WE News:
2025-04-25@11:36:50 GMT

مسئلہ مکرمی سکندر بخت کو رضوان کی انگریزی سے نہیں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

مسئلہ مکرمی سکندر بخت کا نہیں، ٹی وی کا ہے۔ یہ سکرین کم بخت بلا ہی ایسی ہے کہ خود پہ نمودار ہونے والی ہر شے کو بے سبب بولے چلے جانے پہ مجبور کر چھوڑتی ہے۔

قصور شاید کچھ میزبان کا بھی ہوگا کہ جس نے خمارِ شب کے درماندہ ذہن کو یوں صبح سویرے ہی چھیڑ دیا اور موصوف نیم خوابیدہ لہجے میں گویا ہوئے کہ، ‘سب سے پہلے تو رضوان کو انگلش میں بات نہیں کرنی چاہیے، وہ اردو میں بات کریں یا پھر پشتو میں۔۔۔۔’

مگر مسئلہ محترمی سکندر بخت کو رضوان کی انگریزی سے نہیں ہے۔ مسئلہ پاکستان کے سب سے بڑے چینل کی چال طے کرتے ان اَذہان میں کہیں چھپا ہے جنہیں سال کے 365دن، چوبیسوں گھنٹے اسکرین چلانے کی ذمہ داری تو ہے، مگر قابلِ دید کانٹینٹ پیدا کرنے کی صلاحیت مفقود ہے۔

سپانسرز تو اپنے سودے بیچنے کے لیے ہر قومی تہوار پہ اسپیشل ٹرانسمشنز کی منڈلی سجاتے ہیں اور کرکٹ سے بڑا قومی تہوار بھلا اور کیا ہوگا؟ مگر یہیں سے کرکٹ کی وہ کم بختی شروع ہوتی ہے جہاں اس کے نام پہ رچائے گئے گھنٹوں طویل شوز میں الا ماشااللہ اس کھیل پہ گفتگو کے سوا سبھی کچھ ہوتا ہے۔

بھانڈ اپنا نقالی کا فن بیچتے ہیں، میزبان اپنی چرب زبانی سے ریٹنگ میٹر کو ٹہوکے دیتے ہیں اور مبصرین کی شکل میں امڈے ریٹائرڈ کرکٹرز اپنے جونئیرز کی ناکامیوں پہ گلے پھاڑ پھاڑ وائرل ہونے کی مہم جوئی کرتے ہیں۔ گھنٹوں پھیلی اس ہڑبونگ میں مجال ہے جو کبھی کھیل پہ کوئی ڈھنگ کی بات دیکھنے کو ملے۔

 اگرمسئلہ محترمی سکندر بخت کو انگریزی لسانیات کی پامالی اور گرامر کی توہین پہ ہی ہوتا تو یقیناً سرفراز احمد کبھی بھی ان کے پسندیدہ ترین کپتان نہ بن پاتے۔ مگر وہاں تو قضیہ ہی کچھ اور تھا کہ سرفراز کو تو وہ خود سالہا سال دہائیاں دے کر لائے تھے۔

گو کہ رضوان کی انگلش سرفراز سے بری تو ہرگز نہیں ہے، مگر بدقسمتی رضوان کی یوں ہے کہ ڈومیسائل کراچی سے نہیں اور اس پہ ستم یہ کہ کپتانی کی کرسی پہ بھی وہ سرفراز کی جگہ ہی بیٹھے ہیں اور قصور ان کا یہ بھی ہے کہ حالیہ تاریخ میں وہ بلا شرکتِ غیرے پاکستان کے بہترین کیپر بلے باز ہیں۔

ایسے میں رضوان کو تو ممنون ہونا چاہیے کہ بات صرف ان کی انگریزی تک ہی رک گئی، وگرنہ موصوف بلڈ پریشر کی گولی گھر بھول آتے تو پھر اعتراض ہیلمٹ اتارے وقت بال جھٹکنے پہ بھی ہوتا، کیپنگ کرتے ہوئے ہلنے پہ بھی ہوتا اور اسٹمپ مائیک میں پشتو بولنے پہ بھی ہوتا۔

یہ سوال اپنی جگہ کہ پاکستانی تاریخ کے بہترین بلے باز اور عمدہ کپتان انضمام الحق کی انگریزی مہارت محترم سکندر بخت کے معیارات کے مطابق تھی یا نہیں، لیکن قدرے کم اہم سوال یہ بھی ہے کہ کسی بھی زبان کی مہارت ایک کپتان کے کھیل میں کیا بہتری لاسکتی ہے؟

اس منطق کے اعتبار سے تو اگر انضمام الحق انگلش لٹریچر میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد قومی ٹیم کا حصہ بنتے تو پاکستان 2007 کا ورلڈ کپ ضرور جیتتا اور اگر سرفراز احمد صرف آئلٹس کا ڈپلومہ ہی کرلیتے تو ورلڈ کپ 2019 میں پہلے ہی راؤنڈ سے باہر نہ ہوتے۔

دِقت مگر اس منطق کے پرچارک کی فقط یہ ہے کہ کھیل کا تجزیہ کرنے کو جو بنیادی آگہی درکار رہتی ہے، وہ ذرا معدوم ہے۔ جہاں کھیل کی حرکیات کا تجزیہ پچ، پلئینگ کنڈیشنز، پلئیرز فارم، گیم اسٹریٹیجی اور انفرادی مہارتوں کی بنیاد پہ کرنے کی صلاحیت ماند ہو، وہاں پھر تبصرے ڈومیسائل دیکھ کر اور انگریزی سن کر ہی ہو سکتے ہیں۔

اس منظرنامے میں، سب سے بڑے چینل کے سب سے بڑے دماغوں کو بھی اپنے سرف فروش اور موبائل فروش اسپانسرز سے استدعا کرنی چاہیے کہ جیسے وہ ‘اسپیشل ٹرانسیمشنوں’ کے ایک ایک منٹ کو اپنے اشتہارات سے رونق بخشتے ہیں، ایسے ہی انہیں کوئی بہتر تجزیہ کار بھی اسپانسر کردیں۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم انہی موجودہ سینئر تجزیہ کاروں کی ذہنی صحت کے لیے تو کوئی اسپانسر ڈھونڈ لائیں۔

پاکستانی ٹیم کا کپتان بھلے اپنے اندر لاکھ عیب رکھتا ہو، وہ پھر بھی پورے پاکستان کا نمائندہ ہے اور اس کی تحقیر بھی پورے پاکستان کی تحقیر کے ہی مترادف ہے۔

گو پاکستان کے نمائندگان کی تحقیر میں سب سے بڑا چینل ماشااللہ ہمیشہ سب سے آگے ہی رہا ہے مگر اس کے پالیسی ایڈیٹرز کو یہ یاد دہانی لازم ہے کہ جو لہجہ وہ ٹیکس پہ چلتے اداروں کے نمائندگان بارے اپناتے ہیں، وہ قومی کرکٹرز کے لیے ہرگز روا نہیں ہوسکتا۔

 نہ صرف یہ کرکٹرز اپنی معیشت خود پیدا کرتے ہیں بلکہ اس کی بدولت ایک پورا کرکٹ بورڈ بھی چلاتے ہیں۔ انہی کے کھیل اور اسٹار پاور کی برکت ہے کہ آپ کی بے ڈھنگی اسپیشل ٹرانسمشنز بھی گھنٹوں شیمپو اور مشروبات بیچ بیچ، آپ کی جیبیں بھر سکتی ہیں۔

پاکستان کا وقار اور اس کے نمائندگان کی تعظیم بھلے آپ کی مجبوری نہیں، مگر چینل چلانا اور چوبیس گھنٹے کی نشریات کا پیٹ بھرنا تو آپ کی مالی مجبوری بھی ہے۔ کم از کم اپنے پیٹ کا ہی لحاظ کرکے اس کھیل پہ رحم کردیں کہ قومی کرکٹرز اس قوم کے نمائندے ہیں، آپ کے ٹیکس خور ملازم نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سمیع چوہدری

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کی انگریزی رضوان کی ہیں اور کے لیے اور اس پہ بھی

پڑھیں:

بھارتی اسکرپٹ، پہلگام کی آگ، سفارتی دھواں اور پاکستان

اسلام ٹائمز: کب تک ہم اپنی کمزوریوں کو حکمت و مصلحت کہہ کر تسلی دیتے رہیں گے؟ کب تک دشمن ہماری امن پسندی کو بزدلی اور کمزوری کا نام دیتا رہے گا؟ کب تک ہم ہر زخم کو اپنے جسم کا حصہ مان کر جینا سیکھ لیں گے؟ یاد رکھو، جب دشمن تمہیں مارے اور تم اس کے ساتھ امن کی بات کرو، تو وہ تمہیں ’’امن کا متوالا‘‘ نہیں، ’’ذلت کا بھکاری‘‘ سمجھتا ہے اور اگر قومیں عزت سے نہیں جی سکتیں تو پھر ایسی مریل قوم کا مر کر یا زندہ قبر میں دفن ہو جانا بہتر ہے۔ تحریر: بلال شوکت آزاد

یہ صرف پہلگام میں ہونے والا ایک حملہ نہیں تھا۔ یہ صرف چند سیاحوں پر ہونے والی فائرنگ نہیں تھی۔ یہ صرف بھارتی میڈیا کی چند گھنٹوں کی چیخ و پکار نہیں تھی۔ یہ اس پڑوسی کی طرف سے ایک بار پھر ایک منظم، منصوبہ بند، اور سفارتی جنگ کا اعلان تھا، جس کی رگوں میں خون کے بجائے فریب، سازش، اور جھوٹ کی سیاہی دوڑتی ہے۔ اور افسوس! کہ ایک بار پھر ہم تماشائی ہیں۔ بغلیں جھانکتے، بیانات کے زہریلے خنجر کھاتے اور اپنے اندر جھانکنے سے قاصر۔ پہلگام حملے کے بعد بھارت کا طرز عمل کسی سوگوار ملک کا نہیں بلکہ ایک پیشہ ور اسکرپٹ رائٹر کا تھا، جس نے ہر ڈائیلاگ، ہر ایکشن، ہر ردعمل کو پہلے سے لکھی گئی اسکرپٹ کے مطابق نبھایا۔ حملہ ہوا اور اگلے ہی لمحے:
1۔ سندھ طاس معاہدہ معطل
2۔ اٹاری بارڈر بند
3۔ سارک ویزے منسوخ
4۔ ہائی کمیشن عملہ واپس بلایا گیا
5۔ پاکستانی سفارتی عملے کو نکالا جا رہا ہے
یہ ردعمل اتنا منظم، اتنا مکمل اور اتنا جلدی تھا کہ جیسے برسوں سے کسی کمپیوٹر میں بند ایک فائل صرف Enter کا انتظار کر رہی تھی اور وہ Enter شاید نئی دہلی میں کسی "گودھرا زدہ" میز پر بیٹھے ایک انتہاپسند بیوروکریٹ نے دبایا تھا۔ ایک بار پھر بھارت نے اپنے خونخوار عزائم کو سفارتی دھوئیں میں لپیٹ کر دنیا کے سامنے رکھا، اور ہم جواب دینے کے بجائے ایک "تحمل کی علامت" بنے کھڑے ہیں۔ کیا ہمیں اندازہ بھی ہے کہ دشمن ہمیں کس نظر سے دیکھ رہا ہے؟ A safe punching bag of the region! ایک ایسا punching bag، جو نہ چلاتا ہے، نہ چبھن کا اظہار کرتا ہے، بس مار کھاتا ہے۔ پہلگام حملہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ یہ وہی پرانا "False Flag Operation" طریقہ ہے، جسے بھارت پچھلی دو دہائیوں سے کامیابی سے استعمال کر رہا ہے۔

پلوامہ 2019ء: حملہ خود کروایا، الزام پاکستان پر، اور آرٹیکل 370 دفن کر دیا۔
اوڑی حملہ 2016ء: فوجی کیمپ پر حملہ، اور "سرجیکل اسٹرائیک" کا ڈرامہ۔
ممبئی حملے 2008ء: اپنے ہی سسٹم کی دراڑوں کو چپکا کر پاکستان کے خلاف دنیا کو اکٹھا کیا۔

ان تمام واقعات میں ایک چیز مشترک ہے کہ بھارت کا ردعمل اس قدر منظم، فیصلہ کن اور جلد ہوتا ہے کہ لگتا ہے جیسے وہ سانحہ نہیں، کسی بالی وڈی فلم کا اسکرپٹڈ سین ہو اور اگر کوئی پوچھے کہ ثبوت کہاں ہیں؟ تو بس ایک بات کافی ہے کہ جس ملک کی سپریم کورٹ خود قبول کرے کہ گودھرا میں مسلمانوں کو زندہ جلانے کا واقعہ ایک منظم سازش تھی اور جس کی پارلیمان خود اعتراف کرے کہ مسلح افواج مقبوضہ کشمیر میں جعلی انکاؤنٹرز کرتی رہی ہیں، وہاں جھوٹ کا ثبوت مانگنا سچ کے منہ پر طمانچہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟
اب ذرا اپنے گریبان میں جھانکئے۔ بلوچستان میں را کی ثابت شدہ کارروائیاں، جعفر ایکسپریس کے دھماکے، کراچی میں تخریب کاری، سی پیک منصوبوں پر حملے، اور افغانستان سے آنے والے ہتھیار، کیا ہم نے کبھی بھارت کے خلاف کوئی اتنا بروقت، شدید اور ہمہ گیر ردعمل دیا ہے؟ کبھی کسی معاہدے کو معطل کیا؟ کبھی سفارتی عملہ نکالا؟ کبھی دنیا بھر کے سفیروں کو بلا کر ہنگامی بریفنگ دی؟ نہیں، ہم صرف یہ کرتے ہیں:
مذمت
قرارداد
صبر کا مظاہرہ
امن کی خواہش
اور اس کے بعد؟ ایک دو talk shows، کچھ جذباتی tweets، اور پھر ایک نئے سانحے کا انتظار۔ دنیا سفارتی جنگ میں اخلاقیات کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتی۔ وہ طاقت، حکمت عملی اور ردعمل کو تولتی ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ پاکستان صرف دفاع کرتا ہے، اور دفاع ہمیشہ آدھی شکست ہوتا ہے۔
اگر ہم سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتے، تو کیوں؟
اگر ہم را کے دہشتگردوں کی لسٹیں اقوام متحدہ اور FATF کو نہیں بھیج سکتے، تو کیوں؟
اگر ہم اپنے سفارتی مشن کو صرف مہمانداری تک محدود رکھتے ہیں، تو آخر کب تک؟
اگر ہم نے پلوامہ پر خاموشی اختیار کی، تو اس کا نتیجہ آرٹیکل 370 کا قتل نکلا۔ اگر ہم پہلگام پر بھی خاموش رہے، تو نتیجہ پاکستان کے عالمی تنہائی کے گڑھے کی طرف ایک اور قدم ہوگا۔

یہ وہی بھارت ہے جو ابھی کل تک بنگلہ دیش کے قیام کو "عظیم فتح" کہتا تھا۔ جو بلوچستان کے بارے میں کھلے عام بات کرتا ہے۔ جو افغانستان میں پاکستان مخالف حکومتیں پال کر انہیں ریاستی معاونت دیتا ہے۔ جو اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان کو بلیک میل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اس کے باوجود ہم ان کے فلمی اداکاروں کو بلاتے ہیں، تجارت کے دروازے کھولتے ہیں، اور بات چیت کی خواہش میں مرے جاتے ہیں۔

کب تک؟
کشمیر کے وہ نوجوان، جنہیں پتھر اٹھانے پر اندھا کر دیا گیا، آج پہلگام حملے کو "پہچانی ہوئی سازش" کہہ رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بھارت کو صرف ایک بہانہ چاہیئے اور وہ بہانے اس کا میڈیا، اس کی فوج، اس کی خفیہ ایجنسیاں اور اس کا سفارتی نیٹ ورک سب مل کر تیار کرتے ہیں اور ہم؟ ہم اب بھی سوچ رہے ہیں کہ ’’کیا بھارت واقعی مخلص ہوگا؟‘‘

کب تک ہم اپنی کمزوریوں کو حکمت و مصلحت کہہ کر تسلی دیتے رہیں گے؟ کب تک دشمن ہماری امن پسندی کو بزدلی اور کمزوری کا نام دیتا رہے گا؟ کب تک ہم ہر زخم کو اپنے جسم کا حصہ مان کر جینا سیکھ لیں گے؟ یاد رکھو، جب دشمن تمہیں مارے اور تم اس کے ساتھ امن کی بات کرو، تو وہ تمہیں ’’امن کا متوالا‘‘ نہیں، ’’ذلت کا بھکاری‘‘ سمجھتا ہے اور اگر قومیں عزت سے نہیں جی سکتیں تو پھر ایسی مریل قوم کا مر کر یا زندہ قبر میں دفن ہو جانا بہتر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ںہروں کا مسئلہ حل، دھرنے ختم کیے جائیں، وزیر اعلیٰ سندھ
  • تلخ کلامی کے بعد محمد رضوان اور کولن منرو مشکل میں پھنس گئے!
  • بھارتی اسکرپٹ، پہلگام کی آگ، سفارتی دھواں اور پاکستان
  • ایک مرتبہ پھر کھیل میں سیاست لے آیا۔پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے انکار
  • کولن منرو، افتخار احمد کی لفظی جنگ؛ رضوان بھی کود پڑے
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! “کرکٹ نہیں کھیلیں گے”
  • سلمان خان کی فلم سکندر باکس آفس پر سست روی کا شکار
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! کرکٹ نہیں کھیلیں گے
  • نہروں کے معاملہ پر عوام میں تشویش، مسئلہ حل کرنے کی کوشش نہیں ہو رہی، شاہد خاقان
  • قومی زبان اپنا کر ترقی کی جاسکتی ہے، احسن اقبال