مسئلہ مکرمی سکندر بخت کو رضوان کی انگریزی سے نہیں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
مسئلہ مکرمی سکندر بخت کا نہیں، ٹی وی کا ہے۔ یہ سکرین کم بخت بلا ہی ایسی ہے کہ خود پہ نمودار ہونے والی ہر شے کو بے سبب بولے چلے جانے پہ مجبور کر چھوڑتی ہے۔
قصور شاید کچھ میزبان کا بھی ہوگا کہ جس نے خمارِ شب کے درماندہ ذہن کو یوں صبح سویرے ہی چھیڑ دیا اور موصوف نیم خوابیدہ لہجے میں گویا ہوئے کہ، ‘سب سے پہلے تو رضوان کو انگلش میں بات نہیں کرنی چاہیے، وہ اردو میں بات کریں یا پھر پشتو میں۔۔۔۔’
مگر مسئلہ محترمی سکندر بخت کو رضوان کی انگریزی سے نہیں ہے۔ مسئلہ پاکستان کے سب سے بڑے چینل کی چال طے کرتے ان اَذہان میں کہیں چھپا ہے جنہیں سال کے 365دن، چوبیسوں گھنٹے اسکرین چلانے کی ذمہ داری تو ہے، مگر قابلِ دید کانٹینٹ پیدا کرنے کی صلاحیت مفقود ہے۔
سپانسرز تو اپنے سودے بیچنے کے لیے ہر قومی تہوار پہ اسپیشل ٹرانسمشنز کی منڈلی سجاتے ہیں اور کرکٹ سے بڑا قومی تہوار بھلا اور کیا ہوگا؟ مگر یہیں سے کرکٹ کی وہ کم بختی شروع ہوتی ہے جہاں اس کے نام پہ رچائے گئے گھنٹوں طویل شوز میں الا ماشااللہ اس کھیل پہ گفتگو کے سوا سبھی کچھ ہوتا ہے۔
بھانڈ اپنا نقالی کا فن بیچتے ہیں، میزبان اپنی چرب زبانی سے ریٹنگ میٹر کو ٹہوکے دیتے ہیں اور مبصرین کی شکل میں امڈے ریٹائرڈ کرکٹرز اپنے جونئیرز کی ناکامیوں پہ گلے پھاڑ پھاڑ وائرل ہونے کی مہم جوئی کرتے ہیں۔ گھنٹوں پھیلی اس ہڑبونگ میں مجال ہے جو کبھی کھیل پہ کوئی ڈھنگ کی بات دیکھنے کو ملے۔
اگرمسئلہ محترمی سکندر بخت کو انگریزی لسانیات کی پامالی اور گرامر کی توہین پہ ہی ہوتا تو یقیناً سرفراز احمد کبھی بھی ان کے پسندیدہ ترین کپتان نہ بن پاتے۔ مگر وہاں تو قضیہ ہی کچھ اور تھا کہ سرفراز کو تو وہ خود سالہا سال دہائیاں دے کر لائے تھے۔
گو کہ رضوان کی انگلش سرفراز سے بری تو ہرگز نہیں ہے، مگر بدقسمتی رضوان کی یوں ہے کہ ڈومیسائل کراچی سے نہیں اور اس پہ ستم یہ کہ کپتانی کی کرسی پہ بھی وہ سرفراز کی جگہ ہی بیٹھے ہیں اور قصور ان کا یہ بھی ہے کہ حالیہ تاریخ میں وہ بلا شرکتِ غیرے پاکستان کے بہترین کیپر بلے باز ہیں۔
ایسے میں رضوان کو تو ممنون ہونا چاہیے کہ بات صرف ان کی انگریزی تک ہی رک گئی، وگرنہ موصوف بلڈ پریشر کی گولی گھر بھول آتے تو پھر اعتراض ہیلمٹ اتارے وقت بال جھٹکنے پہ بھی ہوتا، کیپنگ کرتے ہوئے ہلنے پہ بھی ہوتا اور اسٹمپ مائیک میں پشتو بولنے پہ بھی ہوتا۔
یہ سوال اپنی جگہ کہ پاکستانی تاریخ کے بہترین بلے باز اور عمدہ کپتان انضمام الحق کی انگریزی مہارت محترم سکندر بخت کے معیارات کے مطابق تھی یا نہیں، لیکن قدرے کم اہم سوال یہ بھی ہے کہ کسی بھی زبان کی مہارت ایک کپتان کے کھیل میں کیا بہتری لاسکتی ہے؟
اس منطق کے اعتبار سے تو اگر انضمام الحق انگلش لٹریچر میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد قومی ٹیم کا حصہ بنتے تو پاکستان 2007 کا ورلڈ کپ ضرور جیتتا اور اگر سرفراز احمد صرف آئلٹس کا ڈپلومہ ہی کرلیتے تو ورلڈ کپ 2019 میں پہلے ہی راؤنڈ سے باہر نہ ہوتے۔
دِقت مگر اس منطق کے پرچارک کی فقط یہ ہے کہ کھیل کا تجزیہ کرنے کو جو بنیادی آگہی درکار رہتی ہے، وہ ذرا معدوم ہے۔ جہاں کھیل کی حرکیات کا تجزیہ پچ، پلئینگ کنڈیشنز، پلئیرز فارم، گیم اسٹریٹیجی اور انفرادی مہارتوں کی بنیاد پہ کرنے کی صلاحیت ماند ہو، وہاں پھر تبصرے ڈومیسائل دیکھ کر اور انگریزی سن کر ہی ہو سکتے ہیں۔
اس منظرنامے میں، سب سے بڑے چینل کے سب سے بڑے دماغوں کو بھی اپنے سرف فروش اور موبائل فروش اسپانسرز سے استدعا کرنی چاہیے کہ جیسے وہ ‘اسپیشل ٹرانسیمشنوں’ کے ایک ایک منٹ کو اپنے اشتہارات سے رونق بخشتے ہیں، ایسے ہی انہیں کوئی بہتر تجزیہ کار بھی اسپانسر کردیں۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم انہی موجودہ سینئر تجزیہ کاروں کی ذہنی صحت کے لیے تو کوئی اسپانسر ڈھونڈ لائیں۔
پاکستانی ٹیم کا کپتان بھلے اپنے اندر لاکھ عیب رکھتا ہو، وہ پھر بھی پورے پاکستان کا نمائندہ ہے اور اس کی تحقیر بھی پورے پاکستان کی تحقیر کے ہی مترادف ہے۔
گو پاکستان کے نمائندگان کی تحقیر میں سب سے بڑا چینل ماشااللہ ہمیشہ سب سے آگے ہی رہا ہے مگر اس کے پالیسی ایڈیٹرز کو یہ یاد دہانی لازم ہے کہ جو لہجہ وہ ٹیکس پہ چلتے اداروں کے نمائندگان بارے اپناتے ہیں، وہ قومی کرکٹرز کے لیے ہرگز روا نہیں ہوسکتا۔
نہ صرف یہ کرکٹرز اپنی معیشت خود پیدا کرتے ہیں بلکہ اس کی بدولت ایک پورا کرکٹ بورڈ بھی چلاتے ہیں۔ انہی کے کھیل اور اسٹار پاور کی برکت ہے کہ آپ کی بے ڈھنگی اسپیشل ٹرانسمشنز بھی گھنٹوں شیمپو اور مشروبات بیچ بیچ، آپ کی جیبیں بھر سکتی ہیں۔
پاکستان کا وقار اور اس کے نمائندگان کی تعظیم بھلے آپ کی مجبوری نہیں، مگر چینل چلانا اور چوبیس گھنٹے کی نشریات کا پیٹ بھرنا تو آپ کی مالی مجبوری بھی ہے۔ کم از کم اپنے پیٹ کا ہی لحاظ کرکے اس کھیل پہ رحم کردیں کہ قومی کرکٹرز اس قوم کے نمائندے ہیں، آپ کے ٹیکس خور ملازم نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کی انگریزی رضوان کی ہیں اور کے لیے اور اس پہ بھی
پڑھیں:
بھارت کے بڑی طاقت ہونے کا جھوٹا تاثر ختم ہو گیا، جلیل عباس جیلانی
لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ بھارت نے جارحیت کی ہے، پاکستان امن پسند ملک ہے، ہم کافی عرصے سے بھارت کو کہہ رہے تھے کہ مسائل پُرامن طریقے سے حل کیے جائیں، بھارت کی جارحیت پر پاکستان کے جواب سے دنیا میں بھارت کے امیج کو دھچکا لگا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستانی سفارتی وفد کے رکن جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن تمام ممبران کے ساتھ اچھی بات چیت ہوئی، یو این کے سیکرٹری جنرل اور صدر جنرل اسمبلی سے بھی ملاقات ہوئی۔ لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ بھارت نے جارحیت کی ہے، پاکستان امن پسند ملک ہے، ہم کافی عرصے سے بھارت کو کہہ رہے تھے کہ مسائل پُرامن طریقے سے حل کیے جائیں، بھارت کی جارحیت پر پاکستان کے جواب سے دنیا میں بھارت کے امیج کو دھچکا لگا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کافی عرصے سے الزام تراشی کر رہا تھا اب کسی نے بھارت کے بیانیے کو قبول نہیں کیا، بھارت نے کچھ ممالک کو بھی قائل کرنے کی کوشش کہ وہ بڑی طاقت ہے۔ جلیل عباس جیلانی نے کہا بھارت کے بڑی طاقت ہونے کا جھوٹا تاثر ختم ہو گیا ہے، پاکستان نے بھارت کے 6 جہاز گرائے، سسٹم جام کیا، فوجی تنصیبات کو ہٹ کیا، حالیہ جنگ کے بعد مسئلہ کشمیر پوری دنیا میں عالمی مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔
دریں اثناء پاکستانی سفارتی وفد کی رکن سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ اور مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کے ارکان کے ساتھ بات کی، آج سندھ طاس معاہدہ نظر انداز کیا جاتا ہے تو پھر مستقبل میں کسی معاہدے کی وقعت نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم امن کا پیغام لے کر آئے ہیں لیکن اس کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے کہا کہ تجارت اور معیشت سے متعلق ٹرمپ کی فلاسفی کے ساتھ وزیرِاعظم شہباز شریف کی فلاسفی میچ کرتی ہے، پاکستان اور بھارت جنگ میں جاتے ہیں تو پورا خطہ متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا میں ہمیں بہتر رسپانس ملا ہے، پاکستان اس کو سیز فائر کہہ رہا ہے اور بھارت اس کو ایک وقفہ کہہ رہا ہے، آج کشمیر اور سندھ طاس معاہدے کا مسئلہ حل نہ ہوا تو 6 ماہ بعد معاملہ پھر بڑھ جائے گا، ہم چاہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اس معاملے میں کردار ادا کریں تاکہ خطہ جنگ سے متاثر نہ ہو۔
پاکستانی سفارتی وفد کے رکن اور سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پانی کا معاملہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا ہے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کا یہ خیال تھا کہ ٹرمپ نے سیز فائر کرا دیا مزید مداخلت کی ضرورت نہیں، ہمارا مشن ان کو یہ سمجھانا تھا کہ مداخلت کی ضرورت ہے، بھارت نہ غیر جانبدار انکوائری اور نہ بات کرنا چاہتا ہے۔ خرم دستگیر نے یہ بھی کہا کہ ہم نے یہ بات سمجھائی کہ پانی کے ساتھ 24 کروڑ لوگوں کی زندگی منسلک ہے۔