WE News:
2025-11-05@01:52:13 GMT

مسئلہ مکرمی سکندر بخت کو رضوان کی انگریزی سے نہیں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

مسئلہ مکرمی سکندر بخت کا نہیں، ٹی وی کا ہے۔ یہ سکرین کم بخت بلا ہی ایسی ہے کہ خود پہ نمودار ہونے والی ہر شے کو بے سبب بولے چلے جانے پہ مجبور کر چھوڑتی ہے۔

قصور شاید کچھ میزبان کا بھی ہوگا کہ جس نے خمارِ شب کے درماندہ ذہن کو یوں صبح سویرے ہی چھیڑ دیا اور موصوف نیم خوابیدہ لہجے میں گویا ہوئے کہ، ‘سب سے پہلے تو رضوان کو انگلش میں بات نہیں کرنی چاہیے، وہ اردو میں بات کریں یا پھر پشتو میں۔۔۔۔’

مگر مسئلہ محترمی سکندر بخت کو رضوان کی انگریزی سے نہیں ہے۔ مسئلہ پاکستان کے سب سے بڑے چینل کی چال طے کرتے ان اَذہان میں کہیں چھپا ہے جنہیں سال کے 365دن، چوبیسوں گھنٹے اسکرین چلانے کی ذمہ داری تو ہے، مگر قابلِ دید کانٹینٹ پیدا کرنے کی صلاحیت مفقود ہے۔

سپانسرز تو اپنے سودے بیچنے کے لیے ہر قومی تہوار پہ اسپیشل ٹرانسمشنز کی منڈلی سجاتے ہیں اور کرکٹ سے بڑا قومی تہوار بھلا اور کیا ہوگا؟ مگر یہیں سے کرکٹ کی وہ کم بختی شروع ہوتی ہے جہاں اس کے نام پہ رچائے گئے گھنٹوں طویل شوز میں الا ماشااللہ اس کھیل پہ گفتگو کے سوا سبھی کچھ ہوتا ہے۔

بھانڈ اپنا نقالی کا فن بیچتے ہیں، میزبان اپنی چرب زبانی سے ریٹنگ میٹر کو ٹہوکے دیتے ہیں اور مبصرین کی شکل میں امڈے ریٹائرڈ کرکٹرز اپنے جونئیرز کی ناکامیوں پہ گلے پھاڑ پھاڑ وائرل ہونے کی مہم جوئی کرتے ہیں۔ گھنٹوں پھیلی اس ہڑبونگ میں مجال ہے جو کبھی کھیل پہ کوئی ڈھنگ کی بات دیکھنے کو ملے۔

 اگرمسئلہ محترمی سکندر بخت کو انگریزی لسانیات کی پامالی اور گرامر کی توہین پہ ہی ہوتا تو یقیناً سرفراز احمد کبھی بھی ان کے پسندیدہ ترین کپتان نہ بن پاتے۔ مگر وہاں تو قضیہ ہی کچھ اور تھا کہ سرفراز کو تو وہ خود سالہا سال دہائیاں دے کر لائے تھے۔

گو کہ رضوان کی انگلش سرفراز سے بری تو ہرگز نہیں ہے، مگر بدقسمتی رضوان کی یوں ہے کہ ڈومیسائل کراچی سے نہیں اور اس پہ ستم یہ کہ کپتانی کی کرسی پہ بھی وہ سرفراز کی جگہ ہی بیٹھے ہیں اور قصور ان کا یہ بھی ہے کہ حالیہ تاریخ میں وہ بلا شرکتِ غیرے پاکستان کے بہترین کیپر بلے باز ہیں۔

ایسے میں رضوان کو تو ممنون ہونا چاہیے کہ بات صرف ان کی انگریزی تک ہی رک گئی، وگرنہ موصوف بلڈ پریشر کی گولی گھر بھول آتے تو پھر اعتراض ہیلمٹ اتارے وقت بال جھٹکنے پہ بھی ہوتا، کیپنگ کرتے ہوئے ہلنے پہ بھی ہوتا اور اسٹمپ مائیک میں پشتو بولنے پہ بھی ہوتا۔

یہ سوال اپنی جگہ کہ پاکستانی تاریخ کے بہترین بلے باز اور عمدہ کپتان انضمام الحق کی انگریزی مہارت محترم سکندر بخت کے معیارات کے مطابق تھی یا نہیں، لیکن قدرے کم اہم سوال یہ بھی ہے کہ کسی بھی زبان کی مہارت ایک کپتان کے کھیل میں کیا بہتری لاسکتی ہے؟

اس منطق کے اعتبار سے تو اگر انضمام الحق انگلش لٹریچر میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد قومی ٹیم کا حصہ بنتے تو پاکستان 2007 کا ورلڈ کپ ضرور جیتتا اور اگر سرفراز احمد صرف آئلٹس کا ڈپلومہ ہی کرلیتے تو ورلڈ کپ 2019 میں پہلے ہی راؤنڈ سے باہر نہ ہوتے۔

دِقت مگر اس منطق کے پرچارک کی فقط یہ ہے کہ کھیل کا تجزیہ کرنے کو جو بنیادی آگہی درکار رہتی ہے، وہ ذرا معدوم ہے۔ جہاں کھیل کی حرکیات کا تجزیہ پچ، پلئینگ کنڈیشنز، پلئیرز فارم، گیم اسٹریٹیجی اور انفرادی مہارتوں کی بنیاد پہ کرنے کی صلاحیت ماند ہو، وہاں پھر تبصرے ڈومیسائل دیکھ کر اور انگریزی سن کر ہی ہو سکتے ہیں۔

اس منظرنامے میں، سب سے بڑے چینل کے سب سے بڑے دماغوں کو بھی اپنے سرف فروش اور موبائل فروش اسپانسرز سے استدعا کرنی چاہیے کہ جیسے وہ ‘اسپیشل ٹرانسیمشنوں’ کے ایک ایک منٹ کو اپنے اشتہارات سے رونق بخشتے ہیں، ایسے ہی انہیں کوئی بہتر تجزیہ کار بھی اسپانسر کردیں۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم انہی موجودہ سینئر تجزیہ کاروں کی ذہنی صحت کے لیے تو کوئی اسپانسر ڈھونڈ لائیں۔

پاکستانی ٹیم کا کپتان بھلے اپنے اندر لاکھ عیب رکھتا ہو، وہ پھر بھی پورے پاکستان کا نمائندہ ہے اور اس کی تحقیر بھی پورے پاکستان کی تحقیر کے ہی مترادف ہے۔

گو پاکستان کے نمائندگان کی تحقیر میں سب سے بڑا چینل ماشااللہ ہمیشہ سب سے آگے ہی رہا ہے مگر اس کے پالیسی ایڈیٹرز کو یہ یاد دہانی لازم ہے کہ جو لہجہ وہ ٹیکس پہ چلتے اداروں کے نمائندگان بارے اپناتے ہیں، وہ قومی کرکٹرز کے لیے ہرگز روا نہیں ہوسکتا۔

 نہ صرف یہ کرکٹرز اپنی معیشت خود پیدا کرتے ہیں بلکہ اس کی بدولت ایک پورا کرکٹ بورڈ بھی چلاتے ہیں۔ انہی کے کھیل اور اسٹار پاور کی برکت ہے کہ آپ کی بے ڈھنگی اسپیشل ٹرانسمشنز بھی گھنٹوں شیمپو اور مشروبات بیچ بیچ، آپ کی جیبیں بھر سکتی ہیں۔

پاکستان کا وقار اور اس کے نمائندگان کی تعظیم بھلے آپ کی مجبوری نہیں، مگر چینل چلانا اور چوبیس گھنٹے کی نشریات کا پیٹ بھرنا تو آپ کی مالی مجبوری بھی ہے۔ کم از کم اپنے پیٹ کا ہی لحاظ کرکے اس کھیل پہ رحم کردیں کہ قومی کرکٹرز اس قوم کے نمائندے ہیں، آپ کے ٹیکس خور ملازم نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سمیع چوہدری

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کی انگریزی رضوان کی ہیں اور کے لیے اور اس پہ بھی

پڑھیں:

قازقستان کے چیس ماسٹر پاکستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں کے معترف

نوجوان میں شطرنج کا رجحان بڑھانے کیلیے پاکستان اور قازقستان کے درمیان معاہدہ ہوگیا۔

اس حوالے سے قازقستان سے تعلق رکھنے والے ماسٹر چیس شطرنج کے کوچ  زینی بیک ایمانوف Zhanibek Amanov کا کہنا ہے قازقستان چیس فیڈریشن و چیس آف پاکستان کے مابین معاہدے سے پاکستان کے نوجوان چیس کے کھلاڑیوں کو چیس کے کھیل میں مہارت حاصل ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نوجوان کھلاڑی خداد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ نوجوان اس کھیل میں محنت کریں تو عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرسکتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز نمائندہ ایکسپریس سے گفتگو کے دوران کیا۔

قازق چیس کوچ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بارے میں ٹی وی نیٹ اور اخبارات کے بارے آگاہی حاصل ہوئی، جب مجھے میری فیڈریشن نے پاکستانی کھلاڑیوں کی تربیت کے لئے منتخب کیا تو مجھے بہت فخر محسوس ہوا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو تربیت فراہم کروں گا پاکستانی لاجواب لوگ اور چیس کے کھیل سے محبت کرتے ہیں ۔

اُن کا کہنا تھا کہ چیس ایک کھیل نہیں ہے بلکہ اس سے دماغ کی نشو نما ہوتی ہے کیونکہ اس سے آپ حکمرانی کے رموز سیکھتے ہیں، پاکستان میں کھیل بہت تیزی سے مقبول ہورہا ہے اس ضمن میں حکومت کو مزید اقدامات کرنے چاہیے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ اسکول کالج یونیورسٹی اور گلی محلے کی سطح پر اس کھیل کو فروغ دیا جائے یہ کھیل انڈور آف ڈور کھیلا جاسکتا ہے، پاکستان میں چیس بورڈ با آسانی مل جاتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ماسٹر کوچ کاکہنا تھا کہ قازقستان فیڈریشن کے ڈائریکٹر انوار کا پاکستان چیس فیڈریشن کے ساتھ رابطہ ہے اور مستقبل میں بھی پاکستان میں کھلاڑیوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ چیس ٹورنامنٹس کے انعقاد کے حوالے سے بھی پلان تشکیل دیا جائے۔

قازقستان چیس فیڈریشن عالمی چیس فیڈریشن و ایشین چیس فیڈریشن کے ڈیولپمنٹ پروگرام کے پاکستان میں تربیتی پلان ترتیب دیے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان میں متعین قازقستان کے سفارت خانے کی معآونت سے نوجوان کھلاڑیوں کو تربیت دی جارہی ہے پاکستانی کھلاڑی پاکستان کا قیمتی سرمایہ ہوں گے پاکستانی کھلاڑی بہت محنتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • قازقستان کے چیس ماسٹر پاکستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں کے معترف
  • کراچی: ٹریکس نظام سے قبل اونرشپ کا مسئلہ  حل نہیں کیا گیا، چالان گاڑیوں کے سابق مالکان کو ملے گا
  • پاکستان میں ٹیپ بال کرکٹ کے فروغ کے لیے تیمور مرزا کا نجی ادارے کیساتھ بڑا معاہدہ طے
  • سمندر گھنائو نے کھیل پر ھارت کو شدید جواب ملے گا : ڈی جی آئی ایس پی آر 
  • فلسطین کے مسئلہ پر پاکستان اور ترکیہ مل کر کام جاری رکھیں گے
  • اسحاق ڈار کی ترک ہم منصب سے ملاقات، مسئلہ فلسطین سمیت مختلف امورپر تبادلہ خیال
  • پاکستانی ویزا 24 گھنٹوں میں مل جاتا ہے، براہ راست فلائٹ کا مسئلہ ہے: بنگلا دیشی ہائی کمشنر
  • لاہور؛ شوہر کے قتل کا معمہ حل، بیوی اور اسکا آشنا ملوث نکلے
  • لاہور؛ شہری کے قتل کا معمہ حل، بیوی اور اسکا آشنا ملوث نکلے،پولیس
  • سفیر پاکستان رضوان سعید شیخ کا پاک امریکا معاشی تعلقات مضبوط بنانے پر زور