے کے لیے ضروری ہے کہ شخصیت کی کوئی تصنیف ہو۔ علامہ محمد اقبال نے فرمایا میں خود ان کی زندہ تصنیف ہوں۔ علامہ اقبال کا یہ جواب اس قدر پر تاثیر تھا کہ حکومت کو ان کی بات ماننی پڑی۔

اب آتے ہیں کالم کی ابتدا کی جانب۔ ملکہ برطانیہ کے شوہر نے ایبٹ آباد کے اسکول کے بچوں سے پوچھا آپ بڑے ہوکر کیا بنوگے۔ بچوں نے جواب دیا ’’ڈاکٹر، انجینئر، پا ئلٹ۔۔۔‘‘۔ لنچ پر انہوں نے صدر ایوب خان سے کہا ’’آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔ میں نے بیس بچوں سے بات کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ہے اور یہ بہت خطرناک ہے‘‘ اس واقعے کو نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ پاکستان میں آج بھی بچوں کی ترجیحات میں ٹیچر بننا کہیں شامل نہیں۔ کیا بچوں کا یہ فیصلہ غلط ہے؟؟

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: استاد محترم علامہ اقبال ہارون رشید استاد کے جواب دیا ایوب خان بچوں سے کہا کہ سے کہا تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges) پڑھ رہے ہیں وہ بنیادی طور پر مورج ہے‘ فرنچ زبان میں آخری حرف ساقط ہوتا ہے اور جی کی آواز جی ہی نکلتی ہے لہٰذا یہ مورج ہے‘ ٹاؤن میں فرنچ زبان بولی جاتی ہے اور یہ جنیوا سے صرف 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے‘ لیک جنیوا سوئٹزر لینڈ کی سب سے بڑی جھیل ہے۔

 آپ اگر اس کے گرد چکر لگائیں تو آپ کو ڈیڑھ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا‘ اس کی ایک سائیڈ پر جنیوا اور دوسری سائیڈ پر مونترو (Montreux) کا ٹاؤن ہے جب کہ دائیں بائیں جھیل کی ایک سائیڈ پر سوئٹزر لینڈ کے خوب صورت اور مہنگے ٹاؤنز ہیں‘ جھیل کی دوسری سائیڈ پر فرانسیسی قصبے ہیں‘ ایویان (Evian) نام کا قصبہ بھی ان میں شامل ہے۔

 اس کا منرل واٹر پوری دنیا میں مشہور ہے شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے ایویان منرل واٹر کا نام ایویان قصبے کے نام پر ہے‘ فرانسیسی قصبوں کے پیچھے ماؤنٹ بلینک کے پہاڑ ہیں‘ یہ یورپ کا بلند ترین پہاڑی سلسلہ ہے جس پر گرمیوں میں بھی برف جمی رہتی ہے‘ پہاڑ کے دامن میں شامنئی (Chamonix) کا قصبہ ہے‘ وہاں سے ماؤنٹ بلینک کے لیے دو کیبل کار چلتی ہیں۔

 ایک کیبل کار پہاڑ کی بلندی پر گلیشیئر پر لے جاتی ہے‘ وہاں گرمیوں میں بھی درجہ حرارت صفر سے کم ہوتا ہے جب کہ سردیوں میں وہاں شدید سردی ہوتی ہے‘ مجھے ایک بار جنوری میں منفی 22 سینٹی گریڈ پر ماؤنٹ بلینک پر جانے کا اتفاق ہوا‘ میں آج تک اس ٹھنڈ کو نہیں بھلا سکا جب کہ دوسری کیبل کار وادی کی دوسری سائیڈ پر ہے‘ اس کے انتہائی بلند مقام سے پوری وادی اور ماؤنٹ بلینک دونوں نظر آتے ہیں‘ ہم 21 جولائی کو شامنئی گئے لیکن وقت کم ہونے کی وجہ سے پہاڑ پر نہیں جا سکے‘ ایویان گاؤں ماؤنٹ بلینک کے قدموں میں ہے اور اس کے منرل واٹر کا سورس گلیشیئر ہیں۔

 ایویان کمپنی نے ٹاؤن میں واٹر میوزیم بنا رکھا ہے جس میں ان کا دعویٰ ہے ہمارا منرل واٹر چار سال میں تیار ہو تا ہے‘ آج پہاڑ پر جو برف گرے گی وہ چار سال بعد پانی بن کر منہ تک پہنچے گی‘ فرنچ سائیڈ پر انیسی (Annecy) کا قصبہ بھی ہے‘ یہ خوب صورت پرانا قصبہ ہے جس کے درمیان سے نہریں گزرتی ہیں اور ان پر انتہائی خوب صورت پل ہیں‘ یہ یورپ کی خوب صورت ترین جھیل ہے اور یونیسکو کے ورلڈ ہیرٹیج میں شامل ہے‘ یہ سب ٹاؤنز دیکھنے لائق ہیں لیکن ہم مورج میں ٹھہرے ہوئے تھے۔

مورج جنیوا سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہے‘ اس کی سائیڈ جھیل کی طرف کھلتی ہے جب کہ دوسری پہاڑ کی اترائیوں پر واقع ہے اور اس پر دور دور تک انگور کے باغ ہیں‘ مورج امراء کا علاقہ ہونے کی وجہ سے بہت مہنگا ہے‘ ہم جھیل کے کنارے چار بیڈ رومز کے فلیٹ میں مقیم رہے‘ فلیٹ بھارت کے ایک سکھ تاجر کی ملکیت تھا‘ ان کا نامن موہن سنگھ ہے لیکن یہ سردار مکھنی کے نام سے مشہور ہیں‘ انٹیریئر ڈیکوریشن کا کام کرتے ہیں‘ مہنگا فرنیچر بھارت اور سری لنکا میں بیچتے ہیں‘ خود مورج سے دس کلو میٹر دور رول (Rulle) کے گاؤں میں رہتے ہیں۔

 انگور کے وسیع باغ اور وائینری کے مالک ہیں‘ مکھنی کے نام سے وائین بناتے ہیں اور دوستوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ خوش حال شخص اور بلا کے شراب نوش ہیں‘دوسرے لوگوں کو شراب نوشی کی باقاعدہ ترغیب بھی دیتے رہتے ہیں‘ ان کے بقول دنیا میں شراب سے بڑ ی کوئی نعمت نہیں‘ مجھے ان کے فلیٹ میں رہنے اور ان کا گھر دیکھنے کا موقع ملا‘ یہ دونوں بے انتہا خوب صورت تھے‘ فلیٹ کی بالکونی سے پوری جھیل جنیوا نظر آتی تھی‘ ساتھ ہی ٹریک تھا جو جھیل کے ساتھ ساتھ 150 کلومیٹر تک چلا جاتا تھا‘ لوگ سارا دن اس پر دوڑ لگاتے رہتے تھے یا سائیکل چلاتے تھے۔

 جھیل میں دن بھر موٹر بوٹس تیرتی رہتی تھیں‘ وہ جگہ بہت پرسکون اور روحانی تھی‘ میرا زیادہ تر وقت بالکونی اور جھیل کے کنارے گزرتا رہا‘ قصبے کا بازار دس منٹ کی واک پر تھا‘ اس میں گنی چنی کافی شاپس‘ بیکریاں اور ریستوران تھے اور وہ بھی بہت جلد بند ہو جاتے تھے‘ جھیل دن میں چارمرتبہ رنگ بدلتی تھی‘ صبح کے وقت اس کا پانی سرخ ہوتا تھا‘ دوپہر کے وقت یہ دودھیا ہو جاتی تھی‘ شام کے وقت سرمئی ہو جاتی تھی جب کہ غروب آفتاب کے وقت اس میں آگ سی لگ جاتی تھی‘ میں نے ایک شام جھیل میں ایک عجیب منظر دیکھا‘ ہر طرف سرمئی کہرا بکھرا ہوا تھا لیکن جھیل کے درمیان میں برف کے مختلف سائز کے بلاک تیر رہے تھے۔

 میں حیران ہوگیا‘ غور کیا تو پتا چلا جھیل میں دودھیا رنگ کی کشتیاں ہیں‘ سورج نے ڈوبنے سے قبل بادلوں کی چادر سرکا کر جھیل میں تانک جھانک شروع کر دی تھی‘ سورج کی روشنی جھیل میں تیرتی سفید موٹر بوٹس پر پڑی تو اس نے انھیں سفید برف کے ٹکڑے بنا دیا‘ وہ منظر بہت قیمتی تھا‘ صبح کے وقت بے شمار لوگ اپنے بچوں کے ساتھ جھیل کے کنارے پہنچ جاتے تھے‘ بچے سائیکل چلاتے تھے‘ نوجوان جاگنگ کرتے تھے جب کہ خواتین اور بزرگ واک کرتے تھے‘ میں واک کرتا ہوا آخر تک چلا جاتا تھا‘ کافی شاپ سے کافی لیتا تھا اور جھیل کے کنارے بیٹھ جاتا تھا‘ سوئٹزر لینڈ میں’’ لاتے میکاتو‘‘ نام کی انتہائی لذیذ کافی ملتی ہے‘ کافی کا یہ اسٹائل صرف سوئٹزر لینڈ میں ملتا ہے‘ اس میں دو قسم کا دودھ استعمال ہوتا ہے۔

 نیچے دودھ کی تہہ ہوتی ہے‘ اس کے اوپر کافی اور آخر میں جھاگ کی بھاری تہہ‘ یہ بہت مزے دار ہوتی ہے اور اس کا اثر دیر تک رہتا ہے‘ میں کافی چھوڑ چکا ہوں لیکن اس کے باوجود دن میں دو بار اسے انجوائے کرتا تھا‘ کافی لاتے میکاتو‘ جھیل کا کنارہ اور شام کا وقت یہ تمام عناصر مل کر جنت بن جاتے تھے‘ میں ایک دن سردار صاحب کے گھر بھی گیا‘ ان کا گاؤں پہاڑ کی اترائیوں پر انگوروں کے باغات کے درمیان تھا‘ ان کے ٹیرس سے جھیل جنیوا بھی نظر آتی تھی اور ماؤنٹ بلینک بھی‘ دنیا کا سب سے مہنگا اسکول بھی سردار جی کے ٹاؤن میں ہے‘ یہ انسٹی ٹیوٹ آف لاروزے کہلاتا ہے‘ 1833میں چودھویں صدی کے تعلیمی ادارے کا نام بدل کر بنایا گیا‘ بورڈنگ اسکول ہے جس کی کم از کم سالانہ فیس چار کروڑ روپے ہے‘ یہ اسکول گرمیوں میں رول میں چلتا ہے اور سردیوں میں جی اسٹاڈ میں شفٹ ہو جاتا ہے۔

 اسکول کا کیمپس سردار صاحب کے ٹیرس سے نظر آتا تھا‘ سردار صاحب دل چسپ انسان ہیں‘ یہ شہزاد صاحب کی دریافت ہیں‘ شہزاد صاحب جنیوا کے ساتھ فرنے والٹیئر میں راجپوت کے نام سے شان دار ریستوران چلا رہے ہیں‘ جنیوا کے نوے فیصد لوگ راجپوت سے واقف ہیں‘ میں چھ برس قبل شہزاد صاحب سے حادثاتی طور پر متعارف ہوا اور ہم دوست بن گئے‘ سردار صاحب اور ان کی بیگم رعنا ان کے دوست ہیں‘ ان کے توسط سے ان لوگوں سے ملاقات ہوئی اور میں دیر تک سردار فیملی کی کمپنی انجوائے کرتا رہا‘ ہم ایک دن کے لیے انیسی اور شامنئی چلے گئے‘ یہ دونوں ٹاؤنز خوب صورت اور قابل دید ہیں‘ انیسی کی پرانی پتھریلی گلیوں میں ہزار سال کی تاریخ رکی ہوئی تھی‘ شہر کے قدیم حصے میں نہریں ہیں اور ان میں کشتیاں چلتی ہیں‘ فرنچ لوگ اسے منی وینس کہتے ہیں‘ اس کا کورڈ بازار اور قدیم کھانے دونوں ناقابل فراموش ہیں‘ انیسی کا چرچ بلندی پر ہے اور وہاں سے پورا شہر دکھائی دیتا ہے‘ ہم منگل کے دن وہاں گئے تھے۔

 اس دن چرچ بند ہوتا ہے لہٰذا ہم چرچ نہیں دیکھ سکے‘ جھیل میں فیری چلتی ہے‘ یہ گھنٹہ بھر میں پوری جھیل دکھاتی ہے جب کہ نہروں میں چھ چھ مسافروں کی چھوٹی کشتیاں چلتی ہیں‘ شہر کی فضا میں رومان کے ساتھ ساتھ کھلا پن تھا‘ ہم سہ پہر تک اسے انجوائے کرتے رہے‘ ہماری اگلی منزل شامنئی تھا‘ انیسی سے شامنئی 40 منٹ کی ڈرائیو پر ہے‘ راستہ بہت خوب صورت ہے‘ دونوں طرف سرسبز پہاڑ ہیں‘ ہم شامنئی پہنچے تو چیئرلفٹ بند ہو چکی تھی‘ آخری لفٹ پانچ بجے واپس آتی ہے لہٰذا ساڑھے تین بجے لفٹس بند کر دی جاتی ہیں‘ ہم بدقسمتی سے لفٹ نہیں لے سکے‘ اس دن ماؤنٹ بلینک کا درجہ حرارت صفر ڈگری تھا اور لوگ بھاری جیکٹس پہن کر اوپر جا رہے تھے۔

 ہم وہاں سے ٹاؤن میں چلے گئے‘ ٹاؤن بہت خوب صورت اور صاف ستھرا ہے‘ چاروں سائیڈز پر سبز پہاڑ ہیں اور پہاڑوں کے درمیان فیری ٹیل جیسا ٹاؤن ہے‘ بے شمار ہوٹل‘ ریستوران‘ کافی شاپس اور بارز ہیں‘ درمیان میں شوریدہ سردریا بہتا ہے‘ لوگ پلوں پرکھڑے ہو کر تصویریں بناتے ہیں‘ شامنئی کا میکڈونلڈ بالکل منفرد ہے‘ اس کا انٹیریئر لکڑی کا ہے اور قدیم محسوس ہوتا ہے‘ میں نے یہ انٹیریئر پہلی مرتبہ دیکھا‘ سوئٹزر لینڈ بہت مہنگا ہے‘ شامنئی کیوں کہ سوئس بارڈر کے ساتھ ہے لہٰذا یہ بھی بہت مہنگا ہے‘ بالخصوص کھانا‘ کافی اور جوس بہت مہنگے ہیں‘ لفٹ کے ٹکٹ بھی مہنگے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ شہر دیکھنے لائق ہے۔

ہم اس شام تھکے ہارے واپس آئے‘ اگلا دن ہم نے لیک جنیوا کے ساتھ واک کر کے اور گھاس پر لیٹ کر گزار دیا‘ میں کام کا عادی ہوں‘ پچھلے 40برسوں سے روزانہ 16 سے 18 گھنٹے کام کررہا ہوں‘ اللہ تعالیٰ نے توانائی سے نواز رکھا ہے‘ میں کام سے تھکتا نہیں ہوں‘ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اس سفر کے دوران کام نہیں کیا‘ کالم بھی نہیں لکھے اور دفتر سے بھی رابطہ نہیں رکھا‘ میرے پرسنل سیشنز بھی تھے‘ وہ بھی نہیں کیے۔

 وی لاگ بھی نہ ہونے کے برابر تھے چناں چہ زندگی میں پہلی مرتبہ مکمل ہڈحرامی انجوائے کی‘ آپ یقین کریں بہت مزہ آیا اور اس سے یہ آگہی بھی ہوئی وہ لوگ جو پوری زندگی ہڈ حرامی میں گزار دیتے ہیں وہ کتنے مزے میں رہتے ہیں‘ لیک جنیوا کے ساتھ لیٹے لیٹے میں نے خواہش کی اگر اللہ تعالیٰ مجھے نئی زندگی دے تو میں وہ تنکا توڑے بغیر گزار دوں گا ‘ مکمل ہڈ حرام ثابت ہوں گا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان ... اور....
  • ٹرمپ کی ٹیرف دھمکیاں؛ بھارت کی اسٹاک مارکیٹس زمین بوس
  • انڈس ڈیلٹا: صفحہ ہستی سے مٹتے گاؤں، سمندر کی نذر ہوتی ایک بھرپور ثقافت، وجہ کیا ہے؟
  • دبئی کے معاشی مرکز میں پاکستان کو مفت زمین، پاکستانی مصنوعات پر ڈیوٹی بھی معاف
  • آج زمین معمول سے زیادہ تیز گھومے گی! دُنیا میں تشویش کی لہر
  • واہ کیا بات ہے!
  • مورج میں چھ دن
  • ’’موٹی لڑکیوں کے رشتے کیوں نہیں ملتے؟‘‘ مسز خان کے سخت الفاظ
  • بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موت
  • منا ڈے